ہم بہرے یا اندھے ہیں؟


سڑک پر چلتے ہوئے آپ نے ہزاروں لوگ ایسے دیکھے ہوں گے جن کی آنکھوں میں بس سوال ہی سوال ہیں۔ جن کا حلیہ دیکھ کر ہمیں بے چینی ہوتی ہے کہ یار اتنا میلا یا گندا کوئی کیسے ہو سکتا ہے۔ ان کے پیروں میں ایک سادہ چپل تک نہیں ہوتا۔

ہم مزے سے بیٹھ کر کسی ہوٹل پر چائے پی رہے ہوتے ہیں اور وہ مسلسل آتے رہتے ہیں اور ہمارے آگے ہاتھ پھیلاتے رہتے ہیں۔ کبھی کوئی سات آٹھ سال کا بچہ آتا ہے۔ اپنے ننھے ہاتھ ہمارے سامنے پھیلاتا ہے اور ہم ”ابے او چل“ یا پھر ”معاف کرو بھئی“ کہہ کر دھتکار دیتے ہیں۔ بچہ وہی ننھے ہاتھ لیے کسی دوسرے سامنے پھیلا دیتا ہے۔

کئی لوگوں میں سے کوئی ایک دس کا نوٹ دے کر خود کو سخی سمجھنے لگتا ہے۔ کوئی بوڑھی عورت آتی ہے۔ اپنے بیٹے کی عمر کے بچے سے چند روپوں کا سوال کرتی ہے۔ وہ ہاتھ ہوا میں لہرا کر بڑے ہی غرور بھرے انداز میں کہتا ہے کہ ”مائی معاف کرے“ ۔ وہ آنکھوں میں نمی لیے آگے بڑھ جاتی ہے۔

پھر کوئی دوست گداگری پر بھاشن دینا شروع کرتا ہے ”ان لوگوں نے یہ پیشہ ہی بنا لیا ہے۔ ہڈ حرامی کرنا تو کوئی ان سے سیکھے۔ ہر وقت مانگتے رہتے ہیں۔ یہ نہیں کہ کوئی کام دھندا کریں۔“ یہ کہہ کر خود کو وہ عالم سمجھتا ہے۔ جیسے اس نے ہر کے حالات دیکھے ہوں، پرکھے ہوں کہ یہ سارے جان بوجھ کر رہے ہیں۔

چلو بھئی مان لیا یہ جان بوجھ کرتے ہوں گے ۔ کرتے ہوں گے اداکاری۔ مگر اپنی عزت۔ نفس کو ہتھیلی پر رکھ کر کسی کے سامنے چند پیسے کی خاطر پیش کر دینا آسان نہیں ہوتا۔ کسے اچھا لگتا ہے کہ وہ کسی کا محتاج ہو۔ آخر کسے اچھا لگتا ہے کہ دو وقت کی روٹی کے لیے سب کے آگے ہاتھ پھیلائے جائیں۔

مگر وہ بچہ جس کے پاؤں میں چپل تک نہیں تھی۔ جس کی قمیص ایک طرف سے ادھڑی ہوئی تھی۔ جس کی آنکھیں اس کی حلیہ سے زیادہ اس کے حالات کی صداقت دے رہی تھی۔ وہ بوڑھی عورت جس کا دوپٹہ تار تار تھا۔ آنکھوں میں غم تھا۔ چہرہ پر تھکان تھی۔ چل چل کر پاؤں میں درد تھا۔ کیا ان سب کو شوق ہیں پیسے مانگنے کا؟ اگر یہی ان کا پیشہ ہے تو کتنی ہی کوٹھیاں انھوں نے بنا لیں ہوں گی ۔

کبھی سوچا کہ اس بوڑھی عورت کی جگہ اگر ہماری ماں ہوتی تو کیا ہم گوارا کرتے کہ وہ کسی کے سامنے ہاتھ پھیلائے اور یوں لوگ میں اسے ذلت آمیز آنکھوں سے دیکھے۔ اس بچے میں کبھی عکس اپنے بچے کا عکس دیکھا؟ کبھی اس بچے کو پاس بیٹھا کر اس سے اس کے حالات کے بارے میں پوچھا؟ کبھی خود کھانا کھاتے ہوئے کسی ایسے بچے کو ساتھ بیٹھا کر کھانا کھلایا؟

یہ ساری چیزیں ہم روزانہ کی بنیاد پر دیکھتے ہیں۔ لیکن پھر بھی کسی لمحے ہم نے ان کی طرف سے کبھی نہیں سوچا۔ وہ کیا محسوس کرتے ہوں گے وہ کیا سوچتے ہوں گے ؟ جیسے ہماری بچپن میں خواہشیں ہوا کرتی تھیں، چھوٹی سے چیز پر ضد لگا کر گھر میں ہنگامہ کیا کرتے تھے۔ کیا ان بچوں کی خواہشیں نہیں ہوتیں؟ کیا کسی چیز کو دیکھ کر ان کا دل نہیں مچلتا اسے خریدنے کے لیے۔ کیا ان کی آنکھوں میں خواب نہیں ہوتے؟

کیا یہ نہیں سوچتے کہ ہم بہت الیڈ نہیں تو کم سے کم وہ تو جی پاتے، جسے زندگی کہتے ہیں۔

یہ سب تم دیکھتے ہو، میں دیکھتا ہوں، ہم سب دیکھتے ہیں مگر ہمارے دل میں ایک احساس تک نہیں پیدا ہوتا۔ کیا ہم بہرے ہیں یا پھر اندھے ہیں؟ یا پھر دل نہیں رکھتے۔ دل رکھتے ہیں تو کیا دل میں احساس نہیں رکھتے۔

کہیں نا کہیں کوئی تو فرق ہے۔ کہیں نا کہیں ہم ان کی خاموش چیخوں کو کانوں تک پہنچنے نہیں دے رہے۔ کہیں نا کہیں ہم دیکھا ان دیکھا کر رہے ہیں۔ شاید ہم جان بوجھ کر بہرے اور اندھے بنے ہوئے ہیں۔ ہم دیکھ کر بھی دیکھ نہیں پا رہے۔ ہم سن کر بھی سن نہیں پا رہے۔ اب بھی اگر ہم نے ایسے ہی اپنی آنکھیں اور کان بند رکھے تو جلد ہی ہم مستقل طور پر بہرے اور اندھے ہو جائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments