عمران خان کے قریبی ساتھی ملک طاہر اقبال کے قتل میں ملوث ملزمان پولیس حراست سے فرار، اہلِ خانہ خوف کا شکار

محمد زبیر خان - صحافی


’عمران خان صاحب، محمود خان وزیر اعلیٰ خیبر پختونخواہ صاحب، آپ کے سب سے قابل اعتماد اور قابل بھروسہ ساتھی مقتول ملک طاہر اقبال کے بیوی بچے نہ صرف انصاف کے منتظر ہیں بلکہ جب سے ان کے نامزد ملزم صوبائی اسمبلی ہاسٹل سے فرار ہوئے ہیں اس وقت سے ہم عدم تحفظ اور خوف کا شکار ہیں۔‘

یہ پیغام ملک طاہر اقبال کی بیوہ فرح طاہر نے سابق وزیرِ اعظم عمران خان کو دیا ہے۔ تحریک انصاف کے رہنما ملک طاہر اقبال اور ان کے دوست سردار گل نواز گذشتہ سال فائرنگ کے ایک واقعہ میں قتل کر دیے گئے تھے۔

سردار گل نواز کی بیوہ سکینہ بی بی کہتی ہیں کہ ’بااثر اور طاقت ور شخص کے دن دہاڑے فرار ہونے جانے سے ہم غریب لوگ خوف کا شکار ہیں۔ راتوں کی نیند چھن چکی ہے کہ پتا نہیں کیا ہو گا۔ میرا، میرے بچوں اور کیس کی پیروی کرنے والے میرے دیور کا کیا بنے گا۔‘

انھوں نے عمران خان اور صوبے کے وزیر اعلیٰ سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ ’خدارا ہم غریبوں اور لاچار لوگوں پر رحم کریں۔۔ ملزم کو پکڑ کر جیل میں بند کریں۔‘

فیصل زمان کیسے فرار ہوئے؟

دوہرے قتل کے اس واقعے میں صوبہ خیبر پختونخوا اسمبلی کے ممبر فیصل زمان جہازوں والے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ملزم تھے اور عدالتی حراست میں تھے۔ پشاور پولیس کے مطابق فیصل زمان کو سپیکر خیبر پختونخوا کے پروڈیکشن آرڈر پر اسمبلی اجلاس میں شریک ہونے کے لیے لایا گیا تھا، جہاں سے وہ فرار ہو گئے۔‘

فیصل زمان کے فرار کا مقدمہ سنٹرل جیل پشاور کے سپرنڈنٹ عمیر کی درخواست پر پشاور پولیس نے درج کیا ہے۔ مقدمے میں فیصل زمان کے خلاف جیل سے فرار ہونے اور ڈیوٹی پر موجود اہلکاروں پر فرائض سے غفلت اور جرم میں معاونت پر مقدمات درج کیے گئے ہیں۔

درج مقدمے میں بتایا گیا ہے کہ پشاور میں ممبران اسمبلی ہاسٹل میں موجود فیصل زمان کے کمرے کو سب جیل قرار دیا گیا تھا۔

اس حوالے سے پشاور میں طویل عرصہ سے کرائم کی رپورٹنگ کرنے والے صحافی احسن اعوان کے مطابق ’مجھے یاد نہیں ہے اور نہ میں نے کبھی سنا کہ کسی ممبر اسمبلی کو جیل سے پروڈیکشن آرڈر پر لایا گیا ہو اور وہ اس طرح فرار ہو گیا ہو۔ یہ اپنی نوعیت کا عجیب و غریب واقعہ ہے۔ اس واقعے سے لگتا ہے کہ اس کے پیچھے کوئی لمبی منصوبہ بندی شامل ہے۔‘

احسن اعوان کہتے ہیں کہ فیصل زمان کو اسمبلی اجلاس کے لیے پروڈیکشن آرڈر کے تحت لایا گیا تھا اور اسمبلی اجلاس ختم ہونے کے بعد وہ تقریباً 46 دن تک اسمبلی ہاسٹل میں اپنے کمرے میں رہتے رہے تھے۔ یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ جب ممبر اسمبلی پروڈیکشن آرڈر کے تحت لائے جاتے ہیں تو وہ تھوڑی بہت آزادی کو انجوائے کرتے ہیں، مگر تعجب اس بات کا ہے کہ وہ دن دہاڑے فرار ہو گئے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’بہت سارے سوالات ہیں کہ وہ کیسے فرار ہو گئے؟ ان کو گیٹ پر کسی نے روکا کیوں نہیں؟ جیل کا عملہ کہاں پر تھا؟ پولیس والے اپنے فرائض سے غافل کیوں تھے؟ فرار کی اطلاع کیوں تاخیر سے دی گئی؟ راستے کیوں نہیں بلاک کیے گئے؟ تاخیر سے ایکشن کیوں ہوا؟ بہت سے سوالات جواب طلب ہیں مگر ان کا کوئی جواب نہیں مل رہا ہے۔‘

مقدمے میں نامزد محکمہ جیل خانہ جات کے اہلکاروں کی بھی دوسرے روز ضمانت ہو گئی ہے۔

پشاور پولیس کے مطابق ملزم ممبر صوبائی اسمبلی کو گرفتار کرنے کی بھرپور کوشش کی جارہی ہے اور ان کا نام ای سی ایل میں بھی ڈالا گیا ہے۔

فیصل زمان کے خاندان اور قریبی ذرائع نے اس حوالے سے کوئی بھی بات کرنے سے انکار کیا ہے۔

عمران خان کا قریبی دوست

ملک طاہر اقبال کے بھائی عدیل اقبال کہتے ہیں کہ ’ہمارا بھائی ایک سیلف میڈ انسان تھا۔ انھون نے دن، رات محنت کرکے کاروبار کھڑا کیا اور پھر علاقے میں فلاحی کام شروع کیے۔ عمران خان کی سوچ سے متاثر ہوئے تو تبدیلی کے لیے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرلی تھی۔‘

ہری پور کے صحافی ذاکر حسین تنولی کے مطابق ’ملک طاہر اقبال کا شمار ان لوگوں میں ہوتا تھا جنھوں نے سب کچھ اپنے زور بازو پر حاصل کیا تھا۔ ان کی سیاست اور سوچ سے اختلاف کیا جاسکتا ہے مگر ان کے خلوص اور نیک نیتی پر ان کے مخالفین بھی شک نہیں کرتے تھے۔‘

ذاکر حسین تنولی بتاتے ہیں کہ ملک طاہر اقبال تحریک انصاف صوبہ خیبر پختونخواہ کے ڈپٹی جنرل سیکرٹری کے علاوہ ہزارہ ڈویثرن کے ڈپٹی جنرل سیکرٹری کے عہدے پر فائز رہے ہیں۔ ان کی وجہ شہرت ان کے رفاعی کام بھی تھے۔ وہ علاقے میں ایک بڑی ایمبولینس سروس چلانے کے علاوہ کئی ادارے بھی چلارہے تھے۔

ذاکر حسین تنولی کے مطابق ملک طاہر اقبال کے ہمراہ قتل ہونے والے سردار گل نواز ان کے دوست اور سیاست کے ساتھی تھے۔ سردار گل نواز غازی ہی میں ایک درمیانے درجے کا ہوٹل چلاتے تھے اور دونوں قریبی دوست سمجھے جاتے تھے۔

سردار گل نواز نے سوگواروں میں تین بچے چھوڑے ہیں جن میں دو لڑکیاں، ایک لڑکا اور بیوہ شامل ہے جبکہ ملک طاہر اقبال نے چار لڑکے اور بیوہ سوگواروں میں چھوڑی ہیں۔

ذاکر حسین تنولی کہتے ہیں کہ ’تحریک انصاف میں اس وقت شاید بہت کم ایسے لوگ موجود ہیں جن کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ وہ عمران خان سے بلا کسی روک ٹوک اور وقت حاصل کیے مل سکتے ہیں۔ ان میں ایک ملک طاہر اقبال تھے۔ وہ عمران خان کے بہت قریبی لوگوں میں شمار ہوتے تھے۔‘

’ملکی اور بین الاقوامی دوروں پر بھی عمران خان کے ساتھ ہوتے تھے۔ سیاست اور بالخصوص حکومتی معاملات میں بھی عمران خان ملک طاہر اقبال سے مشورہ لیا کرتے تھے۔‘

دوہرے قتل کا واقعہ

13 ستمبر 2020 کو تھانہ غازی میں درج مقدمہ میں مدعی نوید اقبال کے مطابق ’میرا بھائی ملک طاہر اقبال اپنی گاڑی میں اپنے دوستوں سردار گل نواز،یاسر اورساجد کے ہمراہ رات ساڑھے آٹھ بجے تعزیت کے بعد واپس آرہے تھے کہ لنک روڈ محلہ پیپل کے قریب جھاڑیوں میں چھپے ہوئے افراد نے گاڑی پر اندھا دھند فائرنگ کی جس کے نتیجے میں ملک طاہر اقبال موقع ہی پر ہلاک ہو گئے جبکہ سردار گل نواز شدید زخمی ہونے کے بعد دم توڑ گئے تھے جبکہ یاسر اور ساجد محفوظ رہے تھے۔‘

درج مقدمہ کے مطابق اہلیاں علاقہ نے موقع پر پہنچ کر زخمیوں کو ہسپتالوں میں پہنچایا۔

ابتدائی رپورٹ میں واقعے کا مقدمہ نامعلوم افراد پر درج کروایا گیا تھا تاہم بعد ازاں تفتیش کے نتیجے میں ممبر صوبائی اسمبلی فیصل زمان جہازوں والے، شیر غازی اور رحمت اللہ کو نامزد کیا گیا تھا۔

بعد ازاں مقدمے کی تفتیش سی ٹی ڈی کے سپرد کردی گئی تھی جس میں بتایا گیا کہ اس قتل کے لیے اجرتی قاتلوں کی خدمات حاصل کی گئی تھیں۔

اجرتی قاتلوں کو بیس لاکھ روپے ادا کیے گئے

سی ٹی ڈی نے اس قتل کی تفتیش کا آغاز جیو فینسنگ سے کیا تھا۔ موقع پر سے سی ٹی ڈی کی تفتیش میں لکھی ہوئی تحریری تفتیش کے مطابق فیصل زمان کے ملازموں کے موٹر سائیکل ملے۔ یہ موٹر سائیکل جن ملازمین کے زیر استعمال تھے وہ بیرونی ملک فرار ہوگئے تھے۔

تفتیش کے دستیاب کاغذات کے مطابق انٹر پول نے نائجیریا میں ان کا پتا لگایا اور جیو فینسنگ کے نتیجے میں شیر غازی اور رحمت اللہ کو گرفتار کیا گیا تھا۔

انھوں نے سی ڈی ٹی حکام کو بتایا کہ مذکورہ قتل کے لیے فیصل زمان نے کرائے کے قاتلوں کو بیس لاکھ روپیہ ادائیگی کی تھی۔

سی ٹی ڈی حکام کی تفتیش کے مطابق مجموعی طور پر چھ کرائے کے قاتلوں کی نشان دہی ہوئی تھی۔ جس میں سے دو کو گرفتار کیا جاسکا تھا۔ ان کرائے کے قاتلوں سے حکام نے تفتیش کی اور عدالت میں ان کے بیانات ریکارڈ کروائے گئے جس میں انھوں نے اقرار جرم کرتے ہوئے بیان دیا کہ انھوں نے یہ قتل فیصل زمان سے پیسے لے کر کیا تھا۔

سی ٹی ڈی حکام نے دستیاب شواہد کی بنیاد پر تفتیش کو آگے بڑھایا۔ مقتول طاہر اقبال اور سردار اورنگ کے لواحقین نے بھی فیصل زمان کو مقدمے میں اپنا ملزم نامزد کردیا تھا۔

مقدمے کا احوال

فیصل زمان اور دیگر تمام ملزماں کے خلاف مقدمے کا ٹرائل ایبٹ آباد کی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں دہشت گردی دفعات کے تحت ہو رہا ہے۔

فیصل زمان کی درخواست ضمانت دو دفعہ ہائی کورٹ سے مسترد ہو چکی ہے جبکہ مقدمہ سے دہشت گردی دفعات نکالنے کی استدعا سپریم کورٹ سے مسترد ہو چکی ہے۔

مقدمے کے ٹرائل کے عدالتی کاغذات کے مطابق ضمانت کی درخواستوں پر پشاور ہائی کورٹ ایبٹ آباد بینچ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ اس مقدمے میں ضمانت نہیں دی جا سکتی تاہم مقدمے کا فیصلہ تین ماہ میں کیا جائے۔

فیصل زمان کی طرف سے اسی طرح کی ایک اور درخواست پر پشاور ہائی کورٹ ایبٹ آباد بینچ نے قرار دیا کہ ملزم کی جانب سے ٹرائل میں تاخیر کی جارہی ہے اس لیے ان کی درخواست کو خارج کیا جاتا ہے۔

دہشت گردی کی عدالت میں ٹرائل کے دوران استغاثہ کی جانب سے مجموعی طور پر 33 شہادتیں دی گئی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32498 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments