سیاست میں مذہب کارڈ کا استعمال کب کب کیا گیا؟ اور کیا مذہبی حلقوں کا ووٹ بینک اصل وجہ ہے؟

منزہ انوار - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد


پاکستان کی سیاست میں اکثر سیاستدان مذہب سے اپنی گہری وابستگی کی تشہیر کرتے رہتے ہیں۔ قیامِ پاکستان کے وقت سے لے کر اب تک پاکستانی سیاست میں مذہب کا انتائی اہم کردار رہا ہے اور شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں ووٹروں کے لیے اپنے رہنماؤں کے مذہبی عقائد شاید ان کی حکومتی کارکردگی سے زیادہ اہم ہوتے ہیں۔

مسجدِ نبوی میں حکومتی وفد کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کے بعد سابق وزیرِ اعظم عمران خان سمیت تحریکِ انصاف کے مرکزی رہنماؤں کے خلاف توہین مذہب کے الزام میں درج مقدمے کو بھی سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے مذہب کارڈ کا استعمال قرار دیا جا رہا ہے۔

اب سے کچھ دیر قبل وفاقی وزیرِ داخلہ رانا ثناءاللہ نے اس واقعے میں موث افراد کے خلاف قانونی کارروائی کا عندیہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان افراد کو قطعی طور پر معافی نہیں دی جا سکتی اور سابق وزیرِ اعظم ‘عمران خان کو بھی گرفتار کیا جا سکتا ہے۔‘

پاکستان میں سوشل میڈیا پر اس مقدمے میں درج الزامات کے حوالے سے پاکستان مسلم لیگ نواز پر تنقید کی جا رہی ہے۔ بیشتر لوگ حیران ہیں کہ گذشتہ الیکشن میں مذہب کارڈ کا شکار ہونے کے باوجود مسلم لیگ نواز توہینِ مدہب کے الزام میں کسی اور سیاسی جماعت کے خلاف کارروائی کیسے کر سکتی ہے۔

وکیل اور انسانی حقوق کی علمبردار ریما عمر نے لکھا ’افسوس۔۔۔ احسن اقبال کے ساتھ جو ہوا اس کے بعد بھی آپ نے کچھ نہیں سیکھا۔ اب آپ حکومت میں ہیں، ذمہ داری دکھائیں۔ اپنے سیاسی مخالفین کا مقابلہ سیاست سے کریں، مذہبی اشتعال انگیزی اور انتقامی کارروائی سے نہیں۔‘

https://twitter.com/ammaralijan/status/1520533002689863684?s=20&t=PbRLvu1BQ-2LUiOX2gmHmA

صحافی رائے کھرل نے ٹویٹ کیا ’جن لوگوں پر ماضی میں جعلی مقدمے بنے، وہ سب تو کل والی ایف آئی آر سے بہت خوش ہیں۔ اور کہیں غم و غصہ ہے۔ مطلب خدارا سیاست کو جعلی کیسز اور پکڑ دھکڑ سے پاک رکھیں۔ کارکردگی کی بنیاد پر سیاست کریں، نظریات کی بنیاد پر سیاست کریں۔‘

سماجی کارکن عمار علی جان کا کہنا ہے کہ ’پی ٹی آئی رہنماؤں پر توہین مذہب کا الزام لگانے والی ایف آئی آر کے بارے میں سن کر صدمہ ہوا۔ پولیٹکل سکورنگ کے لیے توہین مذہب کے الزامات کا استعمال ناقابل قبول ہے۔ سیاست کی بنیاد نظریاتی اختلافات پر ہونی چاہیے نہ کہ مذہب سے چھیڑ چھاڑ پر۔ اس سے انتہا پسندوں کی مزید حوصلہ افزائی ہو گی۔‘

بسمہ محمود نے لکھا کہ وہ کسی کے خلاف مذہب کارڈ کے استعمال کی حمایت نہیں کرتیں۔۔۔ ’عمران خان کے خلاف بھی نہیں جنھوں نے اپنے پورے سیاسی کرئیر میں مذہب کا کارڈ بے شرمی سے استعمال کیا۔‘

مفتاح اسماعیل پر تنقید

مفتاح

حالیہ دنوں میں یہ پہلا واقعہ نہیں کہ کسی سیاسی رہنما کے خلاف توہنِ مذہب کا الزام لگایا گیا ہو۔

یاد رہے چند روز قبل دورہ امریکہ کے دوران پاکستان مسلم لیگ نون کے سینیئر رہنما اور وفاقی وزیِر خزانہ مفتاح اسماعیل کے ایک بیان پر الزام لگانے والوں میں شریں مزاری سمیت تحریکِ انصاف کے کئی رہنما بھی شامل تھے مگر بات سوشل میڈیا تک ہی رہی اور مقدمے کی نوبت نہیں آئی۔

اپنے بیان میں مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ ’عدم اعتماد کے بعد ایک تحریک شروع ہوئی جس میں سابق وزیراعظم عمران خان نے خاص طور پر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی قرآنی آیت کے، جس کا مطلب نیکی کی تبلیغ اور برائی کو روکنا، اور ان کے لیے ہم برائی کا سٹینڈرڈ اور وہ اچھائی کا سٹینڈرڈ ہیں، حوالے سے طالبان نے اس نام سے ایک وزارت بھی رکھی ہوئی تھی۔‘

مفتاح نے اس کی وضاحت دیتے ہوئِے کہا ’نہ صرف عمران خان نے بلکہ پی ٹی آئی والوں نے سیاست چمکانے کے لیے مذہب کا بے جا استعمال کیا اور اپنے جلسوں کا تھیم ہی امر بالمعروف رکھتے تھے اور جب میں نے اس کی نشاندہی کی تو پی ٹی آئی کے وزرا اور ان کی ٹرول آرمی نے میرے اوپر حملے شروع کردیے، سفید جھوٹ بولا گیا کہ خدانخواستہ میں نے قرآن کی آیت پرکوئی بات کی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’خان صاحب کا سیاست کے لیے مذہب کو استعمال کرنا قابل مذمت ہے، قرآن ہم سب کا ہے اور اس پر کوئی سیاست نہیں ہونی چاہیے۔‘

لیکن یہ وضاحت بھی ناقدین کو خاموش نہیں کروا سکی جس کے بعد مفتاح اسماعیل کی ایک نعت پڑھنے والی ویڈیو شئیر کی گئی۔

’پاکستان کی سیاست میں مذہب کارڈ کا استعمال کب نہیں ہوا‘

Getty Images

بی بی سی نے اس حوالے سے سیاسی امور کے تجزیہ کار اور لاہور یونیورسٹی آف مینجمینٹ سائنسز (لمز) میں پروفیسر رسول بخش رئیس سے بات کی ہے۔ پروفیسر رسول بخش کے مطابق سنہ 1948 میں قراردادِ مقاصد کے وقت سے مذہب کارڈ استعمال کرنے کی شروعات ہوئی اور یہ تب سے آج تک جاری ہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ اُس وقت لیاقت علی خان سمیت قائدِ اعظم کے ساتھ مل کر جن رہنماؤں نے پاکستان قائم کیا تھا، وہ علما کے سامنے ڈھیر ہو گئے۔

رسول بخش رئیس کہتے ہیں کہ علما کا اثرورسوخِ بہت زیادہ تھا اور یہ پاکستان بننے کے فوراً بعد ہی شروع ہو گیا تھا۔

’جب ایوب خان کو ’ریپبلک آف پاکستان‘ کی جگہ ’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘ کروانا پڑا

ایوب خان

ایوب خان نے علما کے اثرو رسوخ کو کم کرنے کی کوشش کی مگر وہ کامیاب نہ ہو سکے۔ انھوں نے آئین کے پہلے ڈرافٹ میں ملک کا نام ’ریپبلک آف پاکستان‘ لکھا تھا۔ پروفیسر رسول بخش رئیس کہتے ہیں کہ اس پر اتنا ہنگامہ مچا کہ ایوب خان کو اسے تبدیل کرکے ’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘ کرنا پڑا۔

یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا۔

اس کے بعد سنہ 1970 کے الیکشن میں جب یحییٰ خان نے لیگل فریم ورک (ایل ایف او) نافذ کیا جس میں کہا گیا کہ کوئی سیاسی جماعت اسلامک آئیڈیالوجی کے خلاف کوئی کام نہیں کرے گی، کوئی احکامات جاری نہیں کرے گی ورنہ وہ الیکشن میں حصہ نہیں لے سکے گی۔

یہ بھی پڑھیے

مسلم دنیا میں توہینِ مذہب کے قوانین

مذہب کارڈ: کیا عمران خان اقتدار بچانے کے لیے مذہب کا استعمال کر رہے ہیں؟

ریاست مدینہ، جناح کا پاکستان اور نیا پاکستان

اس کے بعد ذوالفقار علی بھٹو آئے۔ وہ کہتے تھے کہ ’میں اسلام، سوشلازم اور ڈیموکریسی چاہتا ہوں۔۔۔‘

پروفیسر رسول بخش رئیس کہتے ہیں ’سنہ 1973 میں بھٹو نے قانون میں ترمیم کی اور احمدیوں کو غیر مسلم قرار دے دیا۔‘

پھر اس کے بعد سنہ 1977 میں ان کے خلاف پاکستان قومی اتحاد (پی این اے) کی تحریک چلی جس میں پیپلز پارٹی کے علاوہ سیکولر، ریجنل، مین سٹریم کی نو پارٹیاں شامل تھیں۔

بھٹو

پروفیسر رسول بخش رئیس بتاتے ہیں کہ اس تحریک میں بھٹو کے خلاف جماعتِ اسلامی پیش پیش تھی اور انھوں نے اسے ’نظامِ مصطفیٰ تحریک‘ کا نام دیا تھا۔

اور اسی کے اثرات کم کرنے کے لیے بھٹو نے ’اسلامآئزیشن‘ کا پیکج متعارف کروایا جس میں جمعہ کے دن کو چھٹی کا دن قرار دیا، ریس کورس سے نائٹ کلبوں تک سب بند کروا دیے، شراب کو حرام قرار دے دیا۔

بھٹو کے بعد ضیا کا دور آیا جن کا کہنا تھا کہ ’میں نے تو نظامِ مصطفیٰ کی تحریکِ میں جو مطالبات تھے انھیں پورا کرنا ہے۔‘

پروفیسر رسول بخش رئیس پوچھتے ہیں کہ ’پاکستان کی سیاسی تاریخ میں مذہب کارڈ کا استعمال کب نہیں ہوا؟ اور آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ عمران خان صاحب سے لے کر دیگر سیاستدانوں تک بڑے موثر انداز میں یہ کارڈ پلے کر رہے ہیں۔‘

’مذہبی حلقوں کا ووٹ بینک اصل وجہ‘

پاکستان مظاہرہ

پاکستان کی سیاست میں مذہب کارڈ اتنا مؤثر کیوں ہے؟ اس حوالے سے پروفیسر رسول بخش رئیس کا ماننا ہے کہ اصل میں مذہب کارڈ کا استعمال ایک دوسرے کے خلاف نہیں، بلکہ ایک دوسرے پر بازی لے جانے کے لیے ہے کہ ہم کس طرح خود کو زیادہ مذہبی ظاہر کر سکتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں مذہبی رجحان رکھنے والے افراد کا ایک بڑا ووٹ بینک ہے اور اسی ووٹ بینک کو اپنی جانب راغب کرنے کے لیے سیاست میں مذہب کارڈ کا استعمال کیا جاتا ہے۔

وہ وزیِراعظم عمران خان کی بنائی گئی رحمت للعالمین اتھارٹی کی مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’اس وقت عمران خان کے ساتھ جو لوگ بیٹھے تھے انھوں نے ان سے پوچھا کہ آپ یہ کیوں بنا رہے ہیں تو عمران خان کا جواب تھا ’دیکھیں تحریکِ لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے پاس کتنے لاکھوں کا ووٹ بینک ہے، ہم اس ووٹ بینک کو کیپچر (اپنی طرف راغب) کرنا چاہتے ہیں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’اکثر اوقات مذہبی رجحان رکھنے والے افراد نچلے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جن کے پاس وسائل کی بھی کمی ہوتی ہے اور سیاستدان ان کے مذہبی رجحان کا فائدہ اٹھا کر ان کا استحصال کرتے ہیں۔‘

حالیہ واقعے اور اس پر درج کیے گئے توہینِ مذہب کے مقدمے کے متعلق پروفیسر رسول بخش کا ماننا ہے کہ ’یہ واقعہ جان بوجھ کر بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے اور پی ٹی آئی کا اس میں کوئی کردار نہیں ہے۔ یہ واقعہ سعودی عرب میں پیش آیا، لہذا سعودی عرب کا مسئلہ ہے۔‘

ان کا ماننا ہے ’چونکہ پاکستان کے انتخابات میں کسی پارٹی کو اتنی اکثریت نہیں ملتی اسی لیے وہ اپنا ووٹ بینک تھوڑا بڑھانے کے لیے مذہب کارڈ لے آتے ہیں۔‘ وہ کتہے ہیں کہ پاکستان کی سیاست میں مذہب کارڈ کا استعمال اسی دن بند ہو جائے گا جب کسی پارٹی کو 2/3 اکثریت ملے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32542 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments