کیا خود کو مسلسل دہرانے والا نرگسیت کے پرسنیلٹی ڈس آرڈر کا شکار ہوتا ہے؟


کیا نرگسیت پسندی ایک مرض ہے؟ کیا خود پسندی یا خود پرستی ایک سنجیدہ ذہنی بیماری ہے؟ کیا اس قسم کی ذہنی بیماری کا شکار بندہ ایک مثبت و مستحکم شخصیت کا مالک ہو سکتا ہے؟ کیا عشق ذات میں مبتلا شخص کوئی اہم ذمہ داری کو بخوبی نبھانے کا اہل ہو سکتا ہے؟ کیا خودستائی، لاف زنی، ڈینگ بازی اور محویت بالذات قسم کا بندہ ملک و قوم اور آئین کے ساتھ مخلص ہو سکتا ہے؟ موجودہ سیاسی پس منظر اور یک شخصی ہسٹریائی پروپیگنڈا کے تناظر میں ان سوالوں کا جواب ڈھونڈنے کی ضرورت ہے مگر بصد احترام جو ذہنی دیانت اور نیوٹرل اپروچ کے حامی ہیں انہیں ان سوالات کا جواب ڈھونڈنے میں بہت لطف آئے گا لیکن جو پہلے سے روایتی یا شخصی بخار میں مبتلا ہو کر ان سوالات کا سرا تلاش کرنے کی کوشش فرمائیں گے ان کے ہاتھ سوائے ”سازش“ کے کچھ نہیں آئے گا، اس لئے ایسے نازک دل والوں کو اس قسم کی ذہنی مشقت سے احتراز برتنا چاہیے۔ نرگسیت پسند یا خود پرستی میں مبتلا شخص کے اندر یہ چند موٹی موٹی علامات پائی جاتی ہیں جو کہ درج ذیل ہیں۔

1۔ مبالغہ آرائی کی حد تک خود اہمیت کا شکار ہونا۔
2۔ خود کے متعلق استحقاقی کیفیت کا شکار ہونے کے بعد ہر وقت حد سے زیادہ تعریف کی تمنا رکھنا۔
3۔ بغیر کوئی قابل ذکر کارکردگی دکھائے خود کو اعلی تسلیم کیے جانے پر بضد رہنا۔
4۔ اپنی حادثاتی کامیابیوں یا صلاحیتوں پر مبالغہ آرائی کی حد تک اترانا۔
5۔ اپنی ذات کے متعلق پہلے سے درجنوں خوش فہمیاں پال لینا جیسا کہ خوبصورتی اور پرفیکٹ ہونا وغیرہ۔

6۔ اپنے انداز گفتگو میں دوسروں پر تسلط جمانے والا انداز اختیار کیے رکھنا اور ان لوگوں کو مسلسل تضحیک اور نفرت کا نشانہ بنائے رکھنا جنہیں یہ مریض ذہن پہلے سے غلط تسلیم کرچکا ہو۔

7۔ دوسرے لوگوں سے متعلق غیر رضامندی والا رویہ رکھنا اور ان کے احساسات و ضرور یات کو سمجھنے سے قاصر رہنا۔

8۔ دوسروں کے متعلق حاسدانہ رویہ رکھنا اور یہ یقین کر لینا کہ دوسرے اس سے جلتے ہیں۔
9۔ رویے میں انتہائی رعونت اور تکبر رکھنا اور اتفاق سے ملنے والی کامیابی پر گھٹیا انداز سے اترانا۔
10۔ اسپیشل ٹریٹمنٹ کی سپلائی لائن کٹتے ہی انتہائی بے صبری اور غصے کا اظہار کرنے لگ پڑنا۔
11۔ ہر وقت خود کے متعلق عدم تحفظ اور ڈس رسپیکٹ کیے جانے کے وہم کا شکار رہنا۔
12۔ اپنے جذبات اور رویوں کو منظم رکھنے میں بری طرح سے ناکام رہنا۔

13۔ اگر کوئی بڑا بن کر کچھ سمجھانے کی غلطی کر لے تو فوری ردعمل کے طور پر اس کی گھٹیا انداز میں تضحیک شروع کر دینا۔

یہ خود پرستی میں مبتلا شخص کی انتہائی سنجیدہ قسم کے ذہنی مرض میں مبتلا ہونے کی علامات ہیں اور ان میں عقل والوں کے لئے بہت سی نشانیاں موجود ہیں، تھوڑی سی ذہنی مشقت کے بعد موجودہ سیاسی بھونچال کا پورا خاکہ سامنے آ جائے گا کہ کیسے اس عوام کو ”مسیحا کمپلیکس“ کا شکار اور ایک نرگسیت زدہ شہزادے کو نجات دہندہ پینٹ کرنے میں اور بظاہر ماڈرن لکنگ لیکن اندرونی طور پر روایتی بیٹریوں کے اسیر ”اوریا مقبول جان یا ہارون رشید“ مائنڈ سیٹ کے لوگ ٹی وی سکرین پر بیٹھ کر کمپین چلانے میں مصروف ہیں اور اس پروپیگنڈا مہم کو محفوظ مذہبی لبادہ اوڑھانے کے لئے ایم ٹی جے برانڈ کے سربراہ مولانا طارق جمیل کی خدمات لی جا رہی ہیں۔

جنہوں نے 27 ویں شب بنی گالہ کے اوپر منڈلاتے سیاہ سایوں سے نجات کے لیے روحانی اور رقت آمیز دعا کروائی، سوچنے والی بات یہ ہے کہ کیا مولانا کا یہ روحانی ٹریٹمنٹ ”نجات دہندہ دوراں“ کے خدشات یا فوبیاز کو ختم کرنے میں مدد گار ثابت ہو سکے گا جن خدشات کا اظہار انہوں نے کچھ اس انداز میں کیا ہے کہ ”عید کے بعد یہ میری کردار کشی کریں گے“ ایسا لگتا تو نہیں ہے، سیانے شاید صحیح کہہ گئے ہیں جو بوؤ گے وہی کاٹو گے۔ ویسے اس مہان قوم کے کیا کہنے جو ایک طویل عرصہ سے ایک ہی قسم خیالی گفتگو سننے کے باوجود بھی حوصلہ برقرار رکھے ہوئے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments