گاؤں کی ’کینو‘ بیری اور لانگرول


چیتر کا مہینہ جلتے سورج کی آنچ تیز کر دیتا تو کسانوں کے چہرے دھوپ میں تپ کر گندمی ہو جاتے۔ یہی کڑک دھوپ گندم کے خوشوں میں لپٹے دودھیا دانوں کو دھیرے دھیرے پکاتی رہتی۔ سنہری رنگ کرنوں کی سیڑھی لگا کر سورج سے اتر کر گندم کے ’سٹوں‘ میں رہنے لگتا۔

کھیتوں میں کام کرتے کسانوں کے جسم پہ پسینے کی ندیاں بہنے لگتیں اور انہیں ٹاہلی کی ٹھنڈی چھاؤں میں بیٹھ کر سبز مرچ کی چٹنی، مکھن اور لسی سے دوپہر کی روٹی کھانا اچھا لگنے لگتا۔

کنک (گندم) پکنے میں بس کچھ ہی دن رہ گئے ہیں۔ گاؤں والوں نے چن پیر کے میلے سے نئی درانتیاں خرید لی ہیں یا اپنے ’سیپی والے‘ لوہار سے بنوا لی ہیں۔ پرانی درانتیوں کے دندے چاچا شریف لوہار سے تیز کروا لیے ہیں۔ چونکہ کنک کی واڈھی شروع ہونے کو ہے خواتین نے صحن میں بنے مٹی کے بھڑولوں کی صفائی لپائی مکمل کر لی ہے۔ ہر گھر کے آنگن میں لگے نیم کے سر سبز پیڑوں پہ بور لگ گیا ہے۔ چڑیوں نے تنکا تنکا چونچوں میں لا کر چھتوں کے دریچوں میں گھونسلے بنانے شروع کر دیے ہیں۔

گاؤں کی دوپہریں گرم اور خاموش ہو چکی ہیں۔ تپتی دوپہر میں کوئل کی کو کو سنائی دیتی ہے تو بستی میں پھیلی خاموشی اور بھی گہری ہو جاتی ہے۔ فاختہ کی گھو گھو گھوہ میں عجب اداسی سی بھری ہے۔

اسی چیتر کی اداس دوپہروں میں بیریوں کے کچے، کھٹے بیروں میں مٹھاس بھر جاتی تھی۔ بیر پک جاتے تھے۔

ابو بتاتے ہیں کہ ان کے بچپن میں گاؤں میں بے شمار بیریاں ہوا کرتی تھیں۔ آج بھی ان کے لال سرخ اور میٹھے بیروں کی خوشبو یادوں میں بستی ہے اور ان کے نام دل کی زمین پہ ثبت ہیں۔

قبرستان کے پاس ’لالو والا ٹویا‘ تھا جہاں سے گاؤں کی عورتیں کچے گھروں کی لپائی پوچے کے لیے مٹی لے جاتی تھیں۔ اسی گڑھے کے پہلو میں ’گھڑمالن‘ بیری ہوتی تھی۔ لمبی چوڑی شاخیں، اچی لمبی، دیو ہیکل، اسی لیے تو گھڑمالن کہلاتی تھی۔ اس کے بیر چھوٹے چھوٹے ہوتے، گٹھلی اتنی باریک کہ مالٹے کا بیج ہو جیسے۔ میٹھے اتنے کہ زباں پہ کھنڈ مصری کی ڈلی گھل گئی ہو جیسے۔

ایک ’کھاری‘ نام کی بیری بھی تو ہوتی تھی۔ گول مٹول، چھتری نما۔ گھر میں رکھی کھاری جیسی جس کے نیچے دودھ، لسی، روٹی وغیرہ ہم ڈھانپ کر رکھتے تھے۔ یا مرغیوں کو رات کے وقت اس کے نیچے بند کر دیتے تھے۔ اسی کھاری جیسی، پیاری اور من بھاتی۔ اس کے بیر سیب کی سی شکل کے ہوتے تھے۔

ایک کا نام ’گدڑی‘ تھا۔ گیدڑ تو سبھی بیریوں کے نیچے گرے بیر کھانے رات کو آ جاتے تھے۔ ساتھ حقی حقی واں کی تانیں بھی لگاتے۔ پھر اسی بیری کا نام گدڑی کیوں پڑا یہ کسی کو پتا نہیں تھا۔

’چھتی‘ بیری کو تو یہ نام اس لیے ملا کہ اس پہ کانٹوں کی بہتات تھی۔ اتنے گھنے کانٹے کسی اور بیری کے نہیں تھے۔ اس کی شاخوں سے گزرنا محال ہوتا۔ لیکن بیر اتنے خوش ذائقہ پیدا کرتی کہ لوگ کانٹوں کو جھیل کر بھی اس کے بیر اتار لاتے۔ بیر کھانے کے لیے جسم کے کئی حصوں کو کانٹوں سے چھدوا لیتے۔ بیروں کی حفاظت کے لیے اتنے کانٹوں کا پہرہ لگاتی تھی تو رب جانے بیر کیوں اتنے میٹھے پیدا کرتی تھی۔ چھتی بیری آج ہوتی تو اس سے پوچھتے۔

مجفریوں والے کھوہ پہ ایک ’کینو‘ بیری ہوتی تھی۔ بس ذرا سی ہوا چلتی، چڑیاں اس کی شاخوں پہ پھدکتیں یا ذرا سا کوئی ’جھونا‘ مار دیتا تو بیروں کی کن من برسات ہونے لگتی۔ بیر یوں ٹپ ٹپ زمیں پہ گرتے جیسے ساون کی موسلا دھار بارش ہو رہی ہو۔

کینو بیری نا جانے کیوں اتنی آسانی سے بیر گرا دیتی تھی۔ گاؤں کی باقی بیریاں تو ایسی نا تھیں۔ کچھ تو اتنی ’چیڑی‘ ہوتی تھیں کہ ڈھیلے پتھر مارو، زور زور سے جھونے مارو، آندھی آئے یا طوفان وہ لاڈ پیار سے پلے، من پہ اگے بیروں کو اپنے سے جدا کرنے کو تیار نا ہوتیں۔ چرواہے بانس سے بندھے کاپے سے اس کی شاخیں کاٹ دیتے یا پھر کوئی پتھر کسی بیر کو زور سے لگ جاتا تو وہ بیر منہ بسورے بوجھل دل کے ساتھ زمیں پہ آ گرتا۔ چیڑی بیری کو اپنے بیروں سے کتنا پیار ہوتا تھا۔ ہم گاؤں والے اس کا بھی ایک ایک بیر اتار کر ہڑپ کر جاتے تھے۔ بیری کو کتنا برا لگتا ہو گا۔

گاؤں کے آس پاس جتنے کھوہ (کنویں) تھے سبھی پہ بیری کے درخت موجود تھے۔ مجفریاں والا کھوہ، نم والا کھوہ، ٹاہلی والا کھوہ، کچا کھوہ، پپل والا کھوہ، جھورو کھوہ، کدھی والا کھوہ، بانگی کھوہ، بوٹی والا کھوہ، محمد والا کھوہ، کراڑاں والا کھوہ غرض کہ ہر کھوہ پہ گندم پکتے ہی بیر پک جاتے تھے۔

ٹولیوں کی شکل میں لڑکے بالے بیریاں ’جھوننے‘ جاتے۔ ایک لڑکا بیری پہ چڑھ کر شاخوں، ٹہنیوں کو زور زور سے ہلاتا۔ باقی سب زمیں پہ گرے بیروں کو چن چن جھولیاں بھر لیتے۔ درخت پہ چڑھنے والے کو کانٹے بھی چبھتے اور خراشیں بھی لگتی تھیں۔ اسی لیے تو جب بیر بانٹنے لگتے تو وہ مٹھی بھر لال سرخ بیر الگ کر لیتا۔ کہتا یہ میری ’کنڈے پرائی‘ ہے۔ کانٹے لگنے کا معاوضہ۔ بیر چننے والے بھی ایک ایک مٹھی الگ کر لیتے۔ یہ ان کی ’پیر گھسائی‘ ہوتی۔ باقی بچنے والے بیر برابر حصوں میں بانٹ لیتے۔

بیریوں پر چھوٹی چھوٹی سنڈیاں بھی رہتی تھیں۔ جسم کو چھو جاتیں تو خارش رکنے کا نام نا لیتی۔ جلد پر سرخ رنگ کے ’دھپڑ‘ پڑ جاتے۔ بیروں کا سارا مزہ کرکرا ہو جاتا۔

لوگ بیروں کی گٹھڑیوں کی گٹھڑیاں باندھ کر گھر لے آتے۔ لال لال بیر تو کھا لیے جاتے، جو پورے پکے نا ہوتے وہ مٹی کے گھڑوں، کوریوں میں بند کر کے رکھ دیے جاتے۔ چند دن میں وہ بھی پک جاتے۔

دھوپ میں بیروں کو سکھایا جاتا تو وہ ’بھگڑیاں‘ بن جاتے جو سردی کی لمبی راتوں میں رضائیوں میں دبکے، کہانیاں سنتے سناتے سبھی لوگ کھاتے رہتے۔

گرمیوں میں اکثر آنکھ کے پپوٹے سوج جاتے تھے جسے ہم ’گوندڑکی‘ کہتے تھے۔ اس کا علاج بھی بیری کے پتوں میں پنہاں ہوتا تھا۔ بیر کے دو چار پتے کانٹے میں پرو کر ایسے گھر کے دروازے پہ ٹانگ دیتے جس میں ڈھائی افراد رہتے۔ میاں، بیوی اور ایک بچہ۔ کہتے تھے جیسے جیسے بیری کے پتے خشک ہوتے جائیں گے، گوندڑکی بھی ختم ہوتی جائے گی۔

ہمارے پرائمری سکول کے صحن میں بیری کے دو پیڑ تھے۔ دونوں ایک دوسرے سے بہت مختلف مزاج رکھتے تھے۔ ایک مشرقی دیوار کے ساتھ تو دوسرا مغربی دیوار کے قریب اگا تھا۔ ایک کے بیر جلدی پک جاتے تو دوسرے کے بہت دیر بعد ۔ ایک کے بیر میٹھے تو دوسرے کے کھٹے، بد ذائقہ اور گلے کو پکڑنے والے۔

ایک ہی آنگن میں رہتے ہوئے یہ بیریاں اتنی الگ کیوں تھیں ایک دوسری سے۔ یہ تو ہمارے سکول کے استاد بھی نہیں جانتے تھے۔

ایک بیری بابا محمد یار کمہار کے دروازے کے ساتھ ہوا کرتی تھی۔ آدھی شاخیں گھر میں جھکی ہوئیں اور آدھی باہر۔ بابے ممے کی بیری سے بیر اتارنا کٹھن کام ہوتا تھا۔ اتنا تو چھتی بیری کے بیر اتارنا بھی مشکل نہیں تھا۔ جیسے ہی کوئی بچہ بیری کے قریب جاتا بابا مما غصے میں ڈوبی ہوئی گالیوں کی بوچھاڑ کر دیتا۔ اس کا کالے رنگ کا پالتو کتا کاٹ کھانے کو دوڑتا۔

ہم سکول میں سے اس کے چھپر کی اوٹ لے کر آتے اور ایک دم بیری پہ وٹوں (بٹوں) سے حملہ کر کے بھاگ جاتے۔ سکول میں لگے نیم کے درختوں پہ چڑھ کر دم سادھ لیتے یا کمروں کے پیچھے جا چھپتے۔ بابا محمد یار کمہار کا کتا بھونک بھونک کر ہلکان ہو جاتا اور بابا مما برا بھلا کہہ کر تھک جاتا تو ہم ڈھلتی دھوپ چھاؤں کی طرح دبے پاؤں بیری کے نیچے جاتے اور بیر ڈھونڈتے۔

بابا مما کمہار مٹی کے برتن بناتا تھا۔ چکنی مٹی کے بورے اپنے گدھوں پہ لاد کر کہیں سے لے آتا اور گھر کے ایک کونے میں ڈھیر کر دیتا۔ پانی ملا کر مٹی کو تیار کرتا۔ پھر چھپر کے نیچے لکڑی کے چاک پر مٹی کے ’پنے‘ رکھتا۔ پاؤں سے چاک گھماتا۔ بوڑھی انگلیوں کو پانی میں ڈبو کر مٹی پہ رکھتا تو بے ڈھب مٹی کے تھوبے خوبصورت صراحیاں اور گھڑے بن جاتے۔ تھتوے سے مزید سنوارتا۔ ان پر بیل بوٹے بناتا اور دھوپ میں سوکھنے کے لیے رکھ دیتا۔ سوکھے برتن آوی میں پکا کر نکالتا تو سنہری رنگ کے دل کش کھنکتے برتن تیار ہو جاتے۔

پھر گاؤں کے سبھی گھروں میں برتن دیتا اور بدلے میں لوگ اسے ہاڑی میں گندم دیتے۔

اس کے صحن میں گھڑے، گھڑولیاں، ڈولے، کوریاں، پیالے، دوریاں، صراحیاں اور ساہنکیں قطاروں میں جڑی رہتی تھیں۔ پورا صحن مٹی کے برتنوں سے بھرا ہوتا۔ بیر اتارنے والے بچوں کے پتھر اگر صحن میں گریں گے تو بابا محمد یار کمہار کے برتن تڑک جائیں گے۔ مٹی کے وہ برتن بابے ممے کا جیون تھے۔ زندگی کے چاک پہ خوابوں کی مٹی سے خوش رنگ اور خوبصورت شکل میں ڈھالی ہوئی بے شمار سدھریں۔ اب چنچل بچوں کے ہاتھوں ان کو ٹوٹتا کون دیکھے۔

ابو جب کام کاج کر کے شام کو گھر لوٹتے تو ان کے سر پر دودھ سے بھری گاگر ہوتی تھی اور دھوتی کی ڈب میں بیر باندھ لاتے تھے۔ خود نا کھاتے، ہم بچوں کے لیے چن لاتے۔ ان بیروں میں مٹھاس کے ساتھ ساتھ ابو کے پیار کی خوشبو بھی شامل ہوتی جو ہمارے من کے روئیں روئیں میں بس جاتی تھی۔

گاؤں کے درختوں پر لانگر ول (امر بیل) بھی چڑھ جاتی تھی۔ شرارتی بچے لانگر ول کو مٹھی بھر توڑ کر کسی بیری کے پیڑ پر بھی پھینک دیتے۔ بس دیکھتے ہی دیکھتے وہ سبز پیلے رنگ کی بیل پھیلتی جاتی اور تمام شاخوں کو لپیٹ میں لے لیتی۔ پیڑ کا گویا دم گھٹنے لگتا اور وہ دھیرے دھیرے سوکھنے لگتا۔

میٹھے بیر دینی والی بیریوں پر بھی بھلا کوئی لانگر ول پھینکتا ہے۔ عقل کے گھاٹے ہیں۔ یہ سب بڑے کہتے جو بیری کے پاس سے گزرتے۔

وقت گزرتا گیا تو بیری کے درخت کم ہوتے گئے۔ بیر اتارتے بچوں کے پاؤں سے لتڑ کر گندم خراب ہونے لگی۔ بانگی کھوہ کے چاچا موندے جیسے کسان بوڑھے ہو گئے جو بچوں کو بیر اتارتے دیکھ کر بڑبڑاتے نہیں تھے۔ گندم کے نقصان سے زیادہ ان کو بچوں کی خوشی عزیز تھی۔

سکول کی بیریاں ایک ساتھ ہی نا جانے کب سوکھ گئیں۔ بابا محمد یار کمہار کی بیری مٹی کے برتنوں کی طرح جلد ہی ٹوٹ کر خاک ہو گئی۔ تمام ڈھاریوں، کھوہوں کی سب بیریاں کٹ گئیں۔ کینو جو چھم چھم بیر گراتی تھی ایک دن خود بھی گر گئی۔ گھڑمالن جیسی تناور بھی ختم ہو گئیں۔

ان بیریوں نے صدیوں سے انسانوں کو بیر دے کر خود محفوظ اور زندہ رہنا سیکھا تھا۔ پھر انسان کو یہ سودا گھاٹے کا لگا تو اس نے سب کے گلے دبا دیے۔

وقت کی لانگر ول جو پڑی تو سبھی ہرے بھرے پیڑ اپنے بور اور پھلوں کی بھینی بھینی خوشبو لیے روانہ ہو گئے۔ گاؤں چھوڑ گئے۔ اب ڈھونڈنے سے بھی بیری کا درخت نہیں ملتا۔ لانگر ول اب بھی گاؤں کے کسی درخت کی شاخوں سے سانپ کی طرح لپٹی دکھائی دیتی ہے۔

میرے گاؤں کی سبھی بیریاں ’کینو‘ تھیں کم بخت۔ ذرا سا وقت گزرا تو گاؤں کی دھرتی سے بارش کی بوندوں کی طرح کن من گر گئیں۔ وہ بیر چننے والے کیا ہوئے؟ ’کینو‘ لوگ۔ جیون پیڑ کی شاخوں سے ٹوٹ کر کن من برس گئے۔ ٹپ ٹپ ٹپ۔

احمد نعیم چشتی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

احمد نعیم چشتی

احمد نعیم چشتی درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔ سادہ اور چھوٹے جملوں میں بات کہتے ہیں۔ کائنات اور زندگی کو انگشت بدنداں تکتے رہتے ہیں۔ ذہن میں اتنے سوال ہیں جتنے کائنات میں ستارے۔ شومئی قسمت جواب کی تلاش میں خاک چھانتے مزید سوالوں سے دامن بھر لیا ہے۔

ahmad-naeem-chishti has 77 posts and counting.See all posts by ahmad-naeem-chishti

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments