جب عمران خان نے صدارتی ریفرنڈم میں پرویز مشرف کو ووٹ ڈالا


20 سال قبل 30 اپریل 2002ء کو فوجی آمر جنرل پرویز مشرف ایک متنازعہ ریفرنڈم میں واحد امیدوار کے طور پر 4 کروڑ 28 لاکھ 4 ہزار ووٹ لے کر پاکستان کے صدر ”منتخب“ ہوئے۔ 12 اکتوبر 1999ء کو وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد جنرل پرویز مشرف نے پاکستان کے ”چیف ایگزیکٹو“ کے طور پر خود ساختہ عہدے کا چارج سنبھالا۔ 20 جون 2001ء کو چیف ایگزیکٹو جنرل پرویز مشرف نے بھارت یاترا سے قبل اس وقت کے صدر محمد رفیق تارڑ کو گھر بھیج کر صدارت کا عہدہ بھی سنبھال لیا تھا جبکہ اسی روز ہی ایک حکم نامے کے ذریعے پارلیمان اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کو بھی تحلیل کر دیا گیا۔

5 اپریل 2002ء کو جنرل پرویز مشرف نے قوم سے اپنے خطاب میں صدارتی ریفرنڈم کرانے کا اعلان کیا تھا۔ 30 اپریل 2002ء کو متنازع ریفرنڈم ہوا جس میں واحد امیدوار کے طور پر جنرل پرویز مشرف ”بھاری اکثریت“ سے صدر مملکت بن گئے۔

اس ریفرنڈم میں جنرل پرویز مشرف کو 4 کروڑ 28 لاکھ 4 ہزار ووٹ جبکہ مخالفت میں 8 لاکھ 83 ہزار 676 ووٹ ملے۔ نامکمل ووٹوں کی تعداد 2 لاکھ 82 ہزار 676 تھی جب کہ ٹوٹل کاسٹ شدہ ووٹوں کی تعداد 4 کروڑ 39 لاکھ 70 ہزار 352 تھی۔ ووٹنگ کی شرح 56.10 فیصد تھی جس میں جنرل پرویز مشرف کے حق میں 97.97 فیصد پڑے۔ یعنی اتنے ووٹ جتنے آج تک کسی بھی عام انتخابات میں کسی بھی پارٹی کے تمام امیدواروں نے مل کر حاصل نہیں کیے۔

ریفرنڈم میں ”فقیدالمثال“ کامیابی کے بعد اگست 2002ء میں صدر جنرل پرویز مشرف نے معطل شدہ آئین میں ترمیم کے لیے ایل ایف او یعنی لیگل فریم ورک آرڈر جاری کیا جس کے تحت صدر کے اسمبلی تحلیل کرنے، نیشنل سیکیورٹی کونسل کے قیام اور اعلٰی عدلیہ کے ججوں کی ریٹائرمنٹ کی عمر میں توسیع کے حوالے سے ترامیم کی گئیں۔

10 اکتوبر 2002ء کو پاکستان میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ہوئے۔ ان انتخابات میں منتخب ہونے والے ارکان قومی اسمبلی نے 36 دن بعد 16 نومبر کو حلف اٹھایا۔ جب کہ 19 نومبر کو سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے انتخابات ہوئے جس میں چوہدری امیر حسین سپیکر اور سردار یعقوب ڈپٹی سپیکر کے طور پر منتخب ہوئے۔ 30 نومبر 2002ء کو صدر جنرل پرویز مشرف نے نئے وزیراعظم میر ظفر اللہ جمالی سے حلف لیا۔

31 دسمبر 2003ء کو صدر جنرل پرویز مشرف کی توثیق کے بعد 17 ویں ترمیم پاکستان کے آئین کا باقاعدہ حصہ بن گئی۔ 17 ویں ترمیم متحدہ مجلس عمل کے ساتھ معاہدے کے بعد پیش کی گئی۔ اس بل کے تحت صدر پرویز مشرف آئندہ سال 2004ء کے آخر تک فوجی وردی اتار دیں گے۔

یکم جنوری 2004ء کو پارلیمان اور صوبائی اسمبلیوں کے 658 ارکان نے صدر جنرل پرویز مشرف کے حق میں ووٹ دیا۔ وزیر اعظم میر ظفر اللہ خان جمالی کے مستعفی ہو جانے کے بعد 30 جون 2004ء کو چوہدری شجاعت حسین جب کہ 28 اگست 2004ء کو شوکت عزیز نے وزارت اعظمی کے منصب کا حلف اٹھایا۔

9 مارچ 2007ء کو صدر مشرف نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو ان کے عہدے سے ہٹا کر ان کے خلاف ریفرنس دائر کر دیا اور اس طرح صدر جنرل پرویز مشرف کے خلاف ایک احتجاجی تحریک شروع ہو گئی۔ 2 اکتوبر 2007ء کو انہوں نے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل اشفاق پرویز کیانی کو ترقی دے کر فوج کا نیا سربراہ نامزد کر دیا جب کہ لیفٹیننٹ جنرل طارق مجید کو چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی نامزد کر دیا۔

6 اکتوبر 2007ء کو ہونے والے صدارتی انتخاب میں جنرل پرویز مشرف دوبارہ صدر ”منتخب“ ہو گئے جبکہ ان کی اہلیت کے حوالے سے صدارتی امیدوار جسٹس وجیہہ الدین کی درخواست سپریم کورٹ کے فل بنچ کے روبرو زیر سماعت تھی۔

3 نومبر 2007ء کو صدر پرویز مشرف نے ملک میں ایمرجنسی لگا دی۔ انہوں نے اعلی عدلیہ کے ججوں اور آئین کو معطل کر دیا اور پی سی او کے تحت ججوں سے حلف لیا گیا۔ 11 نومبر 2007ء کو صدر پرویز مشرف نے اسمبلیاں 15 نومبر کو ختم کرنے اور عام انتخابات جنوری کے اوائل میں کرانے کا اعلان کیا۔

15 نومبر 2007ء کو صدر مشرف نے قومی اسمبلی کی آئینی مدت مکمل ہونے پر اس کو تحلیل کر دیا اور ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ چیئرمین سینیٹ محمد میاں سومرو کو پاکستان کا نگران وزیر اعظم مقرر کر دیا۔ 16 نومبر 2007ء کو صدر جنرل مشرف نے نگران وزیراعظم اور کابینہ سے حلف لیا۔ 18 فروری 2008ء کو ہونے والے عام انتخابات میں صدر پرویز مشرف کی حامی جماعت مسلم لیگ (ق) کو شکست کا سامنا کرنا پڑا اور پاکستان پیپلز پارٹی کو حکومت سازی کا موقع ملا۔

واضح رہے کہ ”نئے“ پاکستان کے ”معمار“ اور جدید ”ریاست مدینہ“ کے ”خدائی فوجدار“ عمران خان نے 30 اپریل 2002ء کو فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کو باوردی صدر ”منتخب“ کرانے کے لیے اس ”محیر العقول“ ریفرنڈم میں ووٹ ڈالتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں امید ہے کہ جنرل مشرف کرپٹ سیاست دانوں اور پارٹیوں کو سیاست سے دور رکھیں گے۔

ان سطور میں ہم ”ہم سب“ کے قارئین کی معلومات میں اضافہ کرتے چلیں کہ پاکستان کے آئین میں کسی اہم قومی معاملے پر عوامی رائے کو جاننے کے لیے ریفرنڈم کروانے کی گنجائش تو موجود ہے لیکن آئین کی اس شق کو اس وقت استعمال کیا گیا جب آئین معطل تھا۔ پاکستان میں دو مرتبہ ریفرنڈم کروایا گیا اور دونوں بار فوجی جرنیلوں نے آئین کی معطلی کے دوران صدر مملکت کے منصب پر قابض ہونے کے لیے ریفرنڈم کروانے کا اعلان کیا اور بعد ازاں فوجی وردی میں ہی ملک کے صدر بن گئے۔

پہلا ریفرنڈم 19 دسمبر 1984ء کو اس وقت کے فوجی آمر جنرل محمد ضیاء الحق نے ملک میں عام انتخابات کرانے اور آئین کو بحال کرنے سے قبل کروایا۔ اس طرح جنرل پرویز مشرف نے بھی آئین کی بحالی اور انتخابات سے پہلے 30 اپریل 2002ء کو ریفرنڈم کے ذریعے اپنے صدر پاکستان بننے کا اعلان کیا۔

آئین پاکستان کے آرٹیکل 48 کی ذیلی شق 6 میں ریفرنڈم کا تذکرہ کیا گیا ہے اور آئین کے اس آرٹیکل کے تحت اگر صدر مملکت کسی وقت اپنی صوابدید پر یا وزیر اعظم کے مشورے پر یہ سمجھے کہ یہ مناسب ہو گا کہ قومی اہمیت کے کسی معاملے پر ریفرنڈم کرایا جائے تو صدر اس معاملے کو ایک سوال کی شکل میں جس کا جواب ”ہاں“ یا ”نہیں“ میں دیا جاسکتا ہو، ریفرنڈم کرانے کا حکم دے گا۔ پارلیمان کے ایکٹ کے ذریعے ریفرنڈم کرنے اور ریفرنڈم کے نتیجے کی تدوین اور طریقہ کار مقرر کیا جا سکے گا۔

جب 14 اگست 1973ء کو آئین بنا تو اس میں ریفرنڈم کروانے کی کوئی شق یا گنجائش نہیں تھی۔ مارچ 1977ء کے عام انتخابات کے بعد اپریل میں آئین میں ترمیم کی گئی اور ریفرنڈم کروانے کی شق آئین میں شامل ہو گئی۔ ریفرنڈم کروانے کے لیے آئین میں ترمیم اس لیے کی گئی تھی تاکہ اس وقت حزب مخالف کے احتجاج سے پیدا ہونے والی صورت میں ضرورت پڑنے پر وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو دوبارہ ریفرنڈم کے ذریعے عوام سے رجوع کرتے اور فیصلہ لیتے۔ ان کے بقول ریفرنڈم کی اس شق کو صرف ایک ہی مرتبہ استعمال ہونا تھا تاہم اس سے پہلے ریفرنڈم کروانے کی ضرورت پڑتی جنرل ضیاء الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کو برطرف کر دیا۔

جنرل محمد ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف نے جو ریفرنڈم کروائے تھے آئین کے تحت نہیں تھے کیونکہ اس وقت آئین معطل تھا اور جو نام و نہاد ریفرنڈم ہوئے وہ مارشل لاء کے قواعد کے تحت ہوئے اس لیے نہ تو وہ ریفرینڈم آئینی تھے اور نہ عوام نے ریفرنڈم کے نتائج کو تسلیم کیا۔ جس شخص نے آئین میں ترمیم کر کے ریفرنڈم کروانے کی گنجائش پیدا کی وہ خود کبھی اس سہولت کو استعمال نہ کر سکے۔

دونوں فوجی جرنیلوں نے جو ریفرنڈم کرائے ان کا انتظام الیکشن کمیشن آف پاکستان نے کیا تھا اور ان دونوں ریفرنڈم میں یہ فرق ہے کہ جنرل محمد ضیاء الحق کے ریفرنڈم میں انتخابی فہرستیں استعمال کی گئیں جب کہ جنرل مشرف کے ریفرنڈم میں ہر کسی کو ووٹ ڈالنے کی اجازت تھی اور بیلٹ بکس پبلک مقامات پر رکھے گئے تھے۔ اگرچہ پاکستان میں آئین کی بحالی کے دوران کبھی بھی کسی اہم قومی معاملے پر ریفرنڈم نہیں کروایا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments