گزشتہ دور کی عید ، جب عید پر عیدکارڈ ملتے تھے


زمانہ بہت تیزی سے گزرگیا اور اور اپنے ساتھ بہت سی پرانی چیزیں ساتھ لے گیا۔ بہت سی چیزوں میں تبدیلیاں آئی اور اس میں بہت سی چیزیں ختم ہوگئی
ہیں۔ہر تہوار میں کچھ نہ کچھ تبدیلیاں آئی ہیں  ۔عید ہو یا بقرعید، محرم ہو یا رمضان، ہر تہوار میں کافی کچھ تبدیل ہوچکا ہے۔ آج سے 20 ،30 سال پہلے کا رنگ مختلف تھا اور آج کا رنگ بالکل مختلف ہے۔دوسرے تہواروں کی طرح عید کے تہوا ر میں بھی کافی تبدیلی دیکھنے میں آئی۔چھوتی عید یعنی عیدالفطر منانے کے انداز میں کافی بڑی تبدیلی ہوئی اور اب وہ چیز تقریباً معدوم ہوگئی ہے۔
جس معدوم چیز کی بات ہورہی ہے وہ ہے عید کارڈ، جی جی عید مبارک کارڈ۔ عید کارڈ سے ہمارا حسین بچپن جڑا ہے اور موجودہ نسل کے بچے تو اس کارڈ کےبارے میں جانتے بھی نہیں ہونگےاور اگر کچھ خبر بھی ہوگی تو اس پر لکھے عجیب عجیب سے شعر میں چھپےمزاحیہ شعروں سے ناواقف ہونگے۔ لیکن 90والے لوگوں کے پاس اس عید کارڈ کو لے کر خوبصورت یادیں اور مزے مزے کی  بے شمار باتیں ہونگی۔رمضان آتے ہی عید کارڈ خریدنے کا آغاز ہوجاتا تھا مگر رمضان کے آخری دنوں بولخصوص چاند رات والے دن عید کارڈ کی خریدار ی کا سب سے اہم دن ہوتا تھا۔
عید کارڈ بے شمار اقسام کے ہوتے تھے کیونکہ بچپن کا بجٹ کم ہوتا تھا تو اس حساب سے چلنا ہوتا تھا۔ بندر ،بھالو، پھول اور انڈین اداکاروں پر مبنی طرح طرح کے عید کارڈ مارکیٹ میں موجود ہوتے تھے اور یہ کارڈ عام طور پہ کتابوں کی دکان پر ملتے تھے مگرآخری دنوں میں یہ کارڈ بیچنے والے گلی گلی گھومتے تھے ۔ ہم اوپری فلور سے انھیں آوازدے کر نیچے جاکر کارڈ خریدتے تھے۔ کیونکہ بجٹ کم ہوتا تھا اور کارڈزیادہ لینے ہوتے تھے تو چھوٹے کارڈسائز کے انڈین اداکاروں کے کارڈ یا پھر جانوروں کے کارڈ خریدتے تھے۔کارڈ عام طور پر سفید رنگ کے لفافے میں ہوتے تھے۔
کارڈ خریدنا توپہلا مرحلہ ہوتا ہےدوسرا مرحلہ تو اس سے زیادہ دلچسپ اور مشکل ہوتا تھا۔ کارڈ پر شخصیت کے حساب سے شعر لکھا جاتا ہے یعنی یاری کے مطابق شعر ، جیسے اگر کوئی بہت قریبی دوست ہے تو
عید آئی ہے زمانے میں
میرا دوست گر گیا غسل خانے میں
اسی طرح کے مختلف شعر ہوتے تھے جیسے
ڈبے میں ڈبا، ڈبے میں کیک
میرا دوست لاکھوں میں ایک
سویاں پکی ہیں سب نے چکھی ہیں
آپ کیوں رو رہے ہیں آپ کے لئے بھی رکھی ہیں
یہ شعر لکھنے کا مرحلہ بہت دلچسپ ہوتا تھا کیونکہ دوستوں کے کارڈ تو بہن سے لکھواسکتے تھے لیکن خاص کارڈ اپنی گندی رائٹنگ میں ہی لکھنےپڑتے تھے تاکہ کسی کو خبر نہ ہو۔ کارڈ کی فائدہ یہ ہوتا تھا کہ جس  سے پوری سال بات کرنے کی ہمت نہ ہوتی تھی اس سے کارڈ دینے کے بہانے وقت کچھ بات کرنے کے لمحات میسر آجاتے تھے۔ سب سے مزہ تو دوستوں کو کارڈ پر عجیب عجیب سے شعر لکھنے میں آتا تھا اور پھر جب وہ کارڈ کھول کر سامنے پڑھتے اور ناگواری کا اظہار کرتے تو ہم مزید تپاتے تھے۔
عید تو اب بھی آتی ہے اور عید کے پیغامات بھی  موصول ہوتے ہیں۔مگرعید مبارک کے پیغام اب عید کارڈ پرنہیں بلکہ واٹس اپ پر ملتا ہے۔ اب شاعری نہیں ملتی  بلکہ گھسے پیٹےجملے ملتے ہیں جس میں بس نام تبدیل ہوتا ہے اور پیغام وہ ہی رہتا ہے۔ سوچتا ہوںیہ روایات،یہ خوبصورت رسم، یہ منفرد خوشیاں اگلی نسلوں کی قسمت میں نہیں ہیں ۔ ڈیجیٹل دور کی یہ نسل عید کارڈ کی خوشی کا کیا جانے؟

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments