اے حبیب خدا ﷺ ! ہم شرمندہ ہیں


ستائیس رمضان المبارک کو میرے بنی ﷺ کی مسجد میں بد بختوں کے ایک گروہ (بلکہ ریوڑ ) نے جس طرح سیاسی نعرے بازی کی، غلیظ گالیاں بکیں اور چور چور کے آوازے کسے، یہ سب انتہائی قابل مذمت ہے۔ کئی برس سے مسلسل یہ محسوس کیا جا رہا ہے کہ پاکستانی معاشرے سے تحمل و برداشت رفتہ رفتہ رخصت ہو رہا ہے۔ میں بھی انہی کالموں میں لکھتی رہی ہوں کہ سماج میں سیاسی عدم برداشت بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ اگرچہ ہمارے ہاں رائج سیاست کبھی اخلاقیات اور صبر و برداشت کا مرقع نہیں رہی، مگر چند برس سے محض ذاتی مفاد سمیٹنے کے لئے کچھ سیاست دانوں نے سیاست کو کفر اور ایمان کی جنگ بنا دیا گیا ہے۔

انہی مفاد پرست سیاست دانوں کی بدولت بدزبانی، بد کلامی، بہتان تراشی کی انتہا ہو چلی ہے۔ نئی نسل کا ایک حلقہ خصوصی طور پر اس سے متاثر ہوا ہے۔ تاہم میرے نبی ﷺ کی مسجد میں جو کچھ ہوا اسے سیاست نہیں کہا جا سکتا۔ یہ بے ادبی اور گستاخی ہے۔ بے شرمی، بے حیائی اور ڈھٹائی کی انتہا ہے۔ مجھے اس سے کوئی سروکار نہیں کہ یہ سب مریم اورنگ زیب اور شاہ زین بگٹی کے ساتھ ہوا ہے یا کسی اور سیاسی جماعت سے تعلق رکھنے والوں کے ساتھ۔ یہ سلوک پیپلز پارٹی کے اراکین کے ساتھ کیا جاتا، جماعت اسلامی کے، تحریک انصاف کے یا کسی اور طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والوں کے ساتھ۔ یہ عمل اسی قدر قابل مذمت تھا۔ یہ قبیح فعل تب بھی گستاخی اور بے ادبی کہلاتا۔

ہمارے مذہب میں مساجد کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ دیگر مسلم معاشروں کی طرح پاکستان میں بھی مساجد کا بہت احترام کیا جاتا ہے۔ کوئی گناہگار، بدکار بھی مسجد میں جائے تو اس کا احترام ملحوظ رکھتا ہے۔ جس مسجد میں اس سیاسی ریوڑ نے گالی گلوچ کی وہ کوئی عام مسجد نہیں ہے۔ یہ میرے نبی ﷺ کی مسجد ہے۔ اسے میرے نبی ﷺ نے اپنے مبارک ہاتھوں سے تعمیر فرمایا تھا۔ بڑے بڑے صحابہ کرام نے اس کی تعمیر میں حضور اقدس ﷺ کی معاونت کی تھی۔

میری خوش بختی کہ مجھے دو مرتبہ اپنی ماں کے ہمراہ عمرہ کی سعادت نصیب ہوئی۔ بیسیوں مرتبہ مسجد نبوی ﷺ میں جانے اور نماز کی ادائیگی کا شرف حاصل ہوا۔ اللہ جانتا ہے کہ وہاں داخل ہوتے ہی مجھ جیسی گناہ گار کا دل بھی نرم ہو جاتا۔ ہر دم اپنے گناہوں کا احساس غالب رہتا۔ ساتھ ہی ساتھ اپنی خوش قسمتی پر رشک بھی آتا۔ بارہا دل سے دعا نکلتی کہ اللہ پاک اس مقدس سر زمین پر با ر بار آنا نصیب فرمائے۔ اس پاک سر زمین پر چلتے پھرتے یہ خیال آتا کہ یہیں کہیں میرے نبی ﷺ کے مبارک قدم بھی پڑتے ہوں گے ۔

یہیں صحابہ کرام ؓ بھی چلتے پھرتے ہوں گے ۔ روضہ رسول ﷺ پر حاضری نصیب ہوتی تو آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے۔ دل اپنے گناہوں کے احساس سے بوجھل رہتا۔ خیال آتا کہ یہ حضرت عائشہ ؓ کا حجرہ مبارک ہے۔ حضور ﷺ یہاں قیام فرمایا کرتے تھے۔ یہیں حضرت جبرائیل اللہ پاک کا پیغام لے کر حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا کرتے تھے۔ اللہ جانتا ہے کہ مجھے مسجد نبوی ﷺ میں صفائی ستھرائی کرنے والے خدام کی قسمت پر رشک آتا۔ خیال آتا کہ کس قدر خوش بخت ہیں جو دن رات یہیں رہتے اور مسجد نبوی ﷺ کی دیکھ بھال کا شرف سمیٹتے ہیں۔

اس مبارک جگہ پر جا کر آدمی دنیا جہاں سے بے نیاز ہو جاتا ہے۔ دنیاوی معاملات کا خیال کم ہی آتا ہے۔ گرد و پیش کی کوئی خبر نہیں ہوتی۔ مصلیٰ نہ ہو تو آدمی وہیں ننگے فرش پر سجدہ ریز ہو جاتا ہے۔ کبھی دن میں اونگھ آئے تو وہیں کہیں کسی قالین یا چٹائی پر پڑ کر سو رہتا ہے۔ مسجد نبوی ﷺ کے سامنے زیورات کی دکانیں ہیں اور شاپنگ مال بھی۔ وہاں شاپنگ کرتے وقت احساس رہتا ہے کہ نبی ﷺ کے محلے کی کسی دکان سے یہ سب خرید رہے ہیں۔

اس مقام مقدس کے سفر کے لئے دنیا بھر کے لاکھوں کروڑوں مسلمان برسوں منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ غریب لوگ برسوں پائی پائی جوڑ کر سفر حجاز کا انتظام کرتے ہیں۔ نجانے کون بد بخت تھے۔ کیسا پتھر کا کلیجہ رکھتے تھے جنہوں نے گالی گلوچ کے ارادے سے اس مبارک زمین کے لئے رخت سفر باندھا۔ کیسے سیاہ نصیب تھے جنہیں اس پاک مقام پر بھی سیاست یاد رہی۔ ادب اور احترام کے تمام تقاضے بالائے طاق رکھ کر ان کے منہ سے چور چور کی آوازیں نکلیں۔

پیارے نبی ﷺ کی مسجد کے صحن میں کھڑے ہو کر انہوں نے ایک خاتون کو بازاری گالیاں بکیں۔ اپنی پارٹی قیادت سے شاباشی اور تھپکی لینے کے لئے انہوں نے باقاعدہ ویڈیوز بنائیں۔ اخبارات، ٹیلی ویژن چینلوں اور سوشل میڈیا پر اب تفصیلی خبریں آ چکی ہیں کہ کس طرح لندن سے عمران خان کے انتہائی قریبی دوستوں اور تحریک انصاف لندن کے پارٹی عہدے داروں نے منصوبہ بندی کے تحت مدینہ شریف کا رخ کیا۔ کس طرح تحریک انصاف کے شر پسند کارکنوں کے ایک گروہ کو پاکستان سے سعودی عرب بھیجا گیا۔ مسجد نبوی ﷺ میں ہونے والی گستاخانہ حرکت کی ویڈیو سامنے آئی تو فواد چوہدری نے نہایت فخریہ انداز میں اسے ٹویٹر پر شیئر کیا۔ میڈیا پر شیخ رشید کی ویڈیو بھی گردش کر رہی ہے جس میں وہ پیشگی اطلاع دے رہے ہیں کہ کل مدینہ میں مسلم لیگی وزراء کے ساتھ کیا ہونے جا رہا ہے۔

سچی بات یہ ہے کہ گالی گلوچ اور انتشار پسندی تحریک انصاف کا مزاج بن چکی ہے۔ اس کے کارکنان اور عہدے دار پہلے بھی انتشار پسندانہ حرکات کرتے رہے ہیں۔ نہ صرف ملک کے اندر بلکہ باہر بھی۔ مٹھی بھر شر پسند اکٹھے ہو کر کسی نہ کسی غلیظ کھیل تماشے میں مصروف رہتے ہیں۔ کس کو یاد نہیں کہ بیگم کلثوم نواز شریف جب لندن کے ایک ہسپتال میں کینسر کے خلاف زندگی موت کی جنگ لڑ رہی تھیں تو تحریک انصاف کے کارکنان ہسپتال کے باہر غنڈہ گردی کیا کرتے تھے۔

کہا کرتے تھے کہ یہ سب مقدمات سے بچنے کا ڈرامہ ہے۔ لندن میں نواز شریف کے بیٹوں کے گھر کے باہر مٹھی بھر کارکن اکٹھے ہو کر گالیاں بکتے، آوازے کستے، دروازوں پر ٹھڈے مارتے، شریف خاندان کے لوگوں کو اشتعال دلاتے اور اپنی قیادت سے شاباشی وصول کیا کرتے۔ جب سے عمران خان وزارت عظمیٰ سے فارغ ہوئے ہیں، لندن میں یہ سرکس ایک مرتبہ پھر شروع ہو گیا ہے۔ جو جتنی گھٹیا حرکت کرتا ہے، جتنی غلیظ گالیاں بکتا ہے، اعلیٰ قیادت سے اسی قدر شاباش پاتا ہے۔

مثبت بات یہ ہے کہ اللہ کے فضل سے عوام الناس کے ایک بڑے حلقے نے مسجد نبوی ﷺ میں ہونے والی اس قبیح حرکت کی مذمت کی ہے۔ تحریک انصاف کے حامیوں کی اکثریت بھی مذمت کرنے والوں میں شامل ہے۔ البتہ شرم و حیا سے عاری کچھ لوگ ابھی تک مذمت کرتے لیت و لعل سے کام لے رہے ہیں۔ یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ اقتدار سے فراغت کے بعد تحریک انصاف دوبارہ کرسی حاصل کرنے کے لئے ہر حربہ استعمال کرنے پر تلی بیٹھی ہے۔ سیاسی مخالفین کو گالیاں دینا، قومی اداروں کو برا بھلا کہنا، تنقید کرنے والے صحافیوں پر پیسے لینے کا الزام لگانا، اس کے لئے عام سی بات ہے۔

خیال آتا ہے کہ کیا آدمی ہوس اقتدار میں کچھ بھی کرنے کو تیار ہو سکتا ہے؟ ملک کے اندر اور باہر گالی گلوچ اور دنگا فساد کرنے کو نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔ لیکن مسجد نبوی ﷺ کے احترام کو پس پشت ڈال کر تحریک انصاف کے کارکنان نے ہر حد پھلانگ ڈالی ہے۔ اس گستاخی کے لئے ساری قوم کی نظریں ندامت سے جھکی ہوئی ہیں۔ بس یہی خیال آتا ہے کہ اے اللہ کے پیارے حبیب ﷺ ! ہم آپ سے شرمندہ ہیں۔

۔ ۔
بشکریہ روزنامہ نئی بات


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments