ادبی سرقہ اور توارد


ادبی اصناف کی چوری کو ادبی سرقہ کہتے ہیں۔ اس کی دو قسمیں ہیں،

1 : سرقۂ معروف

کسی معروف شاعر کے کلام کو خود سے منسوب کرنا سرقۂ معروف ہے جو ادبی سرقہ کی روایتی اور عام قسم ہے۔ اس سے بڑھ کر ادب کی بے ادبی کیا ہوگی کہ کسی کی ادبی تخلیق کو چرا کر اپنی ادبی اولاد ثابت کیا جائے۔ ادبی سرقہ کی روایتی قسم میں دوسروں کے اشعار و نثر اپنے نام سے متعارف کروانا ہے۔ کسی مشاعرہ میں احمد ندیم قاسمی کے رو برو ایک نوجوان نے انہیں کی غزل پڑھ دی۔ پھر ان کے پاس آ کر قدم چھو کر کہا ”ہم آپ کے بچے ہیں اور بچوں کا بڑوں پر اتنا تو حق ہوتا ہے۔ اسی طرح بے شمار قابضین دوسروں کی زمینوں میں ہل چلا رہے ہیں۔ کچھ مزار عین ہیں تو کچھ ٹھیکے دار! مگر سبھی ادبی راہزنی میں ملوث ہیں۔

2۔ سرقۂ مجہول

اپنی یا کسی اجنبی کی نگارشات مشہور شعرا سے منسوب کرنا سرقہ کی جدید قسم ہے جسے سرقۂ مجہول کہا جاسکتا ہے۔ بے شمار اوٹ پٹانگ اشعار اقبال و فراز اور سینکڑوں اقتباس سعدی و جبران کے کھاتوں میں ملتے ہیں۔ ایک کتاب سے چوری سرقہ اور بہت سی کتابوں سے ڈاکے مارنا ریسرچ کہلاتا ہے۔

حال ہی میں خبر سنی کہ وطن عزیز کے نو سو 900 سکالرز ڈاکٹریٹ کی ڈگری لیتے لیتے سرقے میں پکڑے جا چکے ہیں۔ اسلام میں چوری کی سزا ہاتھ قلم کرنا ہے تو پھر ادبی چوری (سرقہ) کی سزا ہاتھ سے قلم کا قلع قمع تو بنتا ہے۔ ویسے بھی تحقیقی مقالوں کی حیثیت ایک قبرستان سے دوسرے قبرستان تک ہڈیوں کی منتقلی کے سوا کچھ نہیں ہوا کرتی۔

توارد

بظاہر ”توارد“ سرقہ سے ملتا جلتا عمل ہے مگر فرق رکھنا ضروری ہے۔ سرقہ کسی کی ادبی تخلیق یا تخیل کو چرا کر خود سے منسوب کرنا ہے جبکہ توارد اتفاقاً کسی کے کلام یا خیال سے مماثلت کو کہتے ہیں۔ اکثر شعرا اور ادبا کے اشعار یا تصورات ملتے جلتے ہیں مگر ان میں سرقہ کا عنصر نہیں ہوتا۔ سرقہ غیر ادبی اور غیر اخلاقی عمل ہے جبکہ توارد معیوب نہیں سمجھا جاتا۔ ادب کی تاریخ کے تمام بڑے شعرا پر سرقوں کا الزام ہے۔ حتیٰ کہ علامہ اقبال کے ناقدین کے مطابق اقبال کے کلام میں انگریزی، عربی اور فارسی سے کیا گیا سرقہ یا چربہ شامل ہے۔ اصل میں وہ سرقہ ہے نہ توارد بلکہ مختلف زبانوں کے اشعار اور نظموں کا اردو ترجمہ ہے۔ اقبال نے انگریزی اور فارسی کے بہت کلاموں کے منظوم تراجم لکھے اور ساتھ ان کی تفصیلات بھی درج کیں۔ مثلاً خوشحال خان خٹک کے شعروں کا ترجمہ یوں کیا ہے،

1۔ د خوشحال سلام پہ ہغہ شا زلمو دے کمندونہ چی دستوروپہ اسمان ردی
جبکہ علامہ اقبال لکھتے ہیں،
محبت مجھے ان جوانوں سے ہے ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند

2۔ حہ ہغہ شھباز شہ چی خائی پہ سردروئی
نہ لکہ دکلی کا رغہ کر حہغم دنس کا (خوشحال خان)
نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر
تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں ( علامہ اقبال)
امجد محمود چشتی کی کتاب، اردو بے ادبی کی مختصر تاریخ، سے اقتباس


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments