محبت، جنگ اور واپسی


بڑھتی ہوئی عمر کے تقاضے میں جب میرے دونوں گھٹنے حد سے زیادہ تکلیف دینے لگے تو میں نے اور میرے بچوں نے متفقہ طور پر یہی فیصلہ کیا کہ انہیں تبدیل کروا لیا جائے۔ پہلے گھٹنے کی دفعہ میں امریکہ کے شہر بالٹی مور میں تھی لہذا وہیں کے مشہور و معروف ہڈیوں کے سرجن سے اپائنٹمنٹ لی اور دل ہی دل میں ہمت باندھی۔ کیونکہ ڈر تو لگ ہی رہا تھا۔

یہ ڈاکٹر سود انڈین تھے۔ بات چیت اور انداز سے ہی علم ہوتا تھا کہ امریکہ میں ہی پیدا ہوئے، پلے بڑھے ہیں۔ کافی خشک مزاج اور روکھے سے تھے۔ مگر مجھے تو آپریشن ہی کروانا تھا اس لئے اس بات کو نظر انداز کر کے علاج پر ہی توجہ مرکوز رکھی۔ سچ تو یہ ہے کہ ڈاکٹر سود نے کم عمر ہونے کے باوجود بہت مہارت سے میرا آپریشن کیا اور مجھے توقع سے بہت کم تکلیف ہوئی۔ غالباً اس کی درد کی مینجمنٹ کا انتظام بہت اچھا تھا مگر اگلی بار اس سے کچھ مختلف تجربہ ہوا۔

دوسرے گھٹنے کا آپریشن Ohio سٹیٹ کے ایک پاکستانی ڈاکٹر صاحب نے کیا جو بہت شفیق اور نرم طبع تھے۔ یہ کچھ عمر رسیدہ مگر شہر میں اچھے سرجن کے طور پر مشہور اور قابل سمجھے جاتے تھے۔ ڈاکٹر سود کی نسبت مجھ سے اردو میں بات کرتے، دھیان سے سنتے۔ مجھے بہن کہہ کر بلاتے تو مجھے کچھ اچھا اور عجیب بھی محسوس ہوتا کیونکہ امریکہ میں پروفیشنل لائف کے اعتبار سے کوئی کسی کو بہن، آنٹی، انکل، چاچا کہہ کر نہیں بلاتا بلکہ نام ہی لیا جاتا ہے۔ دوسرا آپریشن بھی بخیریت انجام پا گیا اور خدا کا شکر ادا کیا لیکن ایمان کی بات تو یہ ہے کہ ڈاکٹر سود کے آپریشن کے بعد مجھے اتنی تکلیف نہیں ہوئی تھی جتنی پاکستان سرجن کے آپریشن کے بعد ہوئی۔

یہ خیال بھی کچھ مزیدار سا تھا کہ اب میرے بدن میں ہندو پاک دونوں یکجا ہو چکے ہیں۔ آج میری ایک ٹانگ پاکستانی اور ایک ہندوستانی ہے۔ حقیقی طور پر ہندو پاک کی ایسی ہم آہنگی کا امکان یوں تو کم ہی ہے ہوتا، بہرحال میرے اعضا نے یہ کرامت کر دکھائی۔ آج میں دھڑلے سے کہہ سکتی ہوں کہ مجھ میں ہند و پاک دوستی، دشمنی، کھٹاس، مٹھاس، لڑائی، صلح، اختلاف، مفاہمت، چال چلن سب کچھ سمویا جا چکا ہے۔ یعنی اب میرا بدن وہ برصغیر ہے جس کی صرف آرزو ہی کی جا سکتی ہے۔

اس میں ہندوستان پاکستان، متوازی ہو کر قدم سے قدم ملا کر چل رہے ہیں۔ اگر درحقیقت ایسا ہو جائے تو برصغیر کے باسی کتنی سکھی زندگی گزارنے لگیں۔ یہ خطہ امن و آشتی کا گہوارہ، محبت کی آماجگاہ بن جائے مگر ایسا تو خواب ہی لگتا ہے۔ شاید ہند و پاک کے رہنماؤں نے تہیہ کر رکھا ہے کہ ہم قیامت تک کبھی ایک دوسرے کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر نہیں چلیں گے بلکہ ایک دوسرے کے گھٹنے زمین پر لگا کر ہی چھوڑیں گے۔ شاید اس خطے کے نصیب میں امن چین لکھا ہی نہیں گیا۔

آپریشن کے بعد ہسپتال میں قیام محض دو دن کا ہوتا ہے۔ دونوں شہروں کے ہسپتال کے اعلیٰ نظام، سٹاف کی توجہ اور کیئر کے باعث بہت جلد ریکوری کی طرف چل پڑی۔ معمول کے مطابق مجھے گھٹنے کے آپریشن کے اگلے ہی دن کھڑا کر کے چلانے کی مشقیں شروع کروا دی گئیں۔ میں واکر سے چند قدم لیتی اور پھر حوصلہ کر کے مزید چلنے کی کوشش کرتی۔ آپریشن کے بعد جوائنٹ کو رواں رکھنے کے لئے یہ سب ضروری ہوتا ہے۔

دو دن بعد مجھے ہسپتال سے چھٹی مل گئی، چونکہ امریکہ کے اولڈ ہومز میں بہت اچھے فزیوتھراپی کے پروگرامز ہوتے ہیں لہذا میں نے اور بچوں نے مل کر یہی فیصلہ کیا کہ مجھے اولڈ ہوم میں داخل ہوجانا چاہیے تاکہ باقاعدگی سے مناسب ورزشیں کر سکوں اور جلد سے جلد ٹھیک ہو جاؤں۔ امریکی میں اولڈ ہومز بوڑھوں کی رہائش اور دوسرے مریضوں کی Rehabilitation (بحالی) کے لئے بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ امریکی فیملیوں میں گھر کے تقریباً سبھی افراد کام کرتے اور معیشت میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں لہذا گھر پر بوڑھوں کی دیکھ بھال کرنے کو کوئی موجود نہیں ہوتا۔ ایسے میں اولڈ ہومز ہی وہ ادارے ہیں جو بزرگوں کو سنبھالتے ہیں۔ ان کی سب ضروریات پوری کرتے ہیں۔ کھانا، پینا، اٹھنا، بیٹھنا، میڈیکل کیئر غرض ہر چیز کا انتظام ہوتا ہے اور یوں بوڑھے افراد خانہ نظر انداز نہیں ہوتے۔

میں جس اولڈ ہوم میں دوسری بار داخل ہوئی وہ خوبصورت، صفائی ستھرائی اور معیار میں کسی فائیو سٹار ہوٹل سے کم نہ تھا۔ کشادہ کمرے، صاف ستھرے باتھ روم، لمبے لمبے کاریڈور، پررونق بڑے بڑے ڈائننگ ہال سبھی کچھ بہت دلکش تھا لیکن ماحول میں وہ پژمردگی، اداسی، تنہائی اور ویرانی تھی جو ہر اولڈ ہوم پر آسیب کی طرح چھائی محسوس ہوتی ہے۔ وہاں رہنے والے بوڑھے بیمار، لاچار، بیزار، مایوس مسکین دیکھ کر میرا جی الٹنے لگتا مگر وہاں رہنا تو مجبوری اور ضروری تھا۔ علاج کے بغیر میرا نیا گھٹنا کارآمد نہیں ہو سکتا تھا۔ بوڑھوں کو بے بس دیکھ کر مجھے بہت دکھ ہوتا۔

جس رہائشی بوڑھے یا بڑھیا کو ملتی یہی کہتے سنتی کہ ہمیں اپنا گھر بہت یاد آتا ہے۔ ان کے اندر بس یہ آرزو تڑپتی دیکھی کہ کسی طرح اپنے گھر چلے جائیں۔ میں ان کی باتیں سن کر سوچتی۔ آخر ان لوگوں نے اپنے گھروں میں جا کر کرنا کیا ہے؟ نہ کوئی کھانا پکائے نہ کھلائے، نہ برتن دھوئے، نہ کوئی دیکھ بھال کرے۔ مگر چونکہ امریکہ میں بہت سے لوگ اور خاص طور پر بوڑھے اکیلے ہی رہنے کے عادی ہیں۔ اس لئے اپنے گھر جانے سے گھبراتے نہیں، اپنے ٹھکانے پر پہنچنے کے لئے تڑپتے رہتے ہیں۔

میرے کمرے کے آدھے حصے میں ایک اور بوڑھی عورت کا بیڈ تھا جو ایک سفید فام امریکن تھی۔ مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ مجھ جیسے نان وہائٹ عورت سے کوئی واسطہ تعلق رکھنا نہیں چاہتی۔ میں نے بھی سوچا اس سے الگ تھلگ ہی رہوں گی۔ اسے ڈسٹرب نہ کروں گی۔ اس کی بیٹی البتہ جب بھی اس سے ملنے آتی مجھ سے خوش اخلاقی سے پیش آتی۔

ایک ویک اینڈ ایسا آیا کہ اس کی بیٹی نے وزٹ نہ کی۔ میری روم میٹ پورا دن بے خبر پڑی سوتی رہی تو مجھے تشویش ہونے لگی۔ اس نے اپنے کمرے میں آنے والے کھانے کی کسی ٹرے کو ہاتھ تک نہ لگایا نہ ہی آنکھیں کھولیں۔ دوسرا دن چڑھ آیا تو مجھے پریشانی لاحق ہو گئی۔ میں دبے پاؤں اس کے قریب گئی اور جا کر اسے دیکھا کہ وہ ٹھیک ہے یا نہیں؟ یہ ڈر بھی لگ رہا تھا کہ اگر اس نے آنکھیں کھول دیں اور مجھے اپنے اوپر جھکا دیکھا تو کہیں مجھ پر بگڑ ہی نہ جائے۔ میں فکر مند ہوتی چلی گئی کہ یہ اٹھتی کیوں نہیں؟

تیسرے دن بالآخر اس کی بیٹی اسے ملنے آ ہی گئی۔ جب ماں کو پکارا اور جواب نہ ملا تو پریشان ہو گئی۔ ماں کو بری طرح گندگی اور گیلے پن میں لتھڑا دیکھ کر بہت سیخ پا ہوئی۔ میں بھی رہ نہ سکی اور اسے بتا دیا کہ اس کی ماں نے دو دن سے نہ کچھ کھایا نہ پیا اور نہ ہی آنکھ کھولی ہے۔ یہ سن کر بیٹی نے تو ہنگامہ ہی کھڑا کر دیا اور سٹاف کی خوب سرزنش کی۔ عام طور پر ایسی لاپرواہی کبھی دیکھنے میں نہیں آتی مگر شاید ویک اینڈ سٹاف نے اپنے فرائض صحیح طور پر انجام نہیں دیے تھے اور مریضہ کو اس حال پر پہنچا دیا تھا۔

مجھے رہ رہ کر یہی خیال آتا کہ یہ لوگ مر کیوں نہیں جاتے؟ کیوں موت کے کنویں کے اندر چلنے والی تیز رفتار موٹر سائیکل پر بیٹھے ہیں؟ جو صرف گول گول گھومنا جانتی ہے، دائرے بناتی ہے۔ زوں کر کے کنویں سے باہر نکل کیوں نہیں جاتی؟ انہیں قید حیات و غم سے نجات حاصل کیوں نہیں ہوتی؟ کیا ہی اچھا ہو کہ یہ لوگ اس دائرے کے سفر سے نکل کر فنا کے لامتناہی سلسلے کا حصہ بن کر لافانی ہو جائیں۔ آخر موت پر انسان کا اختیار کیوں نہیں کہ جب جی چاہا بٹن دبایا اور مکتی پا گئے۔ آخر انسان اتنا پائیدار، مجبور کمزور کیوں بنایا گیا ہے؟

اولڈ ہوم کے گیٹ پر اکثر صبح سویرے کوئی نہ کوئی ایمبولینس یا Feneral ہوم کی گاڑی آتی تو مجھے ایک انجانی سی مسرت ہوتی۔ یہ سوچ کر خوشی ہوتی کہ شاید آج کوئی پرندہ اپنے قفس سے آزاد ہو گیا ہے۔ جسم روح کا قفس ہی تو ہوتا ہے۔ شاید آج کسی کی اس بے کار زندگی سے جان چھوٹ گئی ہو۔ کبھی کبھی میں خود اپنے اوپر حیران ہوتی کہ میں کیسی ظالمانہ اور بے رحمانہ خواہش کرنے لگی تھی۔ میں دعا کرتی تھی کہ اجل وہاں مہمان بن کر آئے اور جاتے سمے اپنے ساتھ ایک آدھ تحفہ بھی لے جائے۔

المیہ تو یہ ہے کہ امریکن ہیلتھ کیئر سسٹم اتنا فعال اور خیال کرنے والا ہے کہ مرتے مرتے بھی لوگوں کو بچا لیتا ہے۔ انشورنس کمپنیاں بل بھیجتی رہتی ہیں، اولڈ ہوم والے لمبی رقمیں بٹورتے رہتے ہیں اور زندگی یونہی سسکتی، گھسٹتی چلتی رہتی ہے۔ جیون اور مرن کا آنکھ مچولی کا کھیل جاری رہتا ہے۔

اولڈ ہوم کے معمولات لگے بندھے سے ہوتے ہیں۔ عین سات بجے صبح ناشتہ، بارہ بجے لنچ اور شام پانچ بجے ڈنر۔ اس کے بعد کوئی سرگرمی ہوتی نظر نہیں آتی۔ سب مکین اپنے اپنے کمروں میں بھیج دیے جاتے ہیں۔ نرسیں دوائیں دینے، ٹمپریچر، بلڈ پریشر چیک کرنے کا سلسلہ شروع کر دیتی ہیں۔ شام ہوتے ہی اولڈ ہوم پہ مردنی سی چھا جاتی ہے جسے مجھ جیسی سیمابی طبیعت والی کے لئے جھیلنا بہت مشکل ہو جاتا۔ شام سے رات تک کا وقت کمپیوٹر پر پرانے گانے سن کر یا کاریڈور میں چہل قدمی کر کے گزارنا پڑتا۔ وقت کاٹے نہیں کٹتا تھا۔ اپنی تو عادت ہمیشہ سے الوؤں والی رہی ہے۔ شب بھر جاگنا دن میں بھی مارے مارے پھرنا۔ سو میرے لئے ان معمولات سے ایڈجسٹ کرنا بہت مشکل ہو جاتا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments