آزادی صحافت: ’پریس کلب کے باہر آویزاں وزیراعظم کے بینر بہت کچھ کہتے ہیں‘


ہر برس 3 مئی کو دنیا بھر میں آزادی صحافت کا دن منایا جاتا ہے اور اس دن کا مقصد لوگوں میں آزادی صحافت کی اہمیت کے بارے میں آگاہی پیدا کرنا ہے۔

ہر سال کی طرح اس سال بھی آزادی صحافت سے متعلق اعداد و شمار اور صورتحال مسلسل تشویشناک نظر آرہی ہے۔

بی بی سی اردو نے اس برس پاکستان، انڈیا، افغانستان اور بنگلہ دیش کے صحافیوں سے بات کر کے یہ جاننے کی کوشش کی کہ ان کے ملکوں میں آزادی صحافت کی صورتحال کیا ہے اور کیا میڈیا پر دباؤ معاشرے میں رائج جہوری اقدار کو بھی متاثر کر رہا ہے۔

’اس خبر کو کیوں اور کس نے روکا؟‘

صحافی عنبر رحیم شمسی نے، جو آج کل کراچی میں انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن کے شعبہ صحافت میں ڈائریکٹر کی خدمات سرانجام دے رہی ہیں، اس حوالے سے اپنے خیالات اور مشاہدات کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ اکثر کہا جاتا ہے کہ دیکھو، پاکستان میں پچاس ساٹھ چینل ہیں، درجنوں اخبار، کئی ڈجیٹل پلیٹفارم اور ہزاروں نیوز ٹیوبر ہیں۔ کتنا متحرک میڈیا ہے، کتنا آزاد لیکن تعداد کی بنیاد پر نہ آزادی اور نہ ہی معیار کو جانچا جا سکتا ہے۔‘

اس حوالے سے برطانوی ناول نگار اور صحافی جارج آرویل کی ایک مشہور کہاوت کا حوالہ دیتے ہوئے عنبر شمسی نے کہا کہ ’اگر آپ کو سمجھنا ہو کہ دراصل کنڑول کس کے ہاتھ میں ہے تو ان قوتوں کی طرف دیکھو جن پر نہ تنقید ہوتی ہے اور نہ ہی کھل کر بات۔‘

عنبر شمسی کہتی ہیں کہ ’گذشتہ چند برس میں پاکستان میں آزادی اظہار رائے کی صورتحال بدتریج بگڑتی نظر آئی اور اس کی وجوہات میں وہ مالی انعامات اور سزائیں اور اہم شخصیات تک رسائی شامل ہیں جس کے ذریعے میڈیا ادارے اپنا کاروبار چلاتے ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’اگر کوئی ادارہ یا صحافی ریاست کی طے شدہ حدود کو پار کر لے تو ان کو قانونی کارروائیوں، گرفتاریوں، گمشدگی، یا تشدد کے ذریعے واپس حدود میں زبردستی کھینچا جاتا ہے۔ تو باقی صحافی یا میڈیا ادارے جو اپنا گھر یا کاروبار چلانا چاہتے ہیں، جو نظریاتی نہیں پھر وہ بھی دس بار سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔‘

عنبر کا کہنا ہے کہ ’جب تک عوام کو نہیں معلوم ہو گا کہ ان کے ٹیکس پر کام کرنے والے پالیسی ساز یا قانون نافذ کر نے والے اپنے اختیارات کس طرح استعمال کر رہے ہیں، یا اس کا غلط استعمال کر رہے ہیں تو وہ کس طرح اپنے آئینی حقوق مانگ سکے ہیں، ووٹ ڈال سکتے ہیں؟

عنبر شمسی

عنبر شمسی کہتی ہیں کہ گذشتہ چند برس میں پاکستان میں آزادی اظہار رائے کی صورتحال بدتریج بگڑتی نظر آئی

مین سٹریم میڈیا میں زیر بحث موضوعات پر بات کرتے ہوئے عنبر شمسی نے کہا کہ ’کیا مین سٹریم میڈیا میں بلوچستان یا سابقہ قبائلی علاقوں سے مکمل خبریں ملتی ہیں۔‘

انھوں نے پاکستان کی سیاسی صورتحال پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اور حال ہی میں نو اپریل کی رات کو وزیر اعظم ہاؤس میں اس وقت کے وزیراعظم کے ساتھ کیا ہوا، اس پر تو مین سٹریم میڈیا پر کھل کر بات ہی نہیں ہوئی۔ جس روز پاکستانی قوم تحریک عدم اعتماد اور قومی اسمبلی میں ہونے والے واقعات کی وجہ سے یرغمال ہوئی، اصل واقعات تو راز ہی رہے۔ اس ایک مثال سے جارج آرویل کا جملہ پھر یاد آ جاتا ہے کہ ’اس خبر کو کیوں اور کس نے روکا؟‘

’اگر میڈیا آزاد نہیں تو سماج بھی آزاد نہیں‘

پڑوسی ملک انڈیا میں نیوز ویب سائٹ ’دا وائیر‘ کی سینئیر ایڈیٹر عارفہ خانم شیروانی کہتی ہیں کہ انڈیا میں آزادی صحافت کے حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔

’سنہ 2021 کی رپورٹ کہتی ہے کہ انڈیا صحافیوں کے لیے بہت خطرناک ملک بن گیا ہے۔ اس کے علاوہ امریکہ کے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی بھی ایک رپورٹ کہہ رہی ہے کہ جو صحافی اور صحافتی ادارے سرکار پر تنقید کرتے ہیں ان پر سوشل میڈیا پر ٹرولنگ کے ذریعے دباؤ بڑھایا جا رہا ہے۔‘

عارفہ خانم شیروانی کہتی ہیں کہ ’اس سے پہلے بھی ہم دیکھ چکے ہیں کہ کئی میڈیا ہاؤس، عالمی واچ ڈاگ ادارے جو میڈیا پر نظر رکھتے ہیں، انھوں نے انڈیا میں جمہوریت کی لگاتار گراوٹ کے بارے میں بتایا اور ان اداروں نے بہت فکر ظاہر کی۔‘

انھوں نے ایک تازہ ترین رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ انڈیا پوری دنیا میں سب سے زیادہ انٹرنیٹ بند کرنے والا ملک بن گیا ہے۔ سنہ 2021 میں انڈیا میں 100 سے زائد مرتبہ انٹرنیٹ بند کیا گیا اور اس فہرست میں انڈیا سب سے اوپر ہے۔‘

’اس فہرست میں دیگر ممالک سوڈان، ایران اور میانمار کے نام بھی شامل ہیں۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے اب یہ حالات ہو گئے ہیں کہ ان ملکوں کے ساتھ نام لیا جا رہا ہے۔‘

عارفہ خانم کہتی ہیں کہ جو لوگ ابھی بھی صحیح طریقے سے صحافت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، ان کو ستا کر، دباؤ میں پریشان کر کے ان کی آواز بند کی جا رہی ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ میڈیا کی آزادی اس لیے بھی اہم ہے کہ ’اگر میڈیا آزاد نہیں تو اس ملک کا سماج بھی آزاد نہیں کیونکہ میڈیا ہی حکومت کی کارکردگی پر نظر رکھتا ہے، ان کا حساب کتاب کرتا ہے۔‘

عارفہ خانم شیروانی

عارفہ خانم کہتی ہیں کہ جو لوگ ابھی بھی صحیح طریقے سے صحافت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، ان کو دباؤ میں پریشان کر کے ان کی آواز بند کی جا رہی ہے

’جب ہر جگہ معلومات کو دبایا جائے اور صرف تعریفوں کے پل باندھے جائیں تو آپ سوچیے کہ جو لوگ سرکار کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں ان کو قوم مخالف کہا جا رہا ہے کہ وہ ملک کے خلاف کام کر رہے ہیں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’تو یہ ایک بہت خطرناک ماحول بنتا ہے جہاں نہ صرف رپورٹر اور صحافیوں کے لیے بلکہ کمزور طبقے کے لیے بھی بہت خطرناک ہے، جن کی آواز دبائی جاتی ہے۔‘

’جب صحافیوں کی آواز دبائی جاتی ہے تو آپ یہ سوچیے کہ جو کمزور طبقے کے لوگوں کے حقوق ہیں، ان کی جو آزادی ہے، ان سب کا گلا گھونٹا جاتا ہے کیونکہ صحافی عام لوگوں کے ہی سوالوں کو آگے رکھتے ہیں، سرکار پر سوال اٹھاتے ہیں تاکہ سرکار صحیح ڈھنگ سے کام کرے اور صرف ایک خاص طبقے کو فائدہ نہ پہنچائے۔

تو جب یہ ساری آوازیں درکنار کر دی جائیں، تمام آوازوں کو دبایا جائے، تو جو غریب لوگ ہیں، انڈیا کی آبادی کا جو 80 فیصد لوگ ہیں، ان پر اثر پڑ رہا ہے اور جو جمہوریت ہے اس میں مسلسل گراوٹ کو ظاہر کرتا ہے۔

’افغان معاشرہ معلوماتی خلا اور انتہا پسندی کے جال میں پھنس جائے گا‘

افغان صحافی اور سماجی کارکن سیما امیری افغانستان میں آزادی اظہار خیال پر لگنے والی پابندیوں کے بارے میں اپنے تجربات کی روشنی میں بات کرنا چاہتی ہیں۔

وہ بتاتی ہیں کہ ’کچھ عرصہ قبل بامیان صوبے میں ایک نابینا لڑکی اپنے گھر والوں کے ساتھ آئی تاکہ ان کی وہاں کوئی مدد کی جا سکے۔

’میری ان سے وہاں ملاقات ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ طالبان نے ان کی مدد نہیں کی۔ میں نے اس بارے میں ایک رپورٹ لکھ کر مقامی میڈیا میں دو اداروں کو بھیجی لیکن دونوں نے اس رپورٹ کو شائع کرنے سے انکار کر دیا کیونکہ اس لڑکی نے طالبان حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔‘

وہ مزید کہتی ہیں کہ ’مجھ سمیت کئی خواتین سماجی کارکنان نے ملاقاتیں کی اور میں نے اس حوالے سے خواتین کے احتجاج کی رپورٹس تیار کیں جنھیں میں نے متعدد میڈیا اداروں کو بھیجا لیکن کسی نے اسے استعمال نہیں کیا۔

یہ بھی پڑھیے

’میں آپ کے ماتھے پر چار گولیاں مار کر قتل کرسکتا ہوں‘

عمران خان، مودی، اردوغان اور محمد بن سلمان ’آزادی صحافت کے دشمنوں‘ کی فہرست میں شامل

کیا انڈیا اور پاکستان میں صحافت آزاد ہے؟

’اس سے صاف ظاہر ہے کہ طالبان نے افغان پریس پر کتنا دباؤ ڈالا ہوا ہے اور کہا ہے کہ اُن کے خلاف کوئی خبر شائع نہ کی جائے۔‘

سیما امیری کے مطابق افغانستان میں طالبان کے ہاتھوں افغان حکومت کے زوال کے بعد آزادی اظہار کی صورتحال انتہائی نازک اور مکمل طور پر محدود ہو کر رہ گئی ہے۔

’سیلف سنسر شپ، صحافیوں پر دباؤ اور تفریحی اور سیاسی پروگراموں کی معطلی، طالبان کی جانب سے افغان میڈیا اور صحافیوں کے خلاف کیے جانے والے کچھ اقدامات ہیں۔ بدقسمتی سے افغانستان میں صحافیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور ان پر سخت پابندیاں عائد کی گئیں۔‘

سیما امیری کا ماننا ہے کہ آزادی اظہار اور معلومات کی گردش پر اس پابندی اور دباؤ سے جمہوری اقدار پر منفی اثرات مرتب ہوں گے اور افغان معاشرہ مزید معلوماتی خلا اور انتہا پسندی کے جال میں پھنس جائے گا۔

شاہد العالم

بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے فوٹو جرنلسٹ اور سماجی کارکن شاہد العالم

’پریس کلب کے باہر آویزاں وزیراعظم کے بینرز آزادی صحافت کے حوالے سے بہت کچھ کہتے ہیں‘

بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے فوٹو جرنلسٹ اور سماجی کارکن شاہد العالم کہتے ہیں کہ دباؤ، ڈیجیٹل سکیورٹی ایکٹ اور جو نئے میڈیا قوانین بنائے جا رہے ہیں وہ خوفناک ہیں لیکن یہ بنگلہ دیشی میڈیا کے سر تسلیم خم کرنے کے لیے کافی نہیں ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’صرف چند کے علاوہ زیادہ تر حکومتی پریس کانفرنسیں اب تعریفی کانفرنسیں بن چکی ہیں۔‘

’ہمارے یہاں کسی برسراقتدار حکومت کے تحت کبھی قابل اعتبار انتخابات نہیں ہوئے لیکن سنہ 2014 اور 2018 کے شرمناک انتخابات نے آمریت کی جانب رخ کا آغاز کیا۔ بدعنوانی کے تیزی سے بڑھنے کی وجہ سے حکمران جماعت اور ان کے ساتھیوں کی طرف سے بہت زیادہ دولت اکٹھی کی جا رہی ہے، جس سے وہ میڈیا کو خرید سکتے ہیں۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’الجزیرہ کی دھماکہ خیز ڈاکیومینٹری ’آل دی پرائم منسٹرز مین‘ کے بارے میں رپورٹنگ پر میڈیا کی نا اہلی اس بات کا اشارہ تھی کہ مستقبل میں کیا آنے والا ہے لیکن وزیراعظم کی 75 ویں سالگرہ کے موقع پر کیوٹونگ (انتہائی ادب کے عمل) نے یہ سب پر یہ عیاں کر دیا کہ میڈیا کتنا جھک چکا ہے۔

’ڈی ایس اے کے خلاف مظاہروں کے بعد صحافیوں کی فلاح و بہبود کے فنڈ کو فوری طور پر ختم کر دیا گیا جبکہ پریس کلب کے باہر وزیراعظم کے دیو قامت بینر آویزاں کیے گئے، جو ملک میں آزادی صحافت کے حوالے سے بہت کچھ کہتے ہیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments