جنہیں دیوانگی نے پناہ دیدی


اس کی ماں اس دنیا سے رخصت ہو گئی لیکن اس کی آنکھیں وہیں رہ گئیں۔ گھر کی دہلیز پار کرنے سے پہلے اسے تکتی آنکھیں۔ مامتا کی محبت سے لبریز لیکن اداس۔ پانچ چھ سال کی عمر میں دیکھا یہ منظر اسے کل کی طرح یاد تھا۔ اس کے ذہن کے کینوس پر نقش ایک ایسی تصویر جسے وقت کبھی دھندلا نہ سکے۔

اس نے یہ بات مجھے اس وقت بتائی جب وہ بظاہر اپنے ہوش و حواس میں تھا۔ اب اس کی عمر انیس یا بیس برس تھی۔

وہ شاید باتوں باتوں میں مجھے یہ باور کرانے کی کوشش کر رہا تھا کہ وہ پاگل نہیں ہوا۔ اس کی یاد داشت بالکل ٹھیک ہے۔ اسے بچپن کی باتیں بھی ایسے یاد ہیں جیسے یہ کل ہوئی ہوں۔ اسی دوران اس کے نوجوان دماغ کے کسی نہاں گوشے سے یہ منظر اس کے سامنے آ گیا اور اس نے بیان کر دیا۔

وہ محرومیوں کا شکار توجہ کا پیاسا ایک نوجوان تھا۔ بہت سی باتوں میں مجھے وہ اپنے جیسا لگا۔ میں اس کی باتوں پر توجہ دیتا تھا، کوشش کرتا تھا کہ اسے کسی طرح مکمل مایوسی کا شکار ہونے نہ دوں۔ شاید اسی لیے اس کی مجھ سے بنتی بھی بہت تھی۔

کبھی کبھی اسے اچانک دورے پڑتے اور وہ اپنے ایک ہاتھ اور بازو کو دیومالائی طاقت کا حامل سمجھتا۔ کہتا میں اس ہاتھ سے جو چاہوں کر سکتا ہوں۔ بڑی سے بڑی عمارت بنیادوں سے اکھاڑ سکتا ہوں۔

وہ تین بھائیوں اور چار بہنوں میں سب سے چھوٹا بھائی تھا جبکہ اس کے بعد آخری نمبر پر ایک بہن تھی۔ وہ بھی اپنے تمام بہن بھائیوں کی طرح کراچی سے باہر اپنے آبائی علاقے میں پیدا ہوا تھا۔

ایک ایسا علاقہ جہاں ہرطرف ہریالی تھی۔ گھنے درخت تھے۔ کھیت کھلیان تھے اور قریب ہی ایک نہر تھی۔ یہ علاقہ ملک کے آبپاشی نظام کے آخری حصے یعنی ٹیل پر تھا جس سے کچھ دور دریائے سندھ سمندر میں گرتا تھا۔ سمندر کے قریب ہونے کے باوجود یہ زرخیز ترین علاقہ تھا۔ کیونکہ دریائے سندھ کا پانی یہاں کی زمینوں کو سیراب کرنے کے ساتھ سمندر کو بھی اپنی حد میں رکھتا تھا۔ اسے آگے بڑھنے نہیں دیتا تھا۔ کہ اس وقت کوٹری بیراج سے نیچے اتنا پانی ضرورت چھوڑا جاتا تھا کہ ٹیل کی زمین بھی سانس لے سکے۔

یہاں اس کے نانا کی زمین تھی۔ اور اس کے کنارے گھنے درختوں میں گرا ان کا چھوٹا سا گاؤں تھا، جہاں کبھی دسیوں گھر ہوتے تھے۔ اب وہاں ان کے نانا، دو مامووں اور ان کا گھر رہ گیا تھا۔ لکڑی، گھاس پھوس سے بنے اپنے گھر میں اس نے اپنی ماں سے رحم دل شہزادوں، شہزادیوں، عادل بادشاہوں، خوبصورت پریوں، ظالم چڑیلوں اور بھوت پریتوں کی کہانیاں سنی تھیں۔

گاؤں کی باقی ماندہ رونق بھی زیادہ عرصہ نہ رہی۔ نانا کی زمین آہستہ آہستہ بکتی گئی۔ آخرکار نانا، نانی بھی اپنے بیٹوں اور بیٹیوں سمیت گاؤں چھوڑ کر کراچی چلے گئے۔ پیچھے وہ اپنے والدین اور بہن بھائیوں کے ساتھ تنہا رہا گیا۔ لیکن اس کے والدین بھی آخر کب تک گاؤں میں رہتے انہیں بھی رخصت سفر باندھنا پڑا۔ یوں وسیع خاندان کا آخری گھر بھی روانہ ہوا۔ گاؤں اجڑ گیا۔ صدیوں سے جو مسکن تھا وہ پیچھے رہ گیا۔ صرف یادیں رہ گئیں۔

۔ ۔ ۔

گاؤں چھوڑنے کے بعد انہوں نے کراچی کا رخ کیا اور کراچی میں اپنے نانا کے پاس آ کر پڑاؤ ڈالا۔ جو شہر کے باہر سرسبز باغات میں گرے ایک گاؤں میں سکونت اختیار کرچکے تھے۔ یہ کچے پکے مکانوں پر مشتمل ان کے رشتہ داروں کا ہی گاؤں تھا جہاں صرف اپنی ہی برادری کے لوگ آباد تھے۔ گھروں کے بڑے بڑے کمپاؤنڈ اور تنگ گلیوں والے اس گاؤں میں بجلی کنڈے کی تھی اور گیس ابھی نہیں پہنچی تھی۔

ہمارے اس دوست نے حقیقی معنوں میں شعور کی آنکھ اسی گاؤں میں کھولی اور زندگی کے سب سے بڑے حادثے ماں کی موت سے بھی اسے یہیں دوچار ہونا پڑا۔ بہت ہی چھوٹی عمر میں ماں کے بچھڑنے کا اس پر شاید فوری شدید اثر نہیں ہوا لیکن اپنی طرف دیکھتی ماں کی آنکھیں وہ کبھی بھول نہیں پایا۔

ماں کی وفات کے بعد والد نے کوشش کی کہ ساتوں بہن بھائیوں کو ماں کی کمی ہونے نہ دے۔ لیکن۔ ماں کی کمی پوری کرنا شاید کبھی ممکن نہیں ہوتا۔ یہی کمی میرے اس دوست کے لیے زندگی کا اب تک کا سب سے بڑا مسئلہ بننے والی تھی۔ اسے اسکول میں داخل کرایا گیا تو بمشکل پانچویں جماعت تک ہی پڑھ سکا۔ والد اور بھائیوں نے بہت کوشش کی کہ یہ تعلیم جاری رکھے لیکن اس نے صاف انکار کر دیا۔

اس نے چھوٹے چھوٹے کام کر کے گھر کے اخراجات میں بھائیوں کا ہاتھ بٹانا شروع کر دیا۔ کبھی پکوڑے سموسے تھال میں رکھ کر گاؤں میں آوازیں لگا کر بیچتا۔ تو کبھی سبزی اور فروٹ کی پھیری شروع کر دیتا۔ شام کو سارے پیسے بڑی بہن کے حوالے کر دیتا۔

وقت پر لگا کر اڑتا رہا۔ میرا یہ دوست مستقبل سے بے پرواہ لڑکپن سے نوجوانی کی دہلیز پر قدم رکھ رہا تھا۔ دن محنت مشقت میں گزر جاتا اور شام اپنے ہم عمر دوستوں کے ساتھ خوش گپیوں میں گزرتی۔

رات کو برآمدے میں پڑی اپنی چارپائی پر سونے کے لیے لیٹتا تو وسیع آسمان پر پھیلے ستاروں کے درمیان دو آنکھیں اسے دیکھتی محسوس ہوتیں۔ یہ احساس اسے اداس کر دیتا۔ اس کی آنکھیں بھر آتیں۔ حلق میں کانٹے سے چبنے لگتے اور اٹھ کر مٹکے سے پانی نکال کر حلق خشک کرتا۔ پھر چارپائی پر لیٹتا تو ماں سے سنی کہانیاں ذہن کے نہاں خانوں سے نکل کر یادداشت کے پردے پر رقص کرنے لگتیں۔ مختلف خیالات اس کے ذہن پر جیسے حملہ آور ہو جاتے اور ان ہی خیالات سے نبردآزما ہوتے اور ان کی لہروں میں بہتے ہوئے نہ جانے کب نیند اسے اپنی آغوش میں لے لیتی۔

لڑکپن پر جوانی کا رنگ چڑھنے لگا تو اس کے دل میں بھی محبت کی کونپلیں پھوٹنے لگیں۔ محبت کا ذکر کرتے ہوئے ایک بار اس نے کہا تھا اسے ہلکی نمکین چیزیں پسند ہیں۔ پھر وہ چپ ہو گیا تھا اور میں نے اسے کریدنا مناسب نہیں سمجھا۔

وہ پہلے سموسے پکوڑے اور پھر سبزی بیچنے کے دوران اپنی ہنسی مذاق اور باتونی طبیعت کی وجہ سے گاؤں میں بہت مقبول ہو چکا تھا۔ جیسے گاؤں کے ہر گھر کا فرد بن چکا تھا۔ کھانے کا وقت ہوتا تو گاؤں میں جس گھر کے سامنے ہوتا اس گھر والے اسے زبردستی بلا کر اپنے ساتھ بٹھا کر کھانا کھلاتے۔ وہ اپنی باتوں سے دوسروں کو خوب ہنساتا۔

بڑھتی عمر کے ساتھ جسم میں آتی کیمیائی تبدیلیوں سے جاگنے والے احساس نے اس کے دل میں خواہشات کی ایک نئی لہر پیدا کردی۔ وہ اپنے سے بڑی عمر کی عورتوں میں کشش محسوس کرنے لگا۔ اس کا دل کرتا وہ ان کے جسم کا لمس محسوس کرے۔ ان کی آنکھوں میں دیکھتا رہے۔ ان سے باتیں کرتا رہے۔

شام کو جب وہ دوستوں کے گروپ میں بیٹھتا تو دوست جب بھی اس حوالے سے اپنے احساسات اور تجربات کا ذکر کرتے تو وہ انہیں سنتا رہتا لیکن خود اس موضوع پر بات کرنے سے گریز کرتا۔ وہ اسے کریدتے لیکن کامیاب نہ ہوتے۔

وقت ایسے ہی گزرتا رہتا اگر وہ واقعہ نہ ہوتا جس نے میرے اس دوست اور اس کے خاندان کی زندگی الٹ پلٹ کر رکھ دی۔ ہوا یوں کہ گروپ میں شامل دوستوں میں اس کا سب سے قریبی دوست ایک لڑکی کی محبت میں مبتلا ہو گیا۔ یہ محبت تباہی کا پیش خیمہ تھی۔

وہ لڑکی میرے اس دوست کی پڑوسن اور رشتہ دار تھی۔ بات پورے گاؤں میں پھیلنے سے پہلے تک اسے اور گروپ میں شامل لڑکی کے چچازاد بھائی کو معلوم تھی۔ اس نے بہت کوشش کی کہ اس کا دوست باز آ جائے کیونکہ وہ سمجھتا تھا کہ یہ بات ظاہر ہوئی تو کسی نہ کسی طرح اس کے لیے بہت زیادہ مشکل پیدا کردے گی۔ اور اس کا خدشہ درست ثابت ہوا۔ بات زیادہ عرصے تک چھپی نہ رہی۔ لڑکی کے والد اور بھائیوں کو پتہ چلا تو ہنگامہ کھڑا ہو گیا۔ وہ لڑکی اور لڑکے کو قتل کرنے کے درپے ہو گئے۔ دنوں کو مار مار کر ادھ موا کر دیا گیا۔ لیکن گاؤں کے معززین بیچ میں آنے پر دونوں قتل ہونے سے بچ گئے۔ مسئلے کا فوری حل یہ نکالا گیا کہ لڑکی کو جلد ہی اپنی عمر سے کئی سال بڑے شخص کے نکاح میں دیدیا گیا۔ لڑکے کے والدین پر جرمانہ کیا گیا۔

بات یہاں پر ختم ہو سکتی تھی۔ لیکن ایسا نہ ہوا۔ وہی ہوا جس کا میرے اس دوست کو خدشہ تھا۔ محبت میں گرفتار لڑکے سے دوستی اس کے اور اس کے خاندان کے لیے مصیبت بن گئی۔ لڑکی کے والد اور بھائیوں نے لڑکے سے گہری دوستی کی وجہ سے اس پر سہولت کاری کا الزام لگادیا۔ اسے لڑکی اور لڑکے کے درمیان رابطے کا ذریعہ قرار دیدیا گیا۔ نہ صرف اسے تشدد کا نشانہ بنا گیا بلکہ اس کے سامنے اس کے والد کو دھکے دیے گئے اور گالیاں دی گئیں۔ وہ خود پر تشدد کے زخم تو بھول گیا لیکن اپنے والد کی تذلیل نے اس کے دل کو زخمی کر دیا۔ اس واقعے کے بعد ان کا گاؤں میں رہنا مشکل ہو گیا۔ آخرکار انہیں اپنا یہ دوسرا گاؤں بھی چھوڑنا پڑا۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

اس مرتبہ ان کی یہ ہجرت ہرے بھرے کھیتوں اور باغات سے نکل کر کنکریٹ کے جنگل کی جانب تھی۔ اس مرتبہ انہوں نے جہاں سکونت اختیار کی وہ کہنے کو تو کراچی کا ایک قدیم گوٹھ یا گاؤں ہی تھا لیکن قریب ہی واقع صنعتی علاقے کی وجہ سے اردگرد کی زمینیں قبضہ کر کے قائم کی گئی کچی بستیوں کی وجہ سے یہ بھی ایک کچی بستی بن چکا تھا۔ ان کے سابقہ گاؤں کے برعکس یہاں گلیاں پکی تھیں، بجلی اور گیس کی سہولت بھی موجود تھی۔ یہاں کوئی کھیت مزدور نہیں تھا اکثریت فیکٹری ورکرز کی تھی باقی چھوٹے سرکاری ملازم، دکاندار، ہنرمند اور دوسرے کام کرنے والے تھے۔

میری اسی علاقے میں اس سے پہلی ملاقات ہوئی۔ میں یہاں ایک کارخانے میں کام کرتا ہوں جہاں پلاسٹک کی مختلف اشیاء بنتی ہیں۔ میں اس روز قریبی جامعہ مسجد میں نماز جمعہ کے بعد واپس کارخانے آ رہا تھا کہ یہ مجھے گیٹ پر کھڑا ملا۔ چوکیدار نے بتایا یہ کافی دیر سے کھڑا ہے اور کہتا ہے کہ اسے کام کی ضرورت ہے۔ اس دوران اس نے خود ہی آگے بڑھ کر بتایا کہ وہ قریب ہی بستی میں رہتا ہے اور بے روزگاری سے پریشان ہے، جو بھی کام ملا کر لے گا۔

باتوں باتوں میں مجھے اس کے دیہی پس منظر کے بارے میں پتہ چلا۔ اس کی شخصیت میں جانے کوئی کشش تھی یا پھر شاید میرے اپنے دیہی پس منظر کے باعث مجھے اپنائیت کا احساس ہوا اور میں نے حامی بھر لی اور اپنے مینیجر سے بات کرنے کا یقین دلایا۔ اسے دوسرے دن آنے کے لیے کہا۔ دوسرے روز یہ کارخانہ کھلنے سے پہلے ہی گیٹ پر موجود تھا۔ چونکہ میں مینیجر سے پہلے ہی بات کرچکا تھا اس لیے مینجر سے ملاقات کے بعد اسے کام پر رکھ لیا گیا۔

اپنی معاشی ضروریات پوری کرنے کے لیے اسے روزگار کی ضرورت تو تھی ہی لیکن وہ شاید اپنے ذہن میں اٹھنے والے طوفان کو دبانے کے لیے بھی اپنے آپ کو کام میں مصروف رکھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اسی لیے شاید وہ دوسرے مزدوروں کے مقابلے میں زیادہ محنت سے کام کرتا۔ لیکن وہ اندر سے ٹوٹ چکا تھا، وہ اپنی کرچیاں سمیٹنے کی کوشش کر رہا تھا۔ وہ اپنے سامنے والد کی تذلیل کسی طرح بھول نہیں پا رہا تھا۔ خود کو اس سب کا ذمہ دار سمجھ رہا تھا۔ اس کا دل غصے اور مایوسی سے بھر چکا تھا۔

اس نے ذہنی سکون حاصل کرنے کے لیے کارخانے کے علاوہ خود کو عبادت میں مشغول رکھنے کی کوشش کی۔ نماز کے بعد زیادہ سے زیادہ وقت مسجد میں گزارتا۔ اسی دوران وہ ایک روحانی حلقے کا حصہ بھی بن گیا۔ میں یہ سب دیکھ رہا تھا اور محسوس بھی کر رہا تھا۔ چونکہ کارخانے میں اس کی مجھ سے دوستی ہو گئی تھی۔ میں نے اسے کریدنے کی کوشش بھی کی لیکن وہ ہمیشہ ٹال جاتا۔

آخر ایک دن اس کے دماغ نے مزید دباؤ برداشت کرنے سے انکار کر دیا۔ اندر ہی اندر پکنے والا لاوا پھٹ پڑا۔ یکم محرم الحرام کو مغرب کی نماز کے بعد جب اکثر نمازی روانہ ہو گئے تو یہ تسبیح لے کر مسجد کے ایک کونے میں بیٹھ گیا۔ سر گھٹنوں پر رکھ دیا اور ہاتھ سے تیز تیز تسبیح گھمانے لگا۔ کچھ دیر بعد میرا یہ دوست اٹھ کھڑا ہوا، اور مسجد کی دیواروں کو تکنے لگا۔ دیواریں تکتے تکتے اچانک ایک نعرہ مارا اور گر پڑا۔ مسجد میں جو کچھ لوگ موجود تھے وہ اسے اٹھا کر گھر چھوڑ آئے۔ جہاں بیہوشی ختم ہوئی تو وہ ہوش کھو چکا تھا۔

۔ ۔ ۔

مجھے یہ بات دوسرے روز پتہ چلی جب میں نے اس کے کارخانے نہ آنے پر اس کے موبائل فون پر کال کی۔ دوسری طرف سے اس کی طبیعت کی خرابی کی اطلاع ملی۔ میں جب اس کے گھر پہنچا تو وہ ایک کمرے کے درمیان بیٹھا تھا۔ اطراف رشتہ دار اور محلے کے کچھ لوگ بیٹھے تھے وہ انہیں مختلف ہدایات دے رہا تھا، جیسے کوئی معتبر شخصیت اپنے پیروکاروں سے مخاطب ہو۔

مجھ پر نظر پڑی تو اٹھ کھڑا ہوا اور میرے ہاتھ چومے۔ سب سے کہا کھڑے ہو جاؤ، سائیں آئے ہیں۔ پھر اپنے ہاتھوں سے فرش صاف کرنے لگا اور مجھے وہاں بٹھا دیا۔ میرا یہ دوست اپنے ہوش و حواس کھو چکا تھا۔ وہ خود کو کوئی اور شخصیت سمجھ رہا تھا، جس کے ہاتھ میں بہت ساری طاقتیں ہیں۔ کبھی مضحکہ خیز حرکتیں کرتا تو کبھی غصے سے لال پیلا ہوجاتا۔ کبھی عورتوں کی طرح باریک آواز میں بولنے لگتا اور کبھی آواز کو بھاری اور رعب دار بنانے کی کوشش کرتا۔

وہاں بیٹھے لوگوں میں اس کے قریبی رشتہ دار بہت غمزہ اور پریشان لگ رہے تھے۔ دیگر لوگوں کی مختلف باتیں تھیں کوئی رہا تھا کہ سایہ ہو گیا ہے۔ جبکہ کسی کا خیال تھا کہ کچھ بھی نہیں سب ڈرامہ ہے۔

اس دوران میں نے اس سے بات کرنے کی کوشش کی تو کہنے لگا، دلدار یہاں نہیں ہے، میدان جنگ میں ہے کفار کے خلاف جنگ میں شامل ہے۔ پھر کہنے لگا، دلدار اس وقت کربلا کے میدان میں ہے۔

میں نے آپ کو ابھی تک نہیں بتایا میرے اس دوست کا نام دلدار ہے۔

کربلا کا ذکر آتے ہی اچانک اس نے اپنے دونوں بازو پھیلا کر میرے سامنے کر دئے۔ بائیں ہاتھ کی جانب اشارہ کر کے کہا یہ دلدار ہے۔ اور ساتھ ہی بایاں ہاتھ لٹکا دیا جیسے اس میں جان ہی نہ ہو۔ پھر دائیں ہاتھ کی جانب اشارہ کیا۔ ساتھ ہی اسے اوپر اٹھا کر مکا بنایا اور اپنے دانت بینچ کر پورا زور لگایا۔ مجھے کہنے لگا دیکھا اس میں کتنی طاقت ہے۔ یہ چار یار ہیں۔ پھر اپنے بوسیدہ مکان کے ساتھ حال ہی میں بنے مقامی سیاسی رہنما اور زکوۃ کمیٹی کے چیئرمین کے عالیشان دو منزلہ مکان کی طرف اشارہ کر کے بولا، اسے اپنے دائیں ہاتھ اسے اٹھا کر الٹ دوں۔

پھر پرجوش انداز میں بولا الٹ دوں۔ اس کے ساتھ ہی کھڑا ہو گیا جیسے ابھی کے ابھی پڑوسی کا گھر گرا دے گا۔ میں نے، اس کے والد اور بھائی نے اسے سمجھا بجھا کر بٹھایا۔ بیٹھتے ہی جیسے اسے کچھ یاد آ گیا ہو۔ میری طرف اشارہ کر کے اپنے بھائی کو کہا، دیکھو سائیں آج ہمارے گھر آئے ہیں۔ ان کے لیے ٹھنڈا شربت لے آؤ۔ وہ مجھے نہ جانے کیا سمجھ کر سائیں کہہ رہا تھا کیونکہ جہاں سے اس کا تعلق تھا وہاں سائیں زیادہ تر سید کو کہتے تھے یا پھر اسکول ٹیچر کو ۔

اور میں نہ سید ہوں، نہ ہی اسکول ٹیچر۔ خیر بیٹھنے کے بعد جیسے دورے کی کیفیت کچھ کم ہوئی۔ سب کو مخاطب کر کے کہنے لگا، پریشان نہ ہو۔ دلدار بالکل ٹھیک ہے۔ دلدار اس وقت مدینے میں ہے۔ آپ سب کے لیے دعا کر رہا ہے۔ آپ سب کی ساری مشکلات دور ہوجائیں گی۔ یہ الفاظ اس نے کچھ اس انداز سے کہے جیسے تمام مشکلات سمیٹ کر وہ ایک طرف پھینک رہا ہو۔ ساتھ ہی مدینے کے ذکر پر عقیدت سے اس کی آنکھیں جھک گئیں۔

اس دوران کسی بہانے سے میں کمرے سے باہر نکل آیا ساتھ ہی اپنے اس دوست کے بھائی کو باہر آنے کا اشارہ کیا۔ اس کے بھائی سے معلوم ہوا۔ وہ کل رات سے نہیں سویا۔ بالکل آپے سے باہر تھا۔ سب کچھ الٹ پلٹ کے رکھ دیا۔ کھڑی کے شیشے توڑ دئے۔ دروازے کو لاتیں مارتا رہا۔ جو چیز ہاتھ لگی اٹھا کر پھینکتا رہا۔ بڑی مشکل سے رات گزاری ہے۔

میرے دوست کے بھائی سے معلوم ہوا ہے اس دوران کسی تعویز دھاگے والے بابا کی خدمات بھی لی جا چکی ہیں۔ وہ آئے اس کی انگلی پکڑ کر بیٹھ گئے۔ بابا دم وغیرہ کرنے کے بعد واپس روانہ ہوئے تو بولا، آئندہ اسے بلایا تو اچھا نہیں ہو گا۔

ہم باتیں کر رہے تھے کہ میرے دوست نے پیغام بھیجا کہ سائیں، یعنی مجھے، کہو کہ آ کر شربت پی لے۔ میں اندر گیا تو ایک گلاس میرے سامنے رکھا۔ میں جب تک اپنا شربت پی کر ختم کرتا اس نے اپنا شربت سے بھرا گلاس زمین پر گول گول گھمانا شروع کر دیا۔

میں نے اسے ایسا نہ کرنے کے لیے کہا تو آنکھیں نکال کر میری طرف غصے سے دیکھا۔ پھر میری انگلی پکڑ کر مسکرانے لگا۔ میری آنکھوں میں دیکھ کر کہا، دیکھا میں نے ایسے ہی صرف اپنی انگلیوں سے اس تعویذ والے بابا کی انگلی پکڑی تو وہ گھبرا کر بھاگ گیا۔ لیکن آپ کو ہمارے سائیں ہو۔ بس مجھے روکو مت۔

اس دوران گلاس گھمانے کی مشق جاری رہی آخر گلاس الٹ گیا اور رش پر بکھرے شربت نے ایک لکیر بنالی۔ میرا یہ دوست جلدی سے اٹھا اور دروازے پر پڑے چپل ایک طرف کرنے لگا۔ ساتھ ہی غصے میں کہا، ساری چپلیں ایک طرف رکھا کریں۔ یہ راستہ ہے۔ سوہنے آرہے ہیں۔ ان کے ساتھ ایک سانپ بھی ہے۔ خبردار اسے سانپ نہ کہنا، وہ بھی ایک ہستی ہے۔

یہاں اس کی سوہنے سے مراد شاید اس کی کچھ تصوراتی ہستیوں کی تھی۔

اس وقت چونکہ اس کی حالت کی وجہ سے اسے کسی ماہر نفسیات کے پاس لے جانا ممکن نہیں لگ رہا تھا اور اس کے اہلخانہ بھی تذبذب کا شکار تھے اس لیے میں نے اپنے ایک جاننے والے ڈاکٹر سے مشورہ کر کے اس کے لیے ذہنی سکون کی گولیاں لے کر اسے باتوں باتوں میں کھلائیں، جس سے کچھ دیر بعد اسے نیند آ گئی۔ چونکہ رات زیادہ ہو گئی تھی۔ میں اپنے گھر چلا آیا۔

میں رات بھر یہ سوچتا رہا کہ اس عمر میں اس پر ایسی کیا بیتی ہے کہ اس حال پر پہنچ گیا ہے۔ چونکہ میں اس وقت تک اس پر بیتے حالات سے ناواقف تھا اس لیے مختلف خیالات میں الجھا رہا۔

اس کے بعد ایک ہفتہ یوں ہی گزر گیا۔ سکون آور گولیاں کچھ کچھ اثر تو کر رہی تھیں۔ ان سے میرا دوست کچھ دیر نیند کر لیتا اور اس کے اہلخانہ کو بھی کچھ سکون مل جاتا تھا، کیونکہ پورا گھر اذیت ناک صورتحال سے دوچار تھا۔ اس دوران ایک اور عامل سے رابطہ کیا گیا جن کے بارے میں مشہور تھا کہ بہت پہنچے ہوئے بابا ہیں۔ انہوں نے اپنے علم کے ذریعے یہ انکشاف کیا کہ میرے اس دوست نے اپنے گھر کا وہ تیسرا کمرہ کھول دیا تھا جو استعمال نہ ہونے کی وجہ سے مستقل بند رہتا تھا۔ کمرے کا دروازہ کھولتے ہی میرا دوست گھبرا گیا کیونکہ کمرے میں چار بزرگ روزہ کھول رہے تھے، ان کے ساتھ ایک سانپ بھی بیٹھا تھا۔

خیر بالآخر میں نے اپنے اس دوست، یعنی دلدار، اور اس کے گھر والوں کو منا لیا۔ اور اسے ماہر نفسیات کے پاس لے گیا۔ یہاں پر ہی مجھے یہ معلوم ہوا کہ میرا یہ دوست کن حالات سے گزر کر اس حالت تک پہنچا ہے۔ ماہر نفسیات نے، جو ہمارے اس شہر کے معروف ماہر نفسیات ہیں، میرے دوست کی موجودہ حالت کے علاوہ اس کے ماضی کے حوالے سے بھی تفصیلی معلومات لیں، جو اس کے بھائی نے میری موجودگی میں بتائیں۔ جس کے بعد میرے دوست کا علاج شروع ہوا۔

آہستہ آہستہ اس کی حالت بہتر ہوتی گئی۔ ایک سال کے بعد مکمل صحت یاب ہو گیا۔ وہ پھر سے کام بھی کرنے لگا۔ ایک صحت مند شخص کی طرح زندگی گزارنے لگا۔ اب اس کی شادی ہو چکی ہے اور تین بچوں کا باپ ہے۔ لیکن اب بھی وہ وقفے وقفے سے ماہر نفسیات سے اپنا معائنہ کراتا رہتا ہے۔ اس نے مجھے بتایا کہ اب بھی جب وہ اپنے گھر کی چھت پر رات کو لیٹتا ہے تو اسے آسمان پر ستاروں کے درمیان دو آنکھیں اپنی طرف شفقت سے دیکھتی نظر آجاتی ہیں۔ اور وہ انہیں دیکھ کر مسکرا دیتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments