مسجد نبوی کا واقعہ


پوری دنیا میں پاکستانیوں کو ہی توہین رسالت پر سب سے زیادہ تکلیف ہوتی ہے اور پوری دنیا سے دربار رسالت میں حاضر لوگوں میں سے پاکستانیوں نے ہی وہاں کے تقدس کو پامال کیا ہے۔

چند دنوں سے مسجد نبوی میں ہونے والے نا زیبا عمل پر تبصرے جاری ہیں کچھ لوگ اس عمل کے خلاف رائے دے رہے ہیں اور کچھ محترم حضرات یہاں تک چند سینئر صحافیوں کا یہ کہنا ہے کہ یہ ہیں ہی ایسے بد قسمت لوگ کہ ان پر روضۂ رسول پر بھی لعنت پڑ رہی ہے اور آخرت میں بھی پڑے گی تو ان کی خدمت میں عرض ہے کہ معاملہ ان پر لعن طعن سے بہت بالا اور نازک ہے اس کو آپ اس قسم کے دلائل سے چھپا نہیں سکتے۔

قرآن میں نبی آخر الزماں محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو سامنے آواز اونچی کرنے کے بارے میں جو آیت وعید نازل ہوئی ہے اس کے اگر پس منظر پر آپ نظر ڈالیں تو آپ کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں گے۔ یہ آیت دنیا کی دو بہترین شخصیات حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے لئے نازل ہوئی تھیں کہ جب انہوں نے مسجد نبوی میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے اپنی کسی بات پر بحث کرتے ہوئے آواز کو بلند کیا تھا توجہ طلب بات یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے بات کرتے ہوئے آواز بلند نہیں کی تھی آپ کے سامنے آپس میں بات کرتے ہوئے انجانے میں آواز بلند ہوئی تھی جس کی وعید میں اللہ پاک نے فرمایا کہ اپنی آوازیں نبی کے سامنے پست رکھو یہ نا ہو کہ تمھارے اعمال تباہ و برباد ہو جائیں اور تمھیں خبر تک نا ہو۔ اس واقع کے بعد حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کا یہ طرز عمل تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے سرگوشی شروع کر دی یہاں تک کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو کہنا پڑتا کہ اونچا بولو مجھے آواز نہیں آ رہی۔

اللہ اکبر اس قدر وہ ڈر گئے تھے اللہ پاک کی وعید سے حتی کہ اس سے آگے کی آیات نازل ہوئیں جن میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ بے شک جو لوگ اپنی آوازوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے دھیما رکھتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ پاک نے پرہیز گاری کے لئے چن لیا ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے وصال کے بعد آپ کے روضہ مبارک کا تقدس بھی ویسے ہی لازم و ملزوم ہے اور ہم پر فرض ہے۔ ایک مرتبہ چند لوگ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مسجد میں اونچی آواز میں بات کر رہے تھے تو حضرت عمر نے انہیں بلا کر پوچھا کہ تم لوگ کہاں کے رہنے والے ہو انہوں نے کہا کہ ہم طائف کے رہنے والے ہیں حضرت عمر نے فرمایا اگر تم مدینہ کہ رہنے والے ہوتے تو میں تمہیں سخت سزا دیتا کہ تم لوگ نبی کی مسجد میں آوازیں اونچی کر رہے ہو۔

یعنی تقویٰ کا معیار رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی تعظیم و توقیر ہے غور کیجئے جب ابو بکر و عمر کے تقویٰ کا پیمانہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ادب ہے تو ہم کہاں پر کھڑے ہیں اور ہماری کیا اوقات ہے۔

سیاست کی لگائی آگ میں اپنے محبوب کے مبارک شہر میں جہاں قدم رکھتے ہی دل محبت اور عقیدت سے معمور ہو جاتے ہیں وہ نبی کہ جنہوں نے کبھی غیروں پر لعن طعن نہیں کی تھی ان ہی کے امتیوں پر ان ہی کی سر زمین پر ان ہی کی مسجد میں ایسا ناروا سلوک برتا گیا جو کہ بحیثیت مسلمان ہمارے لئے باعث شرمندگی و ندامت ہے باقی کس کے کیا اعمال ہیں اس کا فیصلہ کرنے کے لئے ایک ذات منصف موجود ہے جو بہتر فیصلہ فرمانے والا ہے دوسروں کے اعمال پر فتویٰ لگانے سے بہتر ہے اپنا احتساب کر لیا جائے دعا ہے اللہ پاک ہمیں معاف فرمائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments