مسلم دنیا میں فکری جمود – مسائل، وجوہات اور سدباب


اٹھارہویں صدی عیسوی میں روشن خیالی کی تحریک ایسی تحرک تھی جس نے روایت اور قائم نظریے کے بجائے استدلال اور انفرادیت کے استعمال کی وکالت کی۔ روشن خیالی نے بہت ساری انسانی اصلاحات کیں۔ اور اپنے منشور کی بنیاد عقل اور انسان دوستی پر رکھی۔ یہ تحریک بڑی شدت کے ساتھ بنیاد پرست طبقوں سے ٹکرائی۔ اور فطری رد عمل کے طور پر کلیسا اس کا حریف ٹھہرا۔ اس تحریک نے کلیسا کی اجارہ داری کو مکمل طاقت کے ساتھ ختم کرنے کی کوشش کی اور کسی حد تک کامیاب بھی ہوئی۔

اپنے اس عمل کے بعد روشن خیالی کو پنپنے کا پورا موقع ملا۔ مذہب بیزار، لبرل اور تغیر پسند طبقوں نے بہت اچھے سے خیر مقدم کیا۔ روشن خیالی کی تحریک نے مختلف مکتبۂ فکر سے تعلق رکھنے والوں کو مختلف طریقوں سے متاثر کیا۔ اور یہ سلسلہ لبرل ازم سے لادینیت تک جا پہنچا۔ اس تحریک سے وابستہ لوگوں نے خود کو ایک ترقی پسند طبقے کی حیثیت سے دیکھا، اور مذہبی اور سیاسی ظلم و ستم کے خلاف لڑتے ہوئے اس کے خلاف لڑائی کی جس کو انہوں نے پچھلی صدیوں کی غیر معقولیت، صوابدیدی، فحاشی اور توہم پرستی کے طور پر دیکھا تھا۔ انہوں نے اپنے وقت کی اخلاقیات اور جمالیات کے مطابق ہونے کے لئے علم کے مطالعے کی نئی تعریف کی۔ اٹھارہویں صدی کے آخر میں، امریکی اعلان آزادی اور فرانسیسی انقلاب میں ان کے کاموں کا زبردست اثر تھا۔

اور اس کے بعد جدیدیت کی تحریک ایسی تحریک تھی جس نے شدت کے ساتھ روایتی نظریوں سے بغاوت کی اور ہر فکر کو جدید دور سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی۔ مذہبی نظریات میں تبدیلی یا اجتہاد بھی اس کے منشور میں شامل تھا۔ جدیدیت نے نئے افکار اور خیالات کی حوصلہ افزائی کی اور اظہار کے مکمل مواقع دیے۔ اور اس تحریک کے اثرات بھی پوری دنیا میں محسوس کیے گئے۔

ان دونوں تحریکوں کے بعد سماجی، مذہبی اور سیاسی نظریات میں بڑی حد تک تبدیلی آ گئی۔ ماضی قریب کی بڑی تبدیلیوں میں انقلاب فرانس، صنعتی انقلاب اور امریکہ کی جنگ آزادی سے نشاۃ ثانیہ کے خیالات کو عملی اظہار کا وسیلہ مل گیا۔ پورپ نے اس بادشاہی نظام سے جس کو چرچ کی سرپرستی حاصل تھی عملاً آزادی حاصل کر لی اور سیاسی اور حکومتی معاملات میں چرچ کی دخل اندازی کو ختم کر دیا گیا۔

مسلم دنیا میں اگرچہ مذہب کا اثر اور اس کی دخل اندازی ضرور موجود رہی ہے لیکن وہ رومن کیتھولک چرچ کی طرح منظم اور سخت گیر نہیں تھی۔ علماء کا طبقہ چرچ کے طور پر منظم نہیں تھا۔ زیادہ سے زیادہ یہ علماء ایک طبقہ تھا جس کو عوام الناس میں مقبولیت حاصل رہی۔ بادشاہوں نے ان کا اثر اس لئے قبول کیا کہ اس طرح وہ عوام سے بھی سند قبولیت حاصل کر سکتے تھے۔ ملا  بادشاہوں کے محض مہرے تھے۔

پچھلی دو صدیوں میں مغرب نے تو اپنے سیاسی، سماجی اور مذہبی نظریات میں تبدیلی پیدا کر لی لیکن مسلمان علماء خاص طور پر استعمار سے آزادی ملنے کے بعد مغربی تصورات کو ایک لا دینی نظام کی پیداوار سمجھ کر رد کرنے کی طرف راغب ہو گئے اور متوازی طور پر ایک نسبتاً بند اور زیادہ سخت گیر مذہبی و سیاسی نظام اور طرز حکومت کی طرف مائل ہوئے جہاں اقتدار، طاقت، نفاذ اور حکم کے تصورات مذہبی احیاء کی لغت سے زیادہ اہم سمجھے جانے لگے۔

اور سوائے مسلمانوں کے دنیا کے ہر مذہب، اقوام اور سلطنت نے ان نظریات کو کسی نہ کسی انداز میں اپنے نظام فکر کو جز بنا لیا ہے۔ مسلمانوں کی مغربی فکر قبول نہ کرنے کی کئی وجوہات ہیں۔ ایک تو ، مذہبی عقائد کا جو نظام مسلمانوں نے وضع کیا تھا، اپنی منطق کے اعتبار سے بے لچک تھا اور اس میں کسی نئے تصور یا عنصر کا داخل ہونا ناممکن تھا۔ خاص طور پر اس صورت میں کہ یہ نظام بڑی حد تک اپنے ماخذ سے آزاد ہو کر ایک خود کار فکر بن چکا تھا۔

ہر نیا تصور اور فکر اس نظام کے کسی نہ کسی کلیہ سے ٹکراتی تھی اور اس لئے ناقابل قبول قرار پاتی تھی۔ اس نظام میں قرون اول والی سمائی اور کشادگی بھی نہیں بچی تھی یہاں تک کہ بیسویں صدی کے بعض علماء کوپر نیکس اور گلیلیو کے نظام کو اسلامی عقائد کے خلاف سمجھتے تھے۔ اور ستاروں کی حرکت کے اسی بطلیموسی تصور پر عمل پیرا تھے جو بڑے زمانے تک دنیا پر ایک سائنسی نظریہ کی حیثیت سے چھایا رہا۔

ان تصورات کے جڑ نہ پکڑنے کے بہت سے اسباب اور بھی ہیں۔ اولاً، جو تعلیمی نظام مسلم ممالک میں استعمار سے پہلے رائج تھا وہ انسانی ذہن کو ایک سسٹم کے تابع بناتا تھا جس کی بنیاد حکم و اطاعت پر تھی۔ یہ نظام کمرہ جماعت سے لے کر درسی کتب اور مضامین تک حاوی تھا۔ ذہنوں کو سوچنے پر اکسانا اس کے اہداف میں شامل نہیں تھا۔ اس لئے بنیادی طور پر انسانوں کی فکر کی جو ذاتی آزادی حاصل ہونی چاہیے تھی وہ کبھی نہ مل سکی اس ذاتی آزادی کے فقدان نے اس کی معاشی زندگی پر بھی اثر ڈالا اور ذرائع پیداوار کے نئے نئے طریقوں سے بالکلیہ انحراف برتا گیا۔

معاشی بدحالی، آبادی کی کثرت اور فکری جمود یہ تینوں وہ مہلک آزار تھے جو مسلمانوں میں بڑی شدت سے موجود رہے۔ مسلمانوں کے ان علاقوں پر جہاں ترقی یافتہ قوموں کی صنعتی رفتار برقرار رکھنے اور تیز کرنے کے وسائل موجود تھے استعمار نے ایک دوسرے انداز میں اپنا غلبہ قائم رکھا اور ان کو جمہوریت کی بہ نسبت افراد سے معاملہ کرنے میں آسانی نظر آئی۔ اس لئے غیر جمہوری روایات کی پختگی میں داخلی اسباب کے ساتھ خارجی اسباب بھی شامل ہو گئے اور کسی ملک میں بھی استعمار سے آزادی حاصل کرنے کے بعد بھی وہ روایات قائم نہ ہو سکیں، جو ایک جمہوری نظام کی بنیاد بنیں۔

درحقیقت اسلام میں اجتہاد کے حوالے سے کی جانے والی کوششیں شعوری نہیں بلکہ کسی خاص ضرورت کے تحت ہوتی آئی ہیں۔ اسلام میں شدت پسندی کی ایک وجہ تو جہالت کا غلبہ ہے، اور یہ جہالت عوام میں نہیں بلکہ علماء کے حوالے سے ہے جنہوں نے اسلامی احکامات کو زمانی اعتبار سے نہ دیکھا کہ کیا موجودہ دور پرانے اسلامی احکامات کا متحمل ہے۔ اگر ہے تو کس طرح اور نہیں تو ان میں کیا مناسب تبدیلیاں کی جائیں۔ شدت پسندی کی صورتحال یہ ہے کہ سادہ عوام لبرل ازم اور لادینیت کو ایک ہی چیز سمجھ کر نیام سے تلوار نکال لیتے ہیں۔

اور ان کو نظریات سے ٹکرانے والی ہر فکر اسلام دشمن نظر آتی ہے جس میں اسلام سمیت اللہ بھی خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ اور اسلام بطور مذہب تاثر یہ ہے کہ اسلام نام نہاد دنیاوی افعال کو اس بناء پر تقدیس عطا کرتا ہے کہ اس میں ان کی نیک نیتی شامل ہوتی ہے اور جن کو مشترکہ طور پر ایک نیکی ہی سمجھا جاتا ہے اور ایک معنی میں ان انسانی افعال کو بے تقدس قرار دیتا ہے جن کو عام حالات میں اکثر خالص مذہبی سمجھا جاتا ہے۔ تمام مذہبی رسوم و رواج کا مقصد سماجی بہبود کا حصول ہی بتایا جاتا ہے تاکہ انسانی زندگی کے معیار کو بہتر کیا جا سکے۔

اور معاشرے کی فلاح کی صورت گری ہو۔ دوسرے لفظوں میں دنیاوی امور پہلے ہی سے مقدس زمرہ میں شامل ہو جاتے ہیں اور اسی طرح مقدس اور غیر مقدس، دینی یا لا دینی کی تفریق مٹ جاتی ہے۔ انسانی اعمال ان دونوں زمروں سے ماورا ہو کر غیر جانبدار بن جاتے ہیں۔ یہ بھی اس بات کی وجہ ہو سکتی ہے کہ اسلام لادینیت کے ضمن میں اتنا مزاحم ہے جبکہ دوسرے بڑے مذاہب یعنی عیسائیت، ہندومت اور کنفوشس کا مذہب کم و بیش کسی نہ کسی حد تک لادینیت کو قبول کر چکے ہیں۔ اسلام کے جدید عذر خواہوں کا قصور یہ ہے کہ وہ سیکولر اور مقدس کی ثنویت کو معناً تسلیم کرتے ہیں اور پھر دونوں زمروں کو حکم اور فرماں برداری پر مبنی دینیاتی ساخت کے تحت یکجا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور اس پیراڈائم میں وہ عالم گیر اقدار کی جدید تفہیم کو دائرہ اسلام سے خارج کر کے گمراہ کن قرار دیتے ہیں۔

مسلمان ملکوں میں سے جو نسبتاً زیادہ ترقی یافتہ ہیں او ر جن کی نظریں مستقبل کی جانب ہیں وہی ہیں جنہوں نے دو متبادل دائرہ ہائے کار فکر میں ایک کو اختیار کر لیا ہے یعنی سیکولر یا مقدس۔ ترکی نے سیکولر طرز کو اختیار کر رکھا اور اس کو ریاستی طاقت کے ذریعے ایک نظریہ حیات کی طرح نافذ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ کسی حد تک کامیاب بھی ہو چکا ہے۔ کئی مسائل جو دوسرے اسلامی ملکوں کو ہیں ترکی ان سے آزادی حاصل کر چکا ہے۔

قدامت پسندانہ مذہبی نظریہ استحکام اور ایک دروں بینی اجتماعی نفسیات کے باوجود ہندوستان وہ سر زمین تھی جہاں مذہب کو برقرار رکھتے ہوئے سرسید احمد خاں نے مذہب کی تفہیم اور اس کی تاویل کے لئے نئے تنقیدی طریق کار کو فروغ دیا۔ انہی کوششوں کے طفیل قدامت پسندانہ اسلام کی جانب سے سخت مخالفت کے باوجود ہندوستانی مسلمانوں کے لئے گویا ایک دریچہ کھل گیا۔ جس سے معلوم ہوا کہ مغربی دنیا میں کیا ہو رہا ہے۔

ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ ہمٰیں اس نظام کو بدلنا ہو گا جو آج کل ہمارے اسلامی مدرسوں میں رائج ہے۔ اور اس سے میری مراد ان مدرسوں میں انگریزی اور سائنس مضامیں شامل کرنا نہیں بلکہ اس نصاب کی تبدیلی مطلوب ہے جو مذہبی تعلیم میں استعمال ہوتی ہے۔ اور جس کی ابتدا ء اصل مذہب سے نہیں بلکہ عقائد کے نظام سے شروع ہوتی ہے۔ یہاں اصل زور کسی متن کو سمجھ کر اس کے مفاہیم تک رسائی پر ہونا چاہیے۔

مسلمان ملکوں میں عام طور پر قبائلی یا جاگیر درانہ معاشرتی ساخت غالب ہے۔ یہ ساخت بادشاہی نظام سے مطابقت رکھتی ہے اور حکم و اطاعت کے رویوں کو جنم دیتی ہے۔ مسلمانوں کی تاریخ میں اس ساخت کے مضبوط رہنے کی بڑی وجہ وہ پیراڈائم بھی جس کا تذکرہ اوپر گیا گیا ہے ۔ سادہ عوام بے چارے محض اطاعت اور فرمانبرداری تک محدود ہو کر رہ جاتے ہیں۔ جس میں آقاؤں کے خلاف بغاوت کرنا یا ان کی حکم عدولی کرنا گناہ سمجھا جاتا ہے۔

اب ضروری ہے کہ اہم فیصلے کیے جائیں اور مسائل کی طرف دھیان دیا جائے۔ ہمیں اپنے اجتماعی مزاج کو بدلنا ہی ہو گا۔ ہمیں سوچنا ہو گا کہ ہم نے آئین پاکستان میں کن کن احکامات کو قوانین کی صورت شامل کیا اور کیا نتائج حاصل ہوئے۔ ملک کے دستور میں اس شق کا اضافہ کہ شرعی عدالتوں کا قیام، حدود کا نفاذ، شراب کی حرمت، جمعہ کی چھٹی، ان سب نے پاکستان کو کتنا اس مملکت کے قیام کے قریب کیا جو کہ کوئی ایک عام آدمی اپنے تخیلات میں رومانوی طور پر بسائے ہوئے ہے؟ قانونی اور دستوری اسلام جیسا کہ نظریاتی مملکت والے پیش کرتے ہیں، استحصالی قوتوں کے ہاتھ مضبوط کر تا رہا ہے اور کرتا رہے گا۔

سعودی عرب کی حکومت عام چور کا ہاتھ کاٹ دیتی ہے لیکن ملک کی دولت جس پر ایک خاندان کا قبضہ ہے اور جہاں آزادی رائے ناپید ہے، جہاں بادشاہ کا فرمان قضائے الہیٰ ہے۔ ان میں کتنوں نے ذرائع مملکت پر قبضہ کرنے کی سزا پائی؟

پاکستان کے بارے میں اگر صرف اتنا کہا جائے کہ یہاں کے باشندے اپنے اوپر خود حکومت کرنا چاہتے ہیں تو درست لیکن اسلام کے نام پر عوام کی جذباتیت سے فائدہ اٹھانا صحیح نہیں ہے۔ مذہبی نظریاتی مسائل کے علاوہ اور بھی کئی مسائل ہیں۔ جن سے ہم لوگ غافل معلوم ہوتے ہیں اور باطل سے جنگ پر ہر وقت آمادہ نظر آتے ہیں۔ ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ منطق ارسطو کو بہت پیچھے چھوڑ آئی ہے اور اب صدق و کزب ایسی جہتیں ہیں جن کے مابین بہت سے مراتب ہیں۔ پاکستان کا مستقبل، ان ”نظریات“ کی گہری و تفصیلی تنقید کے بغیر ممکن نہیں۔ اگر مسلمان اس کے لئے تیار نہیں ہوئے تو اپنی غلطیوں پر مصر رہنا ان کے لئے بڑے نقصان کا باعث ہو گا۔

خصوصی مطالعہ کتب:
1۔ نیاز فتح پوری، ڈاکٹر، من و یزدان
2۔ سبط حسن، پاکستان میں تہذیب کا ارتقاء
3۔ منظور احمد، ڈاکٹر، اسلام چند عصر مسائل، پیس پبلیکیشنز، 2015
4۔ مبارک علی، ڈاکٹر، تاریخ کے نئے زاویے
5۔ منظور احمد، چند فکری مسائل


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments