نہال ہاشمی صاحب، بتائیں یہ کس مسلک کی سازش ہے؟


ایک بار پھر پاکستان میں سیاسی میدان میں گالی گلوچ اور جوتم پیزار کا بازار گرم ہے۔ یہ کوئی حیرانی کی بات نہیں۔ اب یہ سلسلہ پاکستان میں ایک معمول کی بات ہے۔ لیکن یہ ایک المیہ ہے کہ اس مرتبہ یہ سیاسی جنگ مسجد نبوی کے احاطے تک جا پہنچی ہے۔ جب وزیر اعظم شہباز شریف صاحب، مریم اورنگزیب صاحبہ، اور شاہ زین بگٹی صاحب وہاں گئے تو وہاں پر موجود تحریک انصاف کے حامیوں نے چور چور کے نعرے لگائے، مریم اورنگزیب صاحبہ پر بھی آوازیں کسیں اور بگٹی صاحب کے بال پکڑ کر کھینچنے کی کوشش کی گئی۔

ایسے مقدس مقام پر اس قسم کی حرکات پر شدید رد عمل دیکھنے میں آیا۔ اور بھاری اکثریت نے اس گستاخی کی شدید مذمت کی۔ اس افسوسناک واقعہ پر بیانات کا سلسلہ جاری تھا کہ ”ہم“ چینل پر ایک پروگرام میں مسلم لیگ نون کے نہال ہاشمی صاحب، پیپلز پارٹی کے فضل کریم کنڈی صاحب اور تحریک انصاف کی عندلیب عباس صاحبہ شامل ہوئیں۔ اس میں جب تحریک انصاف کے حامیوں کی اس حرکت کا ذکر آیا تو تو مسلم لیگ نون کے نہال ہاشمی صاحب طیش میں آ گئے اور انہوں نے تحریک انصاف کے لوگوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ احمدی برانڈ کے لوگ ہیں۔

اس پر اینکر صاحب نے انہیں روکنے کی کوشش کی اور کہا کہ کسی کے عقیدہ پر سوال نہ اٹھائیں تو نہال ہاشمی صاحب کا جلال اور بھی بھڑک اٹھا اور انہوں نے کہا بات کرنے دو ورنہ یہ پروگرام نہیں چلنے دوں گا میں، یہ رسول اللہ ﷺ کی حرمت کی بات ہے۔ یہ احمدیوں کی سازش ہے۔ احمدی ان کے ساتھ ملے ہوئے ہیں۔ اینکر صاحب نے پھر کہا کہ اس بات کو غلط طرف نہ لے کر جائیں حقائق کی بات کریں۔ لیکن نہال ہاشمی صاحب غصے میں بولتے رہے اور یہ اعلان کرتے رہے کہ پاکستان کے لوگ اپنی گردن کٹا دیں گے۔

کیا اس پروگرام میں یا اس کے بعد نہال ہاشمی صاحب نے زحمت کی کہ وہ یہ وضاحت پیش کریں کہ انہوں نے کس بنا پر چلا چلا کر یہ کہا تھا کہ یہ احمدیوں کی سازش ہے؟ کیا کوئی ثبوت پیش کرنے کی زحمت کی؟ یا ان کے خیال میں اگر کسی سمندر کی تہہ میں دو مچھلیاں بھی لڑیں تو احمدیوں کا نام لگا دو ۔ کوئی ثبوت بھی نہیں مانگے گا اور واہ واہ بھی ہو جائے گی۔

یقینی طور پر نہال ہاشمی صاحب کے علم میں ہو گا کہ ہر پاکستانی احمدی کے پاسپورٹ کے دوسرے صفحہ پر یہ لکھا ہوا ہوتا ہے کہ حامل ہذاٰ پاسپورٹ عقیدہ کے لحاظ سے احمدی ہے۔ [پاکستان کے حالات کے اعتبار سے اس کا مطلب ہوتا ہے کہ بے شک اس کو انسان بھی نہ سمجھا جائے۔ اگر کسی پر الزام لگانے کے لئے طبیعت مچل رہی ہے تو اس پر لگا دو ۔ اس سے بہتر ٹارگٹ نہیں ملے گا]۔ اس طرح کسی احمدی کو سعودی سفارت خانہ ویزا ہی نہیں دیتا۔

اور حرم کی حدود میں داخل ہوتے ہوئے ایک گیٹ ہے جس سے آگے صرف وہی جا سکتے ہیں جسے سعودی قانون مسلمان قرار دیتا ہے اور سعودی قانون میں احمدیوں کو مسلمان نہیں قرار دیا جاتا۔ چنانچہ یہ تو ممکن نظر نہیں آ رہا کہ جن لوگوں نے مسجد نبوی جیسے مقدس مقام پر ہلڑ بازی کی ہے اور نعرے لگا کر وہاں کا تقدس مجروح کیا، وہ احمدی ہوں۔ یقینی طور پر یہ وہی لوگ ہوں گے جنہیں آئین پاکستان مسلمان قرار دیتا ہے۔

اور شاید نہال ہاشمی صاحب کے علم میں ہو کہ جن پر وہ سب سے زیادہ الزام لگا رہے ہیں یعنی سابق وزیر اعظم عمران خان صاحب، وہ بھی احمدی نہیں ہیں۔ ہاشمی صاحب کی پارٹی تو اب حکومت میں ہے چنانچہ بخوشی نادرا کے دفتر جا کر عمران خان صاحب کا حلف نامہ ملاحظہ فرما لیں کہ وہ ہر گز احمدی نہیں ہیں بلکہ ساری دنیا جانتی ہے کہ وہ اسی فرقہ سے تعلق رکھتے ہیں جس سے نہال ہاشمی صاحب وابستہ ہیں۔ اس پس منظر میں یہ مضحکہ خیز بات ہے کہ نہال ہاشمی صاحب اتنے لال پیلے ہو کر احمدیوں پر الزام کیوں لگا رہے ہیں؟ اگر انہیں یہ شوق پورا کرنا ہے تو اپنے ہی مسلک کو تختہ مشق بنائیں۔ احمدیوں پر غصہ نکالنے کی ضرورت نہیں۔

مناسب معلوم ہوتا ہے کہ نہال ہاشمی صاحب کو اس قسم کے کچھ دوسرے واقعات کی یاد کرائے جائیں۔ مدینہ منورہ میں اس سے بہت بڑھ کر واقعات 1925 میں اس وقت پیش آئے تھے جب سعودی افواج اور موجودہ سعودی بادشاہ کے والد شاہ عبد العزیز مدینہ منورہ میں داخل ہوئے تھے اور وہاں پر شریف مکہ حسین کی حکومت ختم ہوئی تھی۔ نہال ہاشمی صاحب تحقیق کر لیں کہ اس وقت جنت البقیع میں رسول اللہ ﷺ کی ازدواج مطہرات اور صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی قبروں پر بنے ہوئے کتبے مسمار کیے گئے تھے۔ شہدائے احد کی قبریں ہموار کی گئیں کیونکہ یہ وہابی مسلک کے خلاف تھے۔ اور ایک مرحلہ پر ہندوستان میں یہ خبر پہنچی کہ رسول اللہ ﷺ کے مزار مبارک کی عمارت کو نقصان پہنچا ہے۔ تصدیق اور تردید کی نوبت تو بعد میں آئی، لیکن اس وقت ہندوستان کے مسلمانوں کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا تھا۔

ہندوستان سے علماء کا ایک وفد جس میں مولانا محمد علی جوہر، سلیمان ندوی، اور شبیر عثمانی صاحب بھی شامل تھے حجاز گیا اور اپنے آنکھوں سے کئی قبروں کا انہدام دیکھا۔ باقی علماء تو جلالۃ الملک کے رعب سے متاثر ہو گئے لیکن مولانا محمد علی جوہر ان سے دبنے والے نہیں تھے۔ انہوں نے حجاز میں بھی سلطان عبد العزیز ابن سعود کے سامنے اپنی رائے کا اظہار کیا اور بعد میں بھی ان خیالات کا اظہار کیا

”جو حشر جمہوریت کی تعریف اور مقدس مقامات کے احترام کا ہوا وہ ایک عالم جانتا ہے۔ جو حشر موتمر عالم اسلام کا کیا جا رہا ہے اس کے متعلق جلد کچھ عرض کروں گا۔ شرف عدنان بے اول موتمر کے صدر کا تار جو علامہ سید سلمان ندوی نائب صدر موتمر کے نام موصول ہوا وہ آپ کے سامنے ہے۔ پڑھئے اور سلطان ابن سعود کے ایفائے عہد کا لطف اٹھائیے۔ یہ ہے وہ تمسک بالکتب و السنۃ جو ہدم مقابر ماثر اور مزار رسول اکرم (روحی فداہ) کے قرب و جوار تک کو اندھیرے میں ہی چھوڑنے سے ہی ثابت ہوتا ہے یا پھر شاہ انگلستان اور ملکہ ہالینڈ ہاتھوں سے صلیبی تمغہ اپنے نائب اور صاحبزادے کے سینے پر لٹکوانے سے اور اس کی تصویر ان حسین چھوکریوں کے ساتھ کھنچوانے جو لندن میں نیم عریانی کے لباس کی اپنے خوبصورت اور ڈھلے ہوئے جسموں پر نمائش کر کے دکان میں آنے والوں کو خریداری پر آمادہ کرتی ہیں۔ یہ صاحبزادے کس کے لئے یہ نیم عریاں لباس خریدنے گئے تھے۔ یہ آج تک معلوم نہ ہوا، مگر شاید لباس کے خریدار نہ ہوں۔ (آگے کچھ زیادہ سخت الفاظ حذف کر دیے گئے ہیں ) ۔“

[ہمدرد 13 نومبر 1927ء بحوالہ مولانا محمد علی جوہر آپ بیتی اور فکری مقالات – مرتبہ سید شاہ محمد قادری ص828]

یہ الفاظ سخت ہیں لیکن یہ میرے الفاظ نہیں ہیں بلکہ مولانا محمد علی جوہر صاحب کے ہیں۔ پڑھنے والے چاہیں تو ان سے اتفاق کریں یا اختلاف کریں ان کی مرضی۔ اور ان حقائق پر شک کرنے کی کوئی وجہ نہیں کیونکہ خود سعودی حکومت نے کبھی ان واقعات کا انکار نہیں کیا۔ نہال ہاشمی صاحب کو شاید اس بات کا علم ہو کہ سعودی خاندان ہر گز ہرگز احمدی نہیں ہے بلکہ سعودی حکومت احمدیوں کی مخالفت میں پیش پیش رہی ہے۔ لیکن مدینہ پر قبضہ کرتے ہوئے جو توڑ پھوڑ کی گئی وہ ہندوستان اور پاکستان کے مسلمانوں کے نزدیک بد ترین گستاخی تھی۔ ہاشمی صاحب نے گردن کٹوانے کی بات کی تھی۔ میرا خیال ہے اگر وہ گردن کٹوانے کی بجائے صرف یہ بیان دے دیں کہ سعودی خاندان نے مدینہ منورہ میں داخل ہو کر جو توڑ پھوڑ کی وہ ہر گز جائز نہیں تھی اور مستقبل میں اس قسم کی حرکت کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ اتنا ہی کافی ہو گا۔

اور آج نہال ہاشمی صاحب نے یہ خبر سن لی ہو گی کہ فیصل آباد میں پندرہ معلوم افراد کے خلاف مسجد نبوی میں نا مناسب حرکتیں کرنے اور وہاں پر موجود لوگوں کو شعائر اسلام کی بجا آوری سے روکنے پر مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ جن لوگوں کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے، ان میں عمران خان صاحب، شیخ رشید صاحب اور شیخ شفیق صاحب بھی شامل ہیں۔ اگر انہوں نے مسلک کی بحث چھیڑی ہے تو میری ہاشمی صاحب سے درخواست ہے کہ حساب کر کے بتائیں کہ ان میں سے کتنے لوگ احمدی ہیں اور کتنے سنی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں علم ہو جائے گا کہ یہ کس کی سازش ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments