چنگیزی سے بچئے: سیاست کو دین سے جُدا کیجئے


‘جلالِ پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو

جُدا ہو دین سیاست سے، تو رہ جاتی ہے چنگیزی!’

احتمال ہے کہ بالِ جبریل کے اس شعر کو یورپ میں لکھتے ہوئے علامہ مرحوم کی ماضی پرستانہ حِس بہت زور سے پھڑکی ہوگی۔ انہوں نے یورپ کی ترقی میں سیاست سے مذہب کی علیحدگی کے تصور کو یکسر نظرانداز ہی کر دیا۔ شاید ہی کوئی ایسا محقق ہو جو اس بات کو رد کرے کہ خواہ جزوی طور پر ہی سہی سیاست و ریاست سے مذہب کی مفارقت نے ترقی کے پہیے کو کس تیزی سے گھمایا ہے۔ دین کے نام پر ہونے والی تباہ کاریوں کو ہی گن لیں۔ اب اگر ردِ جواب کو لے کر آپ عالمی جنگوں میں ہونے والی تباہ کاریوں کے بارے میں سوچ رہے ہوں تو ان کے محرکات میں توسیع پسندی، سامراجیت اورافراطِ ملت پرستی جیسے نظریات کا استعمال نمایاں ہوگا۔ جبکہ یہاں میرا محورِ گفتگو صرف مذہب کا سیاست میں استعمال تک محدود ہے۔ تاریخ بھری پڑی ہے اخلاطِ دین و سیاست کے محصول سے۔ ماضی کو چھوڑیے وقتِ موجود میں ایران، افغانستان کی مثال لیجئے یا اسرائیل ہی کی نظیرکا مشاہدہ کریں، آپ کو حسنِ چنگیزی چہارطرف پھیلتا نظر آئے گا۔ اگر میں اس خیال کو مستغرب سوچ کا شاخسانہ کہوں یا آپ اقبال کی اس غزل، خاص کر اس شعر کو، مستشرق فکر کا استعارہ گردانیں تو غالباً ہم دونوں ہی غلطی پر ہوں گے کیوں کہ دین کے سیاست سے جدا ہونے کے نظریہ میں مشرق و مغرب پسندانہ سوچ کا ہونا صرف ایک اتفاق ہی ہو سکتا ہے۔ یہ ایک افاقی مسلمہ اصول کے طور پر ابھرا ہے۔

چند روز قبل ایک مباحثہ میں محترم وجاہت مسعود اور قبلۂ نوراللہ صاحب نے رائے زنی کی کہ ‘مذہب کا سیاست میں استعمال بند ہونا چاہیے کیونکہ یہ جب بھی ہو گا غلط ہی ہو گا۔’ غور فرمائیں تو بات دل کو لگے گی اور اگر نہ لگے تو دور جانے کی زحمت مت کریں چونکہ پاکستان کے تناظر میں آپ کو بھٹو صاحب یا شاید لیاقت علی خان کے دور سے شروعات کرنی پڑ جائے۔ محض گزشتہ چند ایام میں بلکہ چند برسوں میں ہونے والے واقعات کا بغورمشاہدہ کرلیں تو مقصدِ تحریر باآسانی سمجھ آ جائے گا۔ اب چاہے وہ تحریکِ لبیک کا سیاسی پیچ وخم سے بھرپور مارچ ہو، اس کی سیاسی حمایت، معروضی حالات کو نظر انداز کرتے ہوئے ریاستِ مدینہ کا تصور، ایسے نظریے کی ترویج کیلئے بھاڑے پر موجود مولوی حضرات کا استعمال، سیاسی اجتماعات مذہبی استعارات وعلامات کی نمائش، یا مبارک ایام میں کسی ملا نما ‘سلیبریٹی’ کے مذہبی بیان کا سیاسی استعمال ہو۔

اب بھی بات نہیں بنی تو 28 اپریل کو مسجدِ نبوی میں ہونے والی کج خلقی اور غوغا کو یاد کرلیں۔ ایسے مقدس مقام پربرپا ہنگامے نے ستم دیدہ پر تو کوئی اثر ڈالا ہو نہ ہو مگراس بات کی قلعئ ضرور کھول دی کہ گزشتہ کئی دھائیوں سے رائج اس مشاق خانہ نے ایسی نفرت کو جنم دیا ہے جو نہ صرف اس مشاق خانہ کے اساتذہ بلکہ پورے ملک کی جگ ہنسائی کا مؤجب بنی۔ حق میں تاویلیں بھی بہت آئیں، مخالفت میں دلیلں بھی بیش بہا بہم ہوئیں۔ کہیں سے مسجد کی حدود بارے نقارہ زنی ہوئی، کہیں سے پامالیٔ تقدس کی مناجات بلند ہوئیں۔ لیکن محرض چپ سادھے زیرِلب مسکراتا ہی ملا۔ اس واقعہ بلکہ سانحہ نے جہاں ایک خاص مذہب کے لوگوں کے جذبات مجروح کئے وہیں عالم میں ایک پیغام بھی نشر کیا ‘ سارے گھر میں دو ہی دُھنکر بُھنکر۔’

 گزشتہ ہفتہ ایک ایف آئی آر درج کرائی گئی جس کے تحت عمران خان اور انکی جماعت سے تعلق رکھنے والے 110۔150 افراد پر حرمتِ مقدسہ کی پامالی کا الزام لگایا گیا اور چند ایک گرفتاریاں بھی عمل میں لائیں گئیں۔ جہاں پہلے سابقہ حسبِ اختلاف کے سہرآب اس بات پر ملتمس تھے وہیں آج تحریکِ انصاف کے رستم مذہب کے سیاست میں استعمال کی صدائیں بلند کرتے نظرآتے ہیں۔ راسخ ہے کہ حسبِ اختلاف کے خرقۂ سے نکل کر اقتدار کی خلعت پہنتے ہی طرزِفکر یکسر تبدیل ہو جاتا ہے۔ احسن ہوتا اگر اس سارے واقعہ کی شاید اخلاقی مذمت ہی کافی ہوتی اور جس سرزمین پر یہ عمل ہوا اسے ہی کارروائی کا اختیار چھوڑ دیا جاتا۔ موجودہ حکومت بھی سابقہ کی طرح اپنے سیاسی عزائم کے  حصول کے لئے مذہب کو ہی استعمال کرتی نظر آرہی ہے۔ ‘مذہب کا سیاست میں استعمال بند ہونا چاہیے کیونکہ یہ جب بھی ہو گا غلط ہی ہو گا۔’ ہم نے سنگمِ دین و سیاست کی اولاد اور اسباط تو بہت دیکھ لئے، ایک موقع انکے فراق کو بھی دے کر دیکھ لیں۔ کب تک تلوار سے لگے زخم پر تلوار کی ہی نوک سے مرہم لگائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments