شہباز شریف کا دورہ سعودی عرب: پاکستان کی مدد کے بدلے سعودی عرب کو کیا ملتا ہے؟


عمران خان نے اپنے ساڑھے تین سالہ دور حکومت میں کُل 32 غیر ملکی دورے کیے جن میں سے وہ آٹھ بار سعودی عرب گئے۔ کبھی وہ سعودی بادشاہت سے رشتہ بہتر کرنے آتے اور کبھی مالی مدد مانگنے۔

عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد وزیراعظم شہباز شریف نے بھی اپنا پہلا غیر ملکی دورہ سعودی عرب کا ہی کیا۔

پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان قیامِ پاکستان سے ہی مضبوط تعلقات ہیں۔ سنہ 1970 کے بعد سے یہ تعلقات مزید مضبوط ہوئے ہیں اور عموماً پاکستانی رہنما اپنے پہلے دورے پر سعودی عرب کا رخ کرتے ہیں۔

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ایسا کرنے کی سب سے اہم وجہ سعودی عرب کی جانب سے پاکستان کو ملنے والی مالی امداد ہے۔

مقامی میڈیا پر چلنے والی ایک خبر میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف سعودی عرب سے آٹھ ارب ڈالر کا امدادی پیکج حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔

پاکستانی اخبار دی نیوز کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب پاکستان کو تیل کی مد میں دی جانے والی مالی امداد کو دگنا کرے گا۔ اس کے علاوہ یہ چار اعشاریہ دو ارب ڈالر کے جاری قرض کی واپسی کو مؤخر بھی کرے گا۔

اگست 2018 میں پاکستان کے وزیر اعظم کی حیثیت سے حلف اٹھانے کے بعد عمران خان اگلے ہی ماہ اپنے پہلے غیر ملکی دورے پر سعودی عرب پہنچے تھے۔

تاہم اس حوالے سے ابھی تک کوئی حتمی معاہدہ نہیں ہو سکا ہے، نہ ہی دونوں جانب سے کوئی بیان جاری ہوا ہے۔

سعودی عرب نے آخری معاہدے کے تحت دسمبر 2021 میں سٹیٹ بینک آف پاکستان میں تین ارب ڈالر جمع کروائے تھے۔

اس حوالے سے بات کرتے ہوئے کراچی کی آئی بی اے یونیورسٹی کی پروفیسر ڈاکٹر ہما بقائی کہتی ہیں کہ ‘عمران خان اور شہباز شریف وزیر اعظم بنتے ہی سب سے پہلے سعودی عرب گئے کیونکہ دونوں کو فوری طور پر مالی مدد کی ضرورت تھی۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’حالات کچھ بھی ہوں، سعودی عرب پاکستانی معیشت کو سہارا دینے کے قابل ہے۔‘

گذشتہ سال جب پاکستان مشکل معاشی بحران کا شکار تھا اور ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر گر رہی تھی اور اس کے زرِمبادلہ کے ذخائر ختم ہو رہے تھے، تب سعودی عرب اس کی مدد کے لیے آگے آیا تھا۔

گذشتہ سال اکتوبر میں سعودی عرب نے پاکستان کو 4.2 ارب ڈالر کی مالی امداد دی تھی۔ اس مدد کا اعلان اس وقت کے وزیر اعظم پاکستان عمران خان کے دورہ سعودی عرب کے دوران کیا گیا تھا۔ یہ مدد سستے قرضوں اور ادھار تیل کی صورت میں تھی۔

اس کے بعد پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے سعودی عرب کا شکریہ ادا کیا تھا اور کہا تھا کہ ’ہم پاکستان کے مرکزی بینک کو تین ارب ڈالر اور تیل کی مد میں 1.2 ارب ڈالر دینے پر ولی عہد کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ سعودی عرب نے ہر مشکل گھڑی میں پاکستان کا ساتھ دیا ہے۔‘

پاکستان کو یہ قرضہ دسمبر 2021 میں سعودی عرب سے ملا تھا۔

سعودی عرب کے لیے پاکستان کیوں اہم ہے؟

سنی اکثریتی سعودی عرب اور شیعہ اکثریتی ایران عرب دنیا میں بالادستی کے لیے مقابلہ کرتے رہے ہیں۔ ایران اور سعودی عرب کے تعلقات اب بھی بہت اچھے نہیں ہیں اور دونوں ممالک یمن میں پراکسی وار بھی لڑ رہے ہیں۔

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ضرورت پڑنے پر سعودی عرب پاکستان سے فوجی تعاون کی توقع رکھتا ہے۔

کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ سعودی عرب معاشی پیکجوں اور سرمایہ کاری کے وعدوں کے ذریعے مالی طور پر پسماندہ پاکستانی حکومت کی وفاداری خریدنے کی کوشش کرتا ہے۔

تـجزیہ کاروں کے مطابق دونوں ملکوں کے تعلقات میں سعودی قرضے کوئی نئی چیز نہیں ہیں۔ سعودی پیسے اور امریکی پالیسی کی وجہ سے اسلام آباد ہمیشہ ریاض کے قریب رہا ہے۔

سعودی عرب چیک بک ڈپلومیسی

یہ رشتہ اس وقت ابھرا جب ضیا الحق نے سنہ 1977 میں بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والے ذوالفقار علی بھٹو کو اقتدار سے ہٹایا تھا۔ یہ بھی امریکہ کے قریب آنے کے لیے کیا گیا۔

سنہ 70 کی دہائی میں جب تیل کی قیمتیں اچانک بڑھیں تو سعودی عرب کی جیبیں بھرنے لگیں اور اس نے خوب منافع کمایا۔

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس رقم کی بنیاد پر سعودی عرب نے عرب اور مسلم دنیا میں ‘چیک بک ڈپلومیسی’ کو آگے بڑھایا۔

سعودی عرب نے ممالک کی حمایت حاصل کرنے کے لیے اپنا پیسہ بہت استعمال کیا۔

سعودی عرب نے پاکستان کو نہ صرف قرضے دیے بلکہ مذہبی بنیادوں پر بھی مدد کی۔ پاکستان کی مساجد اور مدارس کو بھی سعودی عرب سے خیرات ملی۔

تجزیہ کار اور محققین اس بات پر متفق ہیں کہ سعودی امداد کئی طریقوں سے پاکستان پہنچا کرتی تھی۔

یہ صرف فوجی اور سویلین امداد کی شکل میں ہی نہیں تھی، بلکہ مذہبی چیزوں کے لیے بھی تھی۔ ضیا الحق کی حکومت نے سعودی خیراتی اداروں کو مساجد میں سرمایہ کاری کرنے کی بھی اجازت دی تھی۔

ریاض پر پاکستان میں سنی انتہا پسندی کو فروغ دینے کا الزام بھی ہے۔ اس سے شیعہ مسلمانوں کے خلاف تشدد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

اسی طرح اس پر ایران میں بھی ایسے ہی حملے کرنے کے الزامات تھے۔

محمد بن سلمان

دوسری جانب امریکہ سعودی عرب کا دوست ملک ہے جبکہ پاکستان امریکہ کے لیے بھی اہم رہا ہے۔

فروری سنہ 1979 میں ایران کا انقلاب اور افغانستان پر سوویت یونین کا حملہ دو ایسے واقعات تھے جنھوں نے پاکستان کو امریکی خارجہ پالیسی کے لیے اہم بنا دیا تھا۔

امریکہ مغربی ایشیا میں ایک محاذ بنانا چاہتا تھا تاکہ وہاں سوویت یونین اور ایران کے اثر و رسوخ کو کم کیا جا سکے۔ ان حالات نے پاکستان کو امریکہ کے لیے خاص بنایا اور اسے سعودی عرب کے اور بھی قریب کر دیا۔

تاہم عمران خان کی حکومت کے دوران امریکہ اور پاکستان کے تعلقات میں واضح تلخی دیکھنے میں آئی۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ پاکستان کی نئی حکومت امریکہ کے ساتھ تعلقات کو دوبارہ پٹری پر لانے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرے گی۔

ساتھ ہی سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان حالیہ برسوں میں دوریاں بھی دیکھی گئی ہیں۔ یمن کی جنگ بھی سعودی عرب اور امریکہ کے تعلقات میں تلخی کی ایک وجہ ہے۔

بائیڈن

سعودی عرب کو لگتا ہے کہ امریکہ نے اس کی کوئی مدد نہیں کی۔ ماہرین کا خیال ہے کہ مشرق وسطیٰ کی موجودہ صورتحال کے پیشِ نظر سعودی عرب سٹریٹیجک طور پر مزید مضبوط ہونا چاہتا ہے لیکن وہ ایسا امریکہ کو ناراض کرنے کے عوض نہیں کرنا چاہتا۔

پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے اور سعودی عرب کے پاس یہ طاقت نہیں ہے۔

اکتوبر 2021 میں پاکستان کے وزیر اعظم کی حیثیت سے اپنے دورہ سعودی عرب کے دوران عمران خان نے کہا تھا کہ اگر سعودی عرب کی سلامتی کو کبھی خطرہ لاحق ہوا تو پاکستان ان کی مدد کرے گا۔

عمران خان نے کہا تھا کہ ‘دنیا کا موقف کچھ بھی ہو، پاکستان سعودی عرب کے ساتھ کھڑا رہے گا۔’

یہ بات بھی اہم ہے کہ پاکستان سعودی عرب کی فوج کو بھی تربیت دیتا ہے۔

جوہری

سعودی عرب اور انڈیا کی بڑھتی قربت اور پاکستان کے خدشات

پاکستان کا دوست سعودی عرب حالیہ برسوں میں انڈیا کے ساتھ تعلقات کو مضبوط کرنے سے پیچھے نہیں ہٹا۔ سعودی عرب کے آرمی چیف نے رواں سال فروری میں انڈیا کا دورہ کیا تھا۔ یہ کسی بھی سعودی آرمی چیف کا انڈیا کا پہلا دورہ تھا۔

تین سال قبل جب سعودی ولی عہد محمد بن سلمان انڈیا آئے تھے تو وزیر اعظم نریندر مودی نے پروٹوکول کو نظر انداز کرتے ہوئے ایئرپورٹ پہنچ کر ان کا استقبال کیا تھا۔

چند ماہ بعد جب انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی نے اکتوبر 2019 میں سعودی عرب کا دورہ کیا تو دونوں ممالک نے سٹریٹیجک تعاون کونسل قائم کی تھی۔

اس کے بعد دسمبر 2020 میں انڈیا کے اس وقت کے آرمی چیف جنرل نروانے نے سعودی کا دورہ کیا تھا۔ یہ کسی انڈین آرمی چیف کا سعودی عرب کا پہلا دورہ تھا۔

پاکستان سعودی عرب کی انڈیا کے ساتھ بڑھتی ہوئی قربت سے بے چین ہے۔ اس کے باوجود سعودی عرب اور پاکستان کے تعلقات مضبوط ہیں۔

پروفیسر ہما بقائی کہتی ہیں کہ ‘سعودی عرب اور پاکستان کے تعلقات اب بھی مضبوط ہیں لیکن اب حالات تبدیل ہو رہے ہیں۔’

پاکستان کی معیشت اس وقت انتہائی مشکل دور سے گزر رہی ہے۔ پاکستان کے قائدین اس بحران کی گھڑی میں سعودی عرب کی طرف دیکھ رہے ہیں۔

تاہم کیا سعودی عرب پہلے کی طرح پاکستان کی مدد کر سکے گا، پروفیسر بقائی کا خیال ہے کہ پاکستان کو ملنے والی سعودی امداد دراصل ماضی کے مقابلے میں کم ہو گئی ہے۔

مودی سلمان

پروفیسر بقائی کہتی ہیں کہ ‘پاکستان شاید سعودی عرب کے ساتھ تعلقات میں بہت زیادہ ثابت قدم نہ ہو کیونکہ اس کی معاشی خودمختاری سکڑتی جا رہی ہے۔

’سعودی عرب کی طرف سے پاکستان کو ملنے والی مالی امداد میں کمی واقع ہوئی ہے۔ اس کی وجہ سعودی عرب کی اپنی معاشی حدود ہیں۔ جنگ کے باعث بھی سعودی وسائل استعمال ہو رہے ہیں۔‘

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ کمزور معاشی حالت کی وجہ سے پاکستان کھل کر سعودی عرب کی مخالفت نہیں کر پا رہا ہے۔

جب انڈین حکومت نے سنہ 2019 میں جموں و کشمیر سے آرٹیکل 370 کو ہٹا کر کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کی تو پاکستان کو توقع تھی کہ سعودی عرب کھل کر اس کی مخالفت کرے گا، لیکن ایسا نہیں ہوا۔

تاہم پاکستان کھل کر سعودی عرب سے ناراضگی کا اظہار بھی نہیں کر سکا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32287 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments