مٹھی بھر کہانیاں از جاوید صدیقی


آج کل کے بچے ناس پیٹے تو جانتے ہی نہیں کہ زندگی کا سکھ جہاں ڈھونڈ رہے ہیں وہاں نہیں ملتا، وہ تو دلوں میں ملتا ہے۔
سوال یہ تھا کہ کون سی دیوار توڑوں، دھرم کی، مریادا کی، اپنے اندر چلتے یدھ کی، یا اس آشا کی دیوار جس کے پار ایک نئی دنیا ہے۔
میں نے اپنا ٹرانسفر یہاں سے بہت دور ایک ایسے گاؤں کے اسکول میں کرایا ہے جہاں ایک بھی آدمی پڑھا لکھا نہیں ہے، میں ان لوگوں کو اکشر پہچاننا سکھاؤں گی کیونکہ وہ جو اکشر نہیں پہچانتے، نا خود کو پہچانتے ہیں اور نا اپنے ادھیکار کو۔

یہ اقتباسات ”مٹھی بھر کہانیاں“ کی مختلف کہانیوں سے لئے گئے ہیں۔

ان کہانیوں کے مصنف ”جاوید صدیقی“ ہیں جن کا تعلق انڈیا سے ہے جاوید صاحب افسانہ نگار، ڈرامہ نگار اور خاکہ نگار ہیں۔ یہ کتاب مجھے تحفتا ملی ہے مترجم اور افسانہ نگار محترم سلیم صدیقی صاحب کی طرف سے جس کے لئے میں بہت ممنون ہوں۔

عرصے کے بعد بہترین کہانیاں و افسانے پڑھنے کو ملے ہیں۔ ایک اچھے افسانے کی خوبی یہ ہے کہ وہ حقیقت معلوم ہوتا ہے، اور سچی کہانی کا کمال یہ ہے کہ وہ افسانے جیسے لگتی ہے۔

مٹھی بھر کہانیاں بھی حقیقی سچی اور گہری کہانیاں ہیں، گہری کا لفظ اس لیے استعمال کیا ہے کہ ہر کہانی اور اس کے تانے بانے اس کے واقعاتی تسلسل اور کرداروں سے اتنے مربوط انداز سے جڑے ہوئے ہیں کہ قاری کہانی میں داخل ہو جاتا ہے اور تصور کے پردے پر تخیل کے بجائے حقیقت کے چبھتے ہوئے رنگ بکھر جاتے ہیں۔

ماٹی کہے کمہار سے، شب، حلو دیوانی، مہرو،

خطے کی عورت کے احساسات و جذبات اور محبت کی کہانیاں ہیں، ان روایتوں کی کہانیاں ہیں جن میں خطے کی عورت بندھی ہوئی ہے لیکن اب نئے اکشر سیکھ رہی ہے، کہیں یہ اکشر سبھاؤ کے ساتھ سیکھے اور سکھائے جا رہے ہیں اور کہیں مزاحمتی انداز سے، اکشروں کے اسی ملاپ سے نئے اکشر جنم لے رہے ہیں۔

” کیسریا بالم“ کا کردار ”راجا ہرش وردھن سنگھ“

بہت پسند آیا۔ بے غرض محبت و عشق کے جذبوں سے گندھا یہ کردار ہماری زمین سے جڑا ہوا ہے اور خلوص کے رشتے سے بندھا ہے۔

” پیوند“ خطے کی تقسیم کے بعد جیسے زمین و جائیداد تقسیم ہوئی، ایسے ہی خاندانوں کی آپس کی محبت بھی تقسیم ہو گئی، احساسات کو چھوتی ہوئی یہ دلگداز کہانی فکشن و حقیقت کے سنگم پر ایک خوشگوار وقوعے پر اختتام پذیر ہوئی۔

” گڑمبا“ عصر حاضر میں ساس بہو کے رشتے کی دلچسپ کہانی۔

” یہ انتظار جو ہے ناں ایک آرٹ ہے ہر ایک کو نہیں آتا، لوگ دس منٹ میں بور ہو جاتے ہیں، غصہ آنے لگتا ہے، جھگڑا کرنے کو دل چاہتا ہے بہت سے تو رونے لگتے ہیں، چیزیں توڑنے لگتے ہیں، انتظار کرنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہے، سیکھنا پڑتا ہے، جو لوگ ستار بجاتے ہیں انہیں معلوم ہے انتظار کیسے سیکھا جاتا ہے۔ “

یہ اقتباس ”موگرا“ سے چنا گیا ہے۔

” موگرا“

موسیقیت، حقیقی منظر کشی، تخیل، فکشن کے گہرے ملاپ سے جنم لینے والی کہانی ہے، جہاں قاری جنگل میں رم جھم برسنے والی برسات میں اپنے آپ کو پاتا ہے لیکن جنگل کی آندھی میں زندگی کی حقیقت کا وہ رنگ نمایاں ہوتا ہے جو اپنی دلگیری کے ساتھ ذہن پر نقش ہو جاتا ہے۔

کرہ زمین پر بکھری ہوئی انسانوں کی کہانیاں۔ بھوک۔ مامتا، محبت، جدائی، ملن، باپ کی شب و روز کی محنت سے لبریز ہیں، انہی کہانیوں کو اپنے اپنے انداز سے دنیا بھر میں لکھا گیا، لکھا جا رہا ہے، لکھا جاتا رہے گا۔

ہر ادیب اپنے منفرد انداز سے پہچانا جاتا ہے۔
جاوید صدیقی کا اسلوب منفرد، جداگانہ و دل پذیر ہے اور ذہن پر نرمی سے اثر کرتا ہے۔
انڈیا میں اس کتاب کو ”کتاب دار“ ممبئی نے شائع کیا اور اب پاکستان میں
” آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی“ نے اس کی اشاعت کی ہے اور کتاب آرٹس کونسل کے
” مشتاق احمد یوسفی بک کارنر“ پر دستیاب ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments