بہتر ہوگا کہ ایک اور غلطی نہ کی جائے


خلیل جبران نے لازوال نظم لکھی۔ نظم نہیں ہم جیسی قوموں کا نوحہ لکھا۔ حیف ہے اس قوم پر جو ہر نئے حکمران کا استقبال ڈھول پتاشوں سے کرتی ہے اور ہر جانے والے پر آوازے کستی ہے۔ اس بار مگر کچھ ایسا ہوا ہے کہ پاکستانی جانے والے کے ساتھ کھڑے ہو گئے ہیں۔

اکتوبر 2021 ء میں ایک اہم تعیناتی کا اعلان آئینی استحقاق رکھنے والے وزیر اعظم کے دفتر نے نہیں بلکہ محکمے کی پریس ریلیز کے ذریعے کیا گیا۔ تناؤ کا تاثر عام ہوا تو ’سندھ کے جادوگر‘ نے ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ انہیں ’اپروچ‘ کیا جا رہا ہے۔ دسمبر میں ہی بتا دیا گیا کہ مارچ میں سب کچھ بدل جائے گا۔ یکا یک اسلام آباد اور لاہور کے زرداری ہاؤسز آباد ہو گئے۔ کچھ دن گزرے تو ترین گروپ متحرک ہو گیا۔

لندن میں پچھلے دروازے سے ملاقاتی آنے جانے لگے۔ امریکی سفارت کار یہاں وہاں دیکھے جانے لگے۔ ایک روز اچانک علیم خاں برس پڑے۔ تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی تو دو درجن کے آس پاس حکومتی ارکان اسمبلی سندھ ہاؤس سے برآمد ہوئے۔ دن دیہاڑے اتحادیوں سے لین دین کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ عمران خان کی آنکھوں کے سامنے اتحادی ایک کے بعد ایک ساتھ ان کا ساتھ چھوڑتے چلے گئے۔ عین موقع پر اعلان ہوا کہ ہم ’نیوٹرل‘ ہیں۔ دارالحکومت میں اعلیٰ عدالتوں نے بتایا کہ وہ تو چوبیس گھنٹے کام کرنے کے عادی ہیں۔

کوئی سازش ہوئی یا پھر مداخلت، رات گئے عمران خان نے وزیراعظم ہاؤس خالی کر دیا۔ جانے پہچانے چہرے اقتدار میں واپس لوٹ آئے۔ بے ساختگی کے ساتھ مڈل کلاس گھرانوں کے لاکھوں پاکستانی اگلے روز ملک کے چوک چوراہوں اور سینکڑوں سمندر پار پاکستانی اپنے اپنے دارالحکومتوں میں نکل پڑے۔ غم و غصہ محض عمران خان حکومت کے گرائے جانے پر نہیں، بلکہ اس سے زیادہ انہی پرانے چہروں کی واپسی پر تھا کہ جن پر اربوں کروڑوں روپے قومی خزانے سے لوٹنے کے مقدمات عدالتوں میں زیر سماعت تھے۔

ملک کے طول و عرض میں بے مثل احتجاج کے بعد پشاور، کراچی اور لاہور کے جلسوں میں آنے والے بزرگوں، عورتوں، بچوں اور بالخصوص نوجوانوں کے تمتماتے چہروں سے پھوٹنے والی حدت کو ہر ذی شعور نے محسوس کیا۔ کہا جاتا ہے کہ انقلاب شخصیات برپا نہیں کرتیں بلکہ برپا انقلاب کے نتیجے میں کوئی ایک فرد اچانک ابھر کر تبدیلی کا استعارہ بن جاتا ہے۔

عمران خان اب چاہیں بھی تو ان کے پاس واپسی کا راستہ نہیں ہے۔ تاہم اب الجھن یہ ہے کہ جہاں ساری قوم ان کے ساتھ کھڑی ہے تو وہیں پورے کا پورا سسٹم ان کے خلاف صف آرا ہے۔ دو چار ٹی وی چینلز ہیں، عمران خان کو جو اب بھی دکھاتے ہیں۔ عمران خان کی سرگرمیوں کو براہ راست دکھانے والے اکیلے ایک ٹی وی چینل کو اب پاکستان میں 56 فیصد ناظرین دیکھتے ہیں۔ سوشل میڈیا کی نبض ٹٹولیں تو ’امپورٹڈ حکومت نامنظور‘ کا ہیش ٹیگ دو ہفتے سے ٹاپ ٹرینڈ کرتے ہوئے ملتا ہے۔

کروڑوں انسان اب تک امپورٹڈ حکومت نا منظور لکھ کر ٹویٹ کر چکے ہیں۔ عمران خان نے ٹویٹر سپیس سنبھالی تو چند ہی لمحوں میں لاکھوں افراد نے اپنی موجودگی کا احساس دلا دیا۔ ایک اور عالمی ریکارڈ بن گیا۔ ابھی اگلے روز IRIS نامی ادارے نے اپنی ایک سروے رپورٹ شائع کی ہے۔ سروے کے مطابق رائے دہندگان میں سے 64 فیصد نے عمران خان کی حکومت کو گرائے جانے کو درست ماننے سے انکار کر دیا ہے۔ 74 فیصد شہباز شریف کو وزیر اعظم تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ 90 فیصد سمجھتے ہیں کہ کرپشن کے مقدمات میں لتھڑا کوئی شخص ملک کو درپیش بھاری مسائل پر قابو نہیں پا سکتا۔ 56 فیصد عمران خان، 31 فیصد نواز شریف جبکہ محض 6 فیصد پیپلز پارٹی کو ملکی چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کی صلاحیت کا حامل قرار دیتے ہیں۔

اندازے کی غلطیاں سبھی نے کی ہیں۔ عمران خان کو ہر گز اندازہ نہیں تھا کہ بازی یوں پلٹے گی۔ تحریک کے پیش ہونے سے قبل ہی وگرنہ اسمبلی تحلیل کر دیتے۔ مقتدر حلقوں نے کیا کبھی سوچا تھا کہ یوں بے کراں ردعمل آئے گا؟ کل کی اپوزیشن کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے اپنے حریف کو وہ حیات نو بخش رہے ہیں۔ منصوبہ یہی تھا کہ حکومت سنبھالتے ہی تین چار ماہ بعد انتخابات کروا دیے جائیں گے۔ عمران خان کی خیرہ کن مقبولیت کو دیکھ کر گمان اب یہی ہے کہ اگلے سال کے وسط تک وہ عوام کے پاس جانے کا رسک نہیں لیں گے۔

الیکشن کمیشن ان کا ہم نوا ہے۔ انہیں امید ہے کہ عمران خان کی مقبولیت کا زور جلد یا بدیر ٹوٹ جائے گا۔ انہیں یہ بھی امید ہے کہ امریکہ اور اس کے زیر اثر مالیاتی ادارے معیشت کو سنبھالنے میں ان کی مدد امداد کریں گے۔ کن شرائط پر ؟ کیا خبر کل کو عالمی منڈی میں تیل سستا ہو جائے۔ اکتوبر میں نئے آرمی چیف کی تعیناتی در پیش ہے۔ اگلے برس اعلیٰ ترین عدالت میں بھی صورت حال بدل جائے گی۔ اسی دوران جہاں نیب کی جانب سے اہم شخصیات کے خلاف بنائے گئے مقدمات کو ٹھکانے لگانا مقصود ہے تو ایک سلگتی خواہش عمران خان کو جیل میں ڈالنے کی بھی ہے۔

دوسری طرف عمران خان کا ایک ہی مطالبہ ہے، جلد از جلد نئے انتخابات۔ بہت بہتر ہو کہ یہ مطالبہ مان لیا جائے۔ جس قدر تاخیری حربے استعمال کیے جائیں گے، معاملات بگڑیں گے۔ یہ عین ممکن ہے کہ عوامی احتجاج میں بے ساختگی وقت کے ساتھ تھم جائے۔ ایک بات مگر طے ہے، پاکستان کی مڈل اور لوئر مڈل کلاس کے دلوں کو اب بدلا نہیں جا سکتا۔ ایون فیلڈ فلیٹس کے سامنے پاکستانی ہر دوسرے روز سینکڑوں کی تعداد میں جمع ہو جاتے ہیں۔ کب تک یہ کہہ کر ٹالا جاتا رہے گا کہ پی ٹی آئی والے ہیں۔

حرم شریف میں بھی جو کچھ ہوا، یہی تاثر دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ پی ٹی آئی والے ہیں۔ دیوار پر لکھا تو صاف نظر آ رہا ہے۔ کوئی پاکستانیوں کی آنکھیں میں نفرت تو دیکھے۔ اب بھی وقت ہے صورت حال کو سنبھالا جائے۔ میکیا ولین حربوں پر انحصار اور متروک سیاسی شعبدہ بازی عوامی غم و غصے میں اضافے کا ہی سبب بنے گی۔

عمران خان چاہتے ہیں ’غلطی‘ کو درست کر لیا جائے۔ غلطی کی درستگی سے ان کی مراد غالباً نئے انتخابات ہی ہیں۔ اس کے سوا اب شاید کچھ اور لینا دینا کسی کے بس کی بات بھی تو نہیں۔ خود کو بڑی حد تک بے اثر اور تنہا کرنے میں خود اسٹیبلشمنٹ کا اپنا ہاتھ سب سے زیادہ ہے۔ اندریں حالات ضرورت اس بات کی ہے کہ اکثریتی پارٹی سے حق حکمرانی چھینے جانے کے بعد اقلیتی جماعتوں کے مصنوعی اتحاد پر مبنی جو حکومت مسلط کی گئی ہے، کم از کم اسے بے جا طوالت بخشنے کی کوششوں کا حصہ نہ بنا جائے۔ اگر فیصلے اب کی بار اس امید پر کیے گئے کہ وقت کے ساتھ ساتھ بپھرے ہوئے عوامی جذبات سرد پڑ جائیں گے تو یہ اندازے کی ایک کے بعد ایک اور بڑی غلطی ہو گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments