بچوں کے خلاف جنسی جرائم: پاکستان میں گذشتہ برس بچوں سے جنسی تشدد کے واقعات میں 30 فیصد اضافہ

حمیرا کنول - بی بی سی اردو ڈاٹ کام آسلام آباد


بلوچستان
فائل فوٹو
ویڈیوز بنانے، شعر پڑھنے کے شوقین 10 برس کے حمزہ یوسف لاپتہ ہوئے اور پھر ان کی لاش گمشدگی کے پانچ دن بعد گھر کے قریب ایک زیرِ تعمیر مکان کی ٹینکی سے ملی۔

راولپنڈی کے حمزہ کو محلے میں پتنگ بیچنے والے شخص نے پہلے لاپتہ کیا اور پھر ریپ کے بعد قتل کر دیا۔

قاتل نے پولیس کو بتایا کہ ‘بچہ صبح آٹھ بجے میرے پاس آیا تھا اور میں نے ریپ کے بعد اسے منع کیا تھا کہ کسی کو مت بتانا مگر اس نے کہا کہ وہ بتائے گا۔‘

پولیس کا کہنا ہے کہ ملزم نے اس سے قبل بھی ایک بار بچے کا ریپ کیا تھا اور قتل سے قبل دو بار بچے کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ ملزم نے دس بجے حمزہ کو قتل کر کے گھر کے اندر پانی کی ٹینکی میں پھینک دیا۔

پولیس کا کہنا ہے کہ حمزہ ایک بہت ہی پراعتماد بچہ تھا، وہ شاید اس روز باہر جا کر اپنے ساتھ ہونے والے ریپ کے بارے میں کسی کو بتاتا لیکن اسے اس کی مہلت ہی نہ مل سکی۔

حمزہ کے والد یوسف مزدوری کرتے ہیں۔ انھوں نے علاقے کے لوگوں کے ساتھ مل کر احتجاج بھی کیا۔ وہ کہتے ہیں ‘میں چاہتا ہوں ہمیں انصاف ملے اور کسی اور بچے کے ساتھ حمزہ جیسا سلوک نہ ہو۔‘

حمزہ کے قتل کا مقدمہ ابھی شروع نہیں ہوا۔ حمزہ کے والد بتاتے ہیں کہ عید کے بعد ان کے بیٹے کے کیس کی فائل عدالت کے پاس جائے گی اور کوئی تاریخ ملے گی۔

حمزہ کے قاتل کا سراغ لگانے کے لیے پولیس نے علاقے کی جیو فینسنگ کی، مخصوص عمر کے افراد کے ڈی این اے ٹیسٹ لیے اور ان سے پوچھ گچھ کی۔

پاکستان میں جنسی جرائم

پاکستان میں حمزہ کی طرح کے ہزاروں بچوں کو ہر سال جنسی جرائم کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

چائلڈ پروٹیکشن بیورو پنجاب کی چیئرپرسن سارہ احمد نے بی بی سی سے گفتگو میں بتایا کہ گذشتہ ایک سال میں ان کے پاس ریپ کے 250 کیسز رجسٹر ہوئے ہیں۔ اس قسم کے کیسز کی رپورٹ گھر کے اندر یا ہمسائیوں کی مدد سے ملتی ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’بچہ اگر خود اس ماحول میں جانے پر راضی نہ ہو یا پھر عدالت مطمئن نہ ہو تو اسے چائلڈ پروٹیکشن سینٹر میں رکھا جاتا ہے۔‘

راولپنڈی سے دور لاہور کے ایک چائلڈ پروٹیکشن ہاؤس میں کچھ عرصہ پہلے آنے والی 10 برس کی بچی کو پانچ سال تک ان کے سوتیلے دادا ریپ کرتے رہے۔

اس بچی کو والدہ سے لے کر اس کے حقیقی والد کے سپرد کیا گیا، جنھوں نے عدالت کو بچی کی مکمل کفالت اور حفاظت کرنے کی یقین دہانی کروائی۔

بچوں سے زیادتی

حمزہ یوسف

بچوں کے ساتھ سال بھر میں ریپ کے کتنے واقعات پیش آئے؟

پاکستان میں گذشتہ برس بچوں سے جنسی تشدد کے واقعات میں 30 فیصد اضافہ ہوا ہے اور 92 سے زیادہ بچوں کو ریپ کے بعد قتل کر دیا گیا۔

بچوں کے ساتھ ریپ کے واقعات رپورٹ کرنے والے ادارے ساحل کے مطابق ملک میں سنہ 2021 میں بچوں سے جنسی تشدد کے کل 3852 کیسز سامنے آئے ہیں ان میں سے 2275 واقعات ریپ کے تھے۔

رپورٹ کے مطابق ‘بچوں سے جنسی تشدد کے 2275 واقعات رپورٹ ہوئے جن میں 750 میں بچوں سے ریپ کیا گیا، 676 میں جنسی تشدد، 561 میں ریپ کی کوشش، 133 واقعات میں ریپ اور غیر اخلاقی ویڈیوز، 87 واقعات میں ریپ کے بعد قتل جبکہ 68 واقعات میں بچوں کے قریبی رشتے دار ملوث پائے گئے ہیں۔’

ان واقعات میں تناسب دیکھیں تو 54 فیصد لڑکیاں اور 46 فیصد لڑکے ریپ کا شکار ہوئے یعنی 2068 لڑکیاں اور 1784 لڑکے ریپ کا نشانہ بنے۔

یہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ملک میں روزانہ دس سے زیادہ بچے ریپ کا نشانہ بنتے ہیں۔ گذشتہ برس 43 فیصد ریپ کے کیسز ملک کے شہری علاقوں جبکہ 57 فیصد دیہی علاقوں میں پیش آئے۔

ان واقعات میں سے 63 فیصد پنجاب، 23 فیصد سندھ، چھ فیصد اسلام آباد، پانچ فیصد خیبر پختونخوا اور دو فیصد بلوچستان، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں پیش آئے۔

یہ واقعات پورے ملک میں پیش آنے والے واقعات کی اخباروں میں چھپنے والی رپورٹس کی بنیادوں پر مرتب کیے گئے ہیں۔ کل واقعات جو اخبارات کی خبروں سے ڈیٹا کی شکل میں مرتب کیے گئے ہیں میں سے 84 فیصد کیسز پولیس کے پاس رجسٹرڈ ہوئے۔

بلوچستان

بچوں کے ساتھ ریپ کے کیسز میں اضافہ

ساحل نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ سنہ 2020 کے 2960 کیسز کے مقابلے میں سنہ 2021 میں 3852 کیسز سامنے آئے یعنی ان جرائم میں 10 فیصد اضافہ ہوا۔

صنفی اعتبار سے دیکھا جائے تو گذشتہ برس 37 فیصد لڑکیوں اور 23 فیصد لڑکوں کے کیسز میں اضافہ ہوا۔ عمر کے تناسب سے جائزہ لیا جائے تو لڑکیوں کے 633 کیسز میں اور لڑکوں کے 395 کیسز میں عمر نہیں بتائی گئی۔

سب سے زیادہ کیسز 11 سے 15 برس کی عمر کی حد میں موجود لڑکے اور لڑکیوں کے سامنے آئے جن میں لڑکیوں کے کیسز کی تعداد 617 جبکہ لڑکوں کے کیسز کی تعداد 703 تھی۔ یہاں یہ بات تشویشناک ہے کہ پانچ برس تک کی عمر کے بچوں کے ساتھ ریپ کے کیسز میں 22 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

یہ بھی سامنے آیا ہے کہ چھ سے 10 برس کی عمر کے بچوں کے 821 کیسز میں لڑکوں کی تعداد 444 تھی۔ ان میں سے 39 بچوں کو ریپ کے بعد قتل کیا گیا۔ اسی طرح 11 سے 15 برس کی عمر کے لڑکے لڑکیوں کی نسبت زیادہ ریپ کا شکار ہوئے۔ ان میں 56 فیصد لڑکے اور 44 فیصد لڑکیاں ریپ کا شکار ہوئیں۔

رپورٹ کے مطابق اس عمر کے بچوں کو محرم رشتہ داروں نے زیادہ نشانہ بنایا جن میں زیادہ تر بچیاں شامل تھیں۔ پورنوگرافی کا شکار ہونے والے بچوں کی سب سے زیادہ تعداد بھی گیارہ سے 15 سال کے دوران بتائی گئی ہے۔

البتہ 16 سے 18 برس کے درمیان صنفی تناسب میں لڑکیوں کے کیسز کی تعداد 324 اور لڑکوں کے کیسز کی تعداد 136 ریکارڈ کی گئی ہے۔

بچوں کے ساتھ ریپ کرنے والے لوگ کون ہیں؟

ساحل کی رپورٹ کے مطابق ریپ کرنے والوں میں واقف کاروں کی تعداد سب سے زیادہ ہے جو 1715 بنتی ہے۔

دوسرے نمبر پر اجنبی لوگ ہیں جو کل واقعات میں 473 تھے یہاں رشتہ داروں کی تعداد 84 اور ہمسایوں کی تعداد 75 بتائی گئی ہے جبکہ دینی تعلیم دینے والے 59 اساتذہ نے بچوں کے ساتھ ریپ کیا۔

36 واقعات میں اپنے سگے والد نے بچے یا بچی کو ریپ کا نشانہ بنایا جبکہ سوتیلے باپ کا نشانہ بننے والوں کی تعداد 17 تھی۔

سات واقعات میں خواتین واقف کاروں نے ریپ کی اور سات واقعات ایسے رپورٹ ہوئے ہیں جن میں جاگیرداروں کے نے بچوں کو ریپ کا نشانہ بنایا۔

بچے زیادہ تر کن جگہوں پر نشانہ بن رہے ہیں؟

ساحل کی رپورٹ کے مطابق سنہ 2021 میں ریپ کا شکار ہونے والے بچوں میں سے 36 فیصد کو بند جگہوں پر نشانہ بنایا گیا جن میں فیکٹری، جیل، ورکشاپس، ہسپتال، پولیس سٹیشن، تعلیمی و دینی اداروں کے علاوہ خالی عمارتوں کو استعمال کیا گیا۔

447 کیسز میں ریپ کا شکار ہونے والوں نے اپنی منتخب کردہ جگہ لے جا کر بچوں کو نشانہ بنایا جبکہ 588 کیسز میں ریپ کرنے والے انھیں اپنی رہائش گاہوں پر لے کر گئے۔

ساحل کا کہنا ہے کہ بچوں کے اپنے ہی گھروں میں ریپ کے شکار ہونے کے تناسب میں اضافہ دیکھا گیا ہے جو کہ تشویشناک ہے۔

تین ہزار سے زیادہ ریپ کے واقعات میں 17 فیصد کھلی جگہوں میں پیش آئے۔ جن میں پارک، گلی، بس سٹاپ، مارکیٹ، خالی پلاٹس، جنگل اور قبرستان شامل ہیں۔ سب سے زیادہ واقعات گلیوں میں پیش آئے جن کی تعداد 291 بنتی ہے۔

یہ بچے کب سے ریپ کا نشانہ بن رہے تھے؟

ساحل کی رپورٹ کے مطابق یہ بات تشویشناک ہے کہ کسی بھی بچے کو ایک سے زیادہ بار ریپ کا نشانہ بنائے جانے کے واقعات میں بہت زیادہ اصافہ ہوا ہے۔

سنہ 2020 میں 68 کیسز میں بچے ایک سے زیادہ بار جنسی جرائم کا نشانہ بنے لیکن گذشتہ برس 338 ایسے کیسز سامنے آئے ہیں جن میں بچوں کو ایک سے زیادہ بار نشانہ بنایا گیا۔

پولیس کا کہنا ہے کہ 36 ایسے کیسز تھے جن میں پولیس نے کیس رجسٹرڈ نہیں کیے۔ اور 48 ایسے تھے جن میں والدین نے کیسز درج نہیں کروائے۔

اندراج ہونے والے کل کیسز کی تعداد 3217 بتائی گئی ہے۔ یہاں ڈیٹا میں بتایا گیا کہ 30 سے زیادہ ایسی بچیاں تھیں جو چھ ماہ سے زیادہ تسلسل سے ریپ کا نشانہ بن رہی تھیں۔

قصور اور راولپنڈی سب سے اوپر

ساحل کی رپورٹ کے مطابق چھ سال کے وقفے کے بعد پاکستان کے صوبہ پنجاب کا ضلع قصور میں ایک مرتبہ پھر بچوں کے ساتھ ریپ کا نشانہ بننے والوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے جہاں 298 بچے زیادتی کا نشانہ بنے۔ دوسرا نمبر ضلع راولپنڈی کا ہے، جہاں 292 کیسز سامنے آئے۔ تیسرا نمبر وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کا ہے جہاں 247 کیسز رپورٹ ہوئے۔

رپورٹ کے مطابق 52 فیصد یعنی نصف سے زیادہ کیسز قصور، راولپنڈی، اسلام آباد، فیصل آباد، گوجرانوالا، سیالکوٹ، خیر پور، لاہور، اوکاڑہ اور مظفر گڑھ میں پیش آئے۔

اسی طرح اگر ریپ کے کیسز کو دیکھیں تو بھی قصور کا نمبر پہلا ہے جہاں 179 کیسز سامنے آئے، فیصل آباد میں 173، گوجرانولا میں 141 اور راولپنڈی میں 138 کیسز سامنے آئے۔

دارالحکومت اسلام آباد میں جنسی زیادتی کے کل 74 کیسز سامنے آئے لاہور میں تعداد 111 بتائی گئی۔

پورنوگرافی کے کیسز میں اضافہ

چائلڈ پورنوگرافی کے کیسز میں سنہ 2020 کے مقابلے میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

گذشتہ برس 145 کیسز درج ہوئے جن میں گینگ کی جانب سے بچوں کے ساتھ بدفعلی کرنے اور پورنوگرافی کے واقعات سب سے زیادہ تھے اور یہ تعداد 61 تھی۔

بچوں کو زیادہ تر اغوا کر کے اس جرم کا ارتکاب کیا جاتا ہے اور بہت سے کیسز میں پورا گینگ ملوث ہوتا ہے۔

پانچ سال تک کی عمر کی حد میں بچوں کے 65 اور بچیوں کے 70 کیسز سامنے آئے۔

ان میں سے سات بچوں کو زیادتی کے بعد قتل کیا گیا۔ بتایا گیا ہے کہ 87 فیصد کیسز میں والدین جرم کا ارتکاب کرنے والے کے بارے میں معلومات رکھتے ہیں۔

ساحل کی رپورٹ کے مطابق اغوا ہونے والے 1303 واقعات میں سے 233 بچوں کو اغوا کے بعد ریپ یا بدفعلی کا نشانہ بنایا گیا۔ بتایا گیا ہے کہ بچوں کے گمشدگی کے 438 کیسز میں سب سے زیادہ کیسز خیرپور میں ہوئے جن کی تعداد 44 بتائی گئی ہے۔

گمشدگی اور کم عمری کی شادیاں

کم عمری کی سب سے زیادہ شادیوں میں کل 80 میں سے 47 سندھ میں ہوئیں۔ پولیس کے پاس 64 کیسز رجسٹرڈ ہوئے، جن میں سے 70 کیسز کم عمر لڑکیوں کے تھے۔

سارہ احمد کہتی ہیں کہ ہم مکمل طور پر ساحل کی رپورٹ پر انحصار نہیں کر سکتے کیونکہ اس میں ہر علاقے کو مکمل طور پر نہیں دیکھا جاتا اور اخبارات کی رپورٹس پر انحصار کیا جاتا ہے۔ ان کی نظر میں یہ اعدادو شمار پریشان کن ہیں لیکن مکمل نہیں ہیں۔

بچوں سے ریپ میں معاونت کرنے میں خواتین کی تعداد میں اضافہ

سارہ جو اس وقت پنجاب چائلڈ پروٹیکشن بیورو کی سربراہ ہیں کا کہنا ہے کہ والدین کو آگاہی کی ضرورت ہے۔ ریپ کے بہت سے کیسز ایسے ہیں جن میں بچوں کو بہت زیادہ توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔

’وہ دوسروں کی نسبت بہت زیادہ ڈرے سہمے ہوتے ہیں۔ لیکن بچوں پر ٹارچر کے کیسز بھی بہت زیادہ ہیں جو نظروں سے اوجھل ہیں۔‘

بی بی سی سے گفتگو میں انھوں نے بتایا ایک ایسا پانچ سالہ بچہ اپنے والدین کے پاس جانا نہیں چاہتا، جو اپنے معاشی حالات سے تنگ آ کر اسے زنجیروں میں باندھ کر رکھتے تھے۔

’ایک بچی کا پتہ چلا جس کے والدین نے اسے کسی کے گھر کام کرنے پر بھیج رکھا تھا۔ وہ زخمی حالت میں اس گھر کی دیوار پھلانگ کر کسی اور گھر میں گئیں اور پھر وہاں سے ہمیں اطلاع ملی۔‘

وہ کہتی ہیں جنسی زیادتی اور تشدد کا شکار ہونے والے تقریباً 70فیصد بچے واپس گھروں کو چلے جاتے ہیں۔

ساحل کی سربراہ منیزہ بانو نے بی بی سی سے گفتگو میں بتایا کہ 20 سال پہلے ’جب ہم نے یہ کام شروع کیا تھا تو اس وقت آنے والے کئی برسوں تک رپورٹ ہونے والے کیسز کی تعداد 200 سے 400 تک تھی۔ تاہم اب کے تشویشناک اعداد و شمار یہ ضرور ظاہر کرتے ہیں کہ اب والدین اس قسم کے کیسز کو کم چھپاتے ہیں اور پولیس سے رابطہ کرتے ہیں۔‘

وہ کہتی ہیں ریپ کے بعد بچوں کا قتل کیا جانا، پورنوگرافی اور خواتین کا ان واقعات میں مددگار بننا بہت ہی تشویشناک ہے۔

انھوں نے بتایا کہ ‘ہم ایک زمانے میں ایف آئی اے سے بھی بات کرتے تھے۔ اب وہ نہیں کرتے۔ یہاں سے ٹریفیکنگ کے زیادہ کیسز ہیں۔ معلوم نہیں ایف آئی اے کو بھی پتہ ہے یا نہیں۔’

بچے

یہ بھی پڑھیے

’بچوں سے دوستانہ ماحول میں بات کریں‘

’ریپ کے بعد صلح کرنے پر مجبور کیوں کیا جاتا ہے؟‘

’سیریل ریپسٹ اور قاتل‘ تیسری دفعہ الزام لگنے پر پولیس کی گرفت میں کیسے آیا؟

بلوچستان، خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان کے اعداد کم ہیں؟

مینزہ بانو کہتی ہیں کہ بلوچستان، خبپرپختونخوا، گلگت بلتستان اور کشمیر بہت ‘کلوز سوسائیٹیز‘ ہیں وہاں معاملہ پولیس اور میڈیا تک رپورٹ ہونے کا تناسب کم ہی ہے۔

ساحل کی رپورٹ میں ملک کے کل 105 اضلاع کا ڈیٹا شامل ہے۔

اس رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں کوئٹہ کل چھ کیسز کے ساتھ حساس علاقہ قرار دیا گیا۔ گلگت بلتستان میں غذر اور خیبرپختونخوا میں پشاور، ہری پور، ایبٹ آباد جبکہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں میر پور، مظفر آباد کو سب سے حساس قرار دیا گیا۔

گروپ ڈویلپمنٹ پاکستان کے کوارڈینیٹر عمران ٹکر نے بی بی سی سے گفگتو میں کہا کہ ’خیبر پختونخوا اور قبائلی علاقوں سے کیسز آٹے میں نمک کے برابر رپورٹ ہوتے ہیں۔ پھر بھی میں کہتا ہوں کہ ساحل کو اخبار سے رپورٹس کے علاوہ خیبر پختونخوا پولیس ڈیپارٹنمٹ سے ڈیٹا لینا چاہیے تاکہ ڈیٹا مزید واضح ہو۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’اب تیز ترین انصاف کے لیے بچوں کے لیے الگ عدالتیں بھی قائم ہیں، ریپ کی سزا کو عمر قید اور سزائے موت تک بڑھا دیا گیا ہے، سسٹم تو موجود ہے لیکن ڈیٹا کلیکشن ابھی بھی سرکاری سطح پر نہیں ہو رہی۔‘

عمران ٹکر کا کہنا ہے کہ ’میرے خیال سے کے پی میں والدین نے 25 فیصد تک خاموشی توڑی ہے۔ ‘

’تاہم ایسے کیسز ان علاقوں میں معمول ہیں، لیکن رپورٹ نہیں ہوتے جن میں ایک بچے کو ان علاقوں میں ایک طرح سے سیکس کے کاروبار کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور یہ کہیں رپورٹ نہیں ہو رہا ہوتا۔‘

وہ تجویز دیتے ہیں کہ آگاہی کے علاوہ ’بچوں کی عدالتیں ہر ضلعی سطح پر ہونی چاہیے تاکہ بچہ اگر ریپ کا شکار ہوا ہے تو وہ ایک عام عدالت کے ماحول میں دوبارہ ریپ کرنے والے کے روبرو کھڑا ہونے پر مجبور نہ ہو بلکہ چائلڈ کورٹ کے محفوط ماحول میں عدالت کو بتا سکے کہ اس پر کیا بیتی تاکہ کم سے کم وہ انصاف حاصل کر سکے اور معمول کی زندگی کی جانب لوٹ سکے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32540 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments