سیلیکٹڈ” بمقابلہ ” امپورٹڈ


پاکستانی عوام کی بدقسمتی نہیں تو اور کیا ہے کہ ان کی کوئی حکومت نہیں جب کہ ووٹ ان کا، ماچس کی ڈبیہ پر ٹیکس بھی ان کا، مگر حکومت کسی اور کی۔ پارلیمانی نظام میں ”عوام کی حکومت، عوام کے لئے“ تو دور دور تک نظر نہیں آتی۔ ستم ظریفی تو یہ بھی ہے کہ ”سیلیکٹڈ“ میں سے ہی ”امپورٹڈ“ بھی نکل آئے۔ گویا کہ اب ”امپورٹڈ سیلیکٹڈ“ کی بادشاہی ہے۔ مزے کی بات یہ بھی ہے ”سیلیکٹڈ“ اپنی نااہلی گزشتہ حکومت میں چھپاتے رہے، اب ”امپورٹڈ“ وہی کام کریں گے۔ جیسا کہ ”اچانک“ وارد ہونے والی لوڈشیڈنگ اب ”سیلیکٹڈ“ کے کھاتے میں جا رہی ہے۔ ہاں ”امپورٹڈ“ نے یکم مئی سے اس اچانک لوڈشیڈنگ کو ختم کرنے کا عندیہ دیا ہے دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے؟

ویسے اب ”سیلیکٹڈ“ عوام کو جس پیغمبرانہ پیغام کو عام کرنے کا کہ رہے ہیں، کبھی ان عوام کا حال تک نہ پوچھا۔ یہ تو بھلا ہو ”سازش و مداخلت“ کا جس نے عوام کو سب کچھ ہی بھلا دیا ورنہ لال حویلی کے مکین کو کوئی اور آسرا کرنا پڑتا۔

پنجاب میں ”سیلیکٹڈ“ اور ”امپورٹڈ“ کا میچ نیوٹریلیٹی کا شکار ہے۔ اس سارے گند میں پٹوار خانے آباد ہیں اور اہل یوتھ بھی شاد باد منزل مراد ہیں مگر نیوٹرل عوام رل گئے ہیں۔ مہنگائی نے پہلے کمر توڑی تو اب ”کانپیں ٹانگ“ رہی ہیں۔ جائیں تو کدھر جائیں؟ پاکستانی باقی کھیلوں میں کمزور پڑ گئے جیسے ہاکی، اسکواش، کرکٹ وغیرہ مگر بلی چوہے کا کھیل کمزور نہیں ہوا بلکہ شاہد آفریدی جیسے نئے کھلاڑی بھی شامل ہوا چاہتے ہیں۔ خان نے کھلاڑیوں کو ایسا چسکا ڈالا ہے کہ ان کا دل مچل مچل جا رہا ہے۔ مگر سارے کھلاڑی خان تھوڑے ہیں کہ جب جاوید میاں داد کو چاہا ہٹا دیا اور جب چاہا نواز شریف کو۔

ان الفاظ کے لکھنے تک خاندان شریفیہ مرکز اور پنجاب کے مالک ہیں۔ اب یہ قحط الرجال ہے یا کچھ اور کہ پنجاب کی پگ کے لئے جو سر دستیاب ہوا، اسے اس کا کوئی تجربہ نہیں مگر نسلی اعتبار سے اقتدار کا خون منہ سے ایسا لگا ہے کہ سب کچھ ہی موم ہوجاتا ہے ۔ پنجاب کی پگ دو انتہاؤں میں ہے۔ بزدار سرکار مبینہ طور پر ”عین“ کی مرہون منت رہی اور اب پدرم سلطان بود۔ رہ گئے عوام، ان کا کیا کہنا؟ وہ بیچارے اپنی قسمت کو روئیں۔ پاکستان نہ ہوا گویا کوئی سیٹھ کی اپنی کمپنی ٹھہری جب چاہا گیٹ بند اور جب چاہا کھول دیا۔

کہا جاتا ہے کہ ہر شر سے خیر کا پہلو نکلتا ہے۔ اب تک جو ہوا اس سے سبق سیکھنا چاہیے، جو ہم نہیں سیکھنا چاہتے۔ پھر بھی عوام کا حق ہے کہ وہ ایسا سوچیں۔ جو ہوا پاکستان کے ساتھ اب تک اس کو ایک طرف رکھ کر اب پاکستان کا سوچ لیں۔ میں نے اپنے گزشتہ مضمون میں بھی لکھا تھا کہ اب ہمیں مل بیٹھ کی فیصلہ کرلینا چاہیے کہ اگلے تیس سالوں میں ہم نے کیسے آگے بڑھنا ہے؟ ہم نے اپنا معاشی، معاشرتی، تعلیمی، سماجی اور مذہبی ڈھانچہ کیا رکھنا ہے؟ اس وقت جو سب سے خوفناک چیز بن چکی وہ مذہب کارڈ ہے۔ حالانکہ اسلام تو رواداری کا مذہب ہے مگر پاکستان میں بدقسمتی سے اسلامی جمہوریہ پاکستان ہوتے ہوئے نہ تو کبھی اسلام نافذ ہوسکا نہ جمہوریت مضبوط ہو سکی۔ دونوں کا استعمال ہی کیا گیا آج تک۔

خدارا ”سیلیکٹڈ“ اور ”امپورٹڈ“ کی رٹ سے باہر نکلیں، نکالیں، عوام کا سوچیں ورنہ پھر ایسا سیلاب آئے گا جس میں ”سیلیکٹڈ“ اور ”امپورٹڈ“ کیا، سلیکٹرز اور امپورٹرز بھی بہ جائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments