آسٹریا کے وہ یہودی جو نہ صرف مسلمان ہوئے بلکہ پہلا پاکستانی پاسپورٹ بھی حاصل کیا

وقار مصطفیٰ - صحافی و محقق، لاہور


’وزیرِ اعظم لیاقت علی خان نے تجویز کیا کہ میں مشرق وسطیٰ کا سرکاری دورہ کروں اور مسلمان ممالک کی مشترکہ تنظیم کے بارے میں ہر ملک کا ردعمل جانوں۔ میں نے پاسپورٹ افسر کو پاسپورٹ تیار کرنے کی ہدایت دی۔ اس نے پوچھا ’یہ وضاحت فرمایے کہ اس میں آپ کی کون سی قومیت درج ہو گی۔‘

میں نے حیرت سے اسے دیکھتے ہوئے جواب دیا ’پاکستانی اور کون سی؟‘

’لیکن سر، ابھی تک پاکستانی قومیت نام کی کوئی چیز معرض وجود میں نہیں آئی۔ شہریت کا ایک بل قومی اسمبلی میں زیرِ بحث ہے اور اس کے منظور ہونے میں مہینوں لگ جائیں گے۔ اس اثنا میں برطانیہ سے ایک غیر رسمی معاہدے کے تحت ہمیں ہر نئے پاسپورٹ پر ’برطانوی شہری‘ لکھنے کا اختیار دیا گیا ہے۔‘

میں نے کہا ’یہ کیا حماقت ہے۔ میں کبھی برطانوی شہری نہیں رہا اور اب بھی مجھے اس شہریت کی کوئی ضرورت نہیں۔ میرے پاسپورٹ پر لکھیے، پاکستانی شہری۔‘

’میں یہ نہیں کر سکتا، یہ غیر قانونی ہے۔ کیا میں آپ کے پاسپورٹ پر ’آسٹرین شہریت‘ لکھ سکتا ہوں۔‘

میں نے وزیرِ اعظم لیاقت علی خان کو اپنی مشکل بتائی۔ انھوں نے پاسپورٹ افسر سے جلد پاسپورٹ بنانے اور اس پر ’پاکستانی شہری‘ کی مہر لگانے کا حکم دیا۔ اس طرح مجھے پہلا پاسپورٹ حاصل کرنے کا اعزاز حاصل ہوا جس پر ’پاکستانی شہری‘ لکھا گیا تھا۔‘

یہ واقعہ محمد اسد نے اپنی آپ بیتی ’دی روڈ ٹو مکہ‘ میں لکھا۔

تو کیا بات اسی واقعے پر ختم ہوتی ہے؟ ارے نہیں، یہ جاننا تو آپ کا حق ہے نہ کہ محمد اسد تھے کون!

وہ سنہ 1900 موجودہ یوکرین کے شہر لیویو میں پیدا ہوئے جو تب آسٹرو ہنگرین سلطنت کا حصہ تھا۔

ان کا نام تھا لیو پولڈویز تھا اور ان کا خاندان کئی نسلوں سے یہودی ربی تھا لیکن والد وکیل تھے۔ ابتدائی عمر ہی میں عبرانی زبان سیکھ لی تھی۔ ان کا بچپن تورات، تفسیرِ تورات، عہد نامہ عتیق اور تلمود سمیت یہودیت کی دیگر کتابیں پڑھتے گزرا۔

بعد میں ان کے اہلخانہ ویانا منتقل ہو گئے جہاں 14 سال کی عمر میں انھوں نے سکول سے بھاگ کر آسٹرین فوج میں شامل ہونے کی کوشش کی تاکہ پہلی عالمی جنگ میں شریک ہوسکیں مگر آسٹرین سلطنت ٹوٹ گئی اور ساتھ ہی ان کا یہ خواب بھی۔ جنگ کے بعد انھوں نے ویانا سے تعلیم حاصل کی۔

سنہ 1920 میں وسطی یورپ میں کئی چھوٹی بڑی نوکریاں کرنے کے بعد برلن میں جرمنی کے روزنامے ’فرینکفرٹرزائیٹنگ‘ میں صحافی بن گئے۔ سنہ 1922 میں وہ بیت المقدس میں اپنے ماموں سے ملاقات کے لیے مشرق وسطیٰ گئے اور مصر سے ہوتے ہوئے فلسطین پہنچے۔

ان کے ماموں ڈوریان نفسیات دان سگمنڈ فرائیڈ کے شاگرد تھے۔ ڈوریان کا گھر ’بابِ جحفہ‘ سے چند قدم کے فاصلے پر واقع ایک قدیم شہر میں تھا، جہاں انھیں پہلی مرتبہ اسلامی طرزِ زندگی کا مشاہدہ کرنے کا موقع ملا۔ اخبار کے مشرق وسطیٰ کے نمائندے کے طور پر صیہونیت، برطانوی حکمرانی اور مسلم اور عرب قوم پرستی کے بارے میں لکھا۔

روڈ ٹو مکہ

یہاں سے واپسی کے بعد جرمنی میں قیام کے دوران ایک واقعے کے نتیجے میں انھوں نے قرآن مجید کا مطالعہ کیا اور سورۂ التکاثر ان کے قبول اسلام کا باعث بنی۔ انھوں نے برلن کی سب سے بڑی مسجد میں ڈاکٹر عبدالجبار خیری کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا ۔انھی نے لیوپولڈ کا نام تبدیل کر کے محمد اسد رکھا۔ اسد کے ساتھ ان کی اہلیہ ایلسا نے بھی اسلام قبول کر لیا۔

محمد اسد اخبار کی نوکری چھوڑ کر سعودی عرب حج کے لیے گئے۔ وہیں ایلسا نے وفات پائی۔ اسد نے مکہ میں قیام کے دوران شہزادہ فیصل سے ملاقات کی جو اس وقت ولی عہد تھے اور بعد ازاں سعودی مملکت کے بانی شاہ عبدالعزیز السعود سے ملاقات کی۔ انھوں نے وہاں چھ سال عربی، قرآن، حدیث اور اسلامی تاریخ کی تعلیم حاصل کی۔

اسد کے مطابق وہ آخر کار ایک قسم کے خفیہ ایجنٹ بن گئے۔ مارٹن کریمرکی تحقیق ہے کہ ابن سعود نے انھیں سنہ 1929 میں ایک خفیہ مشن پر کویت بھیجا تاکہ ابن سعود کی حکومت کے خلاف اخوان رہنما سے باغی بنے فیصل الداوش کو فراہم کی جانے والی مالی اور فوجی امداد کے ذرائع کا پتہ لگایا جا سکے۔

اسد بغیر روشنی کے صحرا میں دن رات کا سفر کرنے کے بعد ثبوت جمع کرنے کے لیے کویت پہنچے۔ انھوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ انگریز ابن سعود کو کمزور کرنے کے لیے الداوش کو اسلحہ اور پیسہ فراہم کر رہے تھے تاکہ حیفہ سے بصرہ تک ایک ریل کی پٹڑی کے ذریعے، جو بالآخر بحیرہ روم کو برصغیر پاک و ہند سے ملاتی ہو، ’ہندوستان کے لیے زمینی راستے‘ کو محفوظ بنایا جا سکے۔

اسد سنہ 1932 میں برطانوی ہندوستان آ گئے۔ یہاں لاہور میں ان کی ملاقات شاعر مشرق علامہ محمد اقبال سے ہوئی۔

محمد اسد اپنی کتاب میں اقبال سے اپنی پہلی ملاقات کا حال یوں بیان کرتے ہیں: ’لاہور میں اپنے ایک دوست چودھری الٰہی بخش (جو ریٹائرڈ سیشن جج تھے) کے گھر میں اکثر جایا کرتا تھا۔ وہ اپنے کشادہ بنگلے میں اکیلے رہتے تھے۔ ایک روز انھوں نے خاص طور پر مجھے شام کو اپنے گھر آنے کی دعوت دیتے ہوئے کہا کہ آج ڈاکٹر محمد اقبال بھی تشریف لا رہے ہیں اور میں آپ کو اُن سے ملوانا چاہتا ہوں۔‘

’مسلمانوں کے نزدیک وہ ایک ایسی شخصیت تھے جنھیں خدا نے بے پناہ دانش اور بصیرت عطا کی تھی اور جو مسلمانوں کی خامیوں کے ساتھ ان کی توانائیوں اور صلاحیتوں کا بھی پورا ادراک رکھتے ہیں، مجھے خود ایسی شخصیت سے ملنے کا اشتیاق تھا۔‘

محمد اسد

’جب میں چودھری الٰہی بخش کے گھر کے بڑے کمرے میں داخل ہوا تو محمد اقبال قالین پر بیٹھے تھے اور کوئی درجن بھر لوگ ان کے گرد حلقہ بنا کر خاموشی اور گہری توجہ سے ان کی باتیں سن رہے تھے۔ وہ مسلم تاریخ کے کسی درخشاں دور کا ذکر کر رہے تھے اور موجودہ دورِ زوال سے اس کا موازنہ کر رہے تھے۔ وہ ایک استاد کی طرح بول رہے تھے اور سامعین شاگردوں کی طرح ہمہ تن گوش تھے۔ وہ اونچی نہیں بلکہ دھیمی آواز میں بول رہے تھے اور مختلف عمروں کے سامعین ان کی باتوں سے فیض یاب ہو رہے تھے۔‘

’(اجتہاد کے موضوع پر گفتگو سے) میرا اُس غیر معمولی شخصیت کے ساتھ تعلق اور دوستی کا آغاز ہوا جو اگلے چار سال یعنی ان کی وفات تک قائم رہا۔ اس عظیم ہستی کا جنازہ اٹھا تو لگتا تھا لاہور کا ہر مرد جنازے میں شامل ہے۔ جنازے کے جلوس کو بادشاہی مسجد پہنچنے میں کئی گھنٹے لگ گئے۔‘

محمد اسد کی کتاب ’دی روڈ ٹو مکہ‘ نے لاتعداد لوگوں کو اسلام سے متعارف کرانے میں مدد کی ہے، ایسا کہنا ہے ایک جرمن سفارتکار مراد ہوفمین جو خود بھی مسلمان ہوئے۔

ہوفمین ہی نے کہا کہ محمد اسد اسلام کے لیے یورپ کا تحفہ ہیں۔ جماعت اسلامی کے بانی سید ابو الاعلی مودودی نے 1936 میں محمد اسد کے بارے میں لکھا کہ ’دور جدید میں اسلام کو جتنے غنائم (مالِ غنیمت) یورپ سے ملے ہیں ان میں یہ سب سے زیادہ قیمتی ہیرا ہے۔‘

انھوں نے قرآن کا انگریزی ترجمہ کیا۔ اسد کے الفاظ میں ’یہ زندگی بھر کے مطالعے اور عرب میں گزرے کئی برسوں پر مبنی ہے۔ یہ ایک کوشش ہے ۔ شاید پہلی کوشش۔ ایک یورپی زبان میں قرآنی پیغام کی واقعی محاوراتی اور وضاحتی پیشکش۔‘

اس کے علاوہ انھوں نے صحیح بخاری کے مختلف حصوں کو بھی انگریزی میں منتقل کیا۔

محقق شکیل چودھری کے مطابق پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان نے اپنی سوانح عمری ’میں اور میرا پاکستان‘ میں لکھا ہے کہ چارلز ایٹن کے علاوہ جس نو مسلم نے انھیں سب سے زیادہ متاثر کیا وہ علامہ محمد اسد ہیں۔

سنہ 1939 میں جب دوسری جنگ عظیم شروع ہوئی تو اسد جن کے پاس ابھی تک آسٹریا کا پاسپورٹ تھا، کو برطانوی حکام نے اس وقت گرفتار کر لیا جب آسٹریا نے اتحادی طاقتوں کے خلاف نازی جرمنی کیمپ میں شمولیت اختیار کی۔ انھوں نے اگلے چھ سال ایشیا میں برطانوی زیر اقتدار علاقوں میں قید جرمنوں اور آسٹرین باشندوں کے ساتھ حراستی کیمپوں میں گزارے۔

یہ بھی پڑھیے

’وہ پاکستان کا ذکر دعا کی طرح کرتیں‘

پاکستان نے اپنے ایک شہری کو یہودی تسلیم کر لیا

جب روس عثمانی سلطنت توڑتے توڑتے گرم پانیوں تک پہنچا

وہ ملکہ جنھیں ان کی شاہ خرچیوں کی وجہ سے ’مادام خسارہ‘ کا نام دیا گیا

تیس سال کی ’بربادی‘ جب یوکرین کی بندر بانٹ ہوئی

اسد نے جرمن صحافی کارل گوینٹر سائمن کو بتایا کہ ’میں اکیلا مسلمان تھا اور مسلمان فوجی جنھوں نے مجھے دیکھا تھا، وہ مجھے فرار ہونے دینا چاہتے تھے لیکن میں نے خود کو اس سے دور رکھا۔‘

گوینٹر سائمن نے یہ انٹرویو سنہ 1988 میں سپین میں ان کے آخری گھر میں کیا تھا جس میں ان کی بیوی پولا حمیدہ ان کے ساتھ رہتی تھیں۔ نیو یارک میں پاکستان کے نمائندے کے طور پر انھوں نے اسی نو مسلم خاتون سے شادی کی تھی۔ اس وقت کے وزیراعظم خواجہ ناظم الدین نے انھیں ایسا کرنے کی اجازت نہیں دی تھی، جس پر وہ سنہ 1952 میں وزارت خارجہ سے مستعفی ہو گئے تھے۔ سنہ 1957 میں تقریباً آٹھ ماہ کے لیے پنجاب یونیورسٹی سے بھی منسلک رہے۔

محمد اسد کو چھ سال بعد سنہ 1945میں رہائی ملی۔ رہائی کے بعد اسد نے خود کو ایک مسلم ریاست کے ڈھانچے کی تشکیل کے لیے وقف کر دیا۔

اسد لکھتے ہیں کہ ’میں نے عرفات کے نام سے اپنے رسالے کا اجرا کیا۔ عرفات نام میں نے اس لیے پسند کیا کہ سب سے پہلے اسی نام کے میدان میں مختلف علاقوں کے لوگ ایک لباس میں جمع ہوئے جہاں رسول کریم نے رنگ نسل اور قبیلے وغیرہ کے تمام امتیازات ختم کرکے اُمّۃ الواحد یعنی ایک مسلم قوم کا تصور دیا تھا۔‘

پھر لکھتے ہیں کہ ’مسلمانوں کے لیے علیحدہ ملک کی تحریک زوروں پر تھی۔ میں نے عرفات میں ’پاکستان کیسا ہو گا‘ کے موضوع پر (انگریزی میں) مضامین لکھنے شروع کیے تاکہ پڑھے لکھے طبقے میں پاکستان کے حق میں فضا ہموار کی جائے۔

وہ سنہ 1947 میں پاکستان آ گئے۔ پاکستان کی وزارت خارجہ کے شعبہ مشرق وسطیٰ میں کام کرتے ہوئے محمد اسد ہی کی کوششوں سے سعودی عرب میں پاکستان کا پہلا سفارتخانہ کھلا۔

پاکستان کو بنے تین سال ہو چکے تھے۔ یہ سنہ 1951 تھا اور ابھی تک سعودی عرب میں پاکستان کا سفارتخانہ قائم نہ ہو سکا تھا۔ مصر میں پاکستان کے سفیر سعودی عرب میں پاکستانی امور نمٹاتے تھے۔ جدہ میں ایک بے ضابطہ قونصل خانہ تھا۔

مئی سنہ 1951 میں پاکستان نے سفارتخانے کی اجازت کے لیے ایک اعلیٰ سطحی وفد سعودی عرب بھیجا۔ وزیرِ اعظم لیاقت علی خان نے قومی اسمبلی کے سپیکر مولوی تمیزالدین خان کو اس وفد کا سربراہ مقرر کیا لیکن عملاً وفد کی سربراہی محمد اسد کے پاس تھی۔ وہ اس وقت وزارت خارجہ کے افسر تھے۔

صائمہ شبیر اور نتالیا لاسکوسکا نے محمد اسد کو پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دوستانہ تعلقات کے قیام میں سرخیل قرار دیا ہے۔

ان کی تحقیق ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ اسد کی تاحیات وابستگی سنہ 1927 میں مکہ مکرمہ کے سفر میں شروع ہوئی تھی۔ یہاں مملکت کے پہلے حکمران شاہ عبدالعزیز السعود سے ملاقات کی اور ان سے دوستی ہو گئی۔ اسد سعودی شاہی خاندان کے قریب رہے۔ وہ شہزادہ فیصل کے بہت قریب تھے جو اس وقت سعودی عرب کے وزیر خارجہ اور تخت کے جانشین تھے۔ کئی سال بعد انھوں نے اس تعلق سے سعودی اور پاکستانی تعلقات کو مضبوط بنایا۔

دانشور لیاقت علی کا کہنا ہے کہ عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ قیام پاکستان کے بعد اس نوزائیدہ ریاست کو قرون وسطیٰ کے مذہبی تصورات اور عقائد کے مطابق بنانے اور چلانے میں علما نے اہم اور بنیادی کردار ادا کیا تھا حالانکہ ایسا ہرگز نہیں۔

محمد اسد کا حوالہ دیتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ’انھوں نے پاکستانی ریاست کی مذہبی سمت کا تعین کرنے میں اہم اور بنیادی کردار ادا کیا۔ ان کا تصور اسلام بادشاہت اور جاگیردارانہ مفادات کے تابع تھا۔ وہ اسلام کی ایسی تعبیر پر یقین رکھتے تھے جو جمہوری مسلمان عوام کے مفادات اور مطالبات سے متصادم تھی۔ اسد چونکہ جاگیرداری نظام کو اسلامی اصولوں کے مطابق جواز فراہم کرتے تھے اس لیے مسلم لیگی جاگیرداروں کے قریب تھے۔

’پنجاب کے پہلے وزیر اعلیٰ نواب افتخارحسین ممدوٹ نے ان کی سربراہی میں ایک محکمہ بنایا تھا جس کانام تھا ’ڈیپارٹمنٹ آف اسلامک ری کسٹرکشن۔‘ اسے موجودہ اسلامی نظریاتی کونسل کا پیش رو ادارہ کہا جا سکتا ہے۔ بعد ازاں انھیں وزارت خارجہ میں مشرق وسطی کے ڈیسک کا انچارج بنا دیا گیا اور پھر اقوام متحدہ میں پاکستان کا مستقل مندوب۔

’جنرل ایوب اور جنرل ضیا الحق کا شمار ان کے مداحین میں ہوتا ہے۔ جنرل ضیا کے عہد میں انھوں نے پاکستان کا سرکاری دورہ کیا تھا اور مختلف شہروں میں لیکچرز بھی دیے تھے اور ان کے اعزاز میں تقریبات کا انعقاد بھی کیا گیا تھا۔‘

تاہم شکیل چودھری کی تحقیق ہے کہ مولانا مودودی نے اپنے ایک خط میں لکھا تھا کہ اسد ’قبول اسلام کے ابتدائی زمانے میں راسخ العقیدہ اور باعمل مسلمان تھ، مگر بعد میں آہستہ آہستہ انھوں نے نام نہاد روشن خیال مسلمانوں کے انداز اپنا لیے، بالکل اصلاح پسند یہودیوں کی مانند۔‘

سنہ 1992 میں ان کا سپین میں انتقال ہوا اور وہیں اندلس کے قبرستان میں دفن ہوئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32505 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments