ڈرٹی پالیٹکس اور امر بالمعروف، پردے کے پیچھے کیا ہے؟


حقائق پر جذباتیت کی تہہ چڑھا کر کیسے مطلوبہ نتائج حاصل کیے جاتے ہیں؟ آواز کے والیم کو بڑھا کر کیسے دلیل کا گلا گھونٹنے کی کوشش کی جاتی ہے؟ تاریخ میں کلٹ لیڈر کیسے وجود میں آتے ہیں؟ کلٹ آف پرسنیلٹی کا بت کن کن مراحل سے گزر کر معرض وجود میں آتا ہے؟ شخصی سحر و جنون کے پیچھے کیا کیا سچ و جھوٹ کی کہانیاں گھڑی جاتی ہیں؟ کیا کلٹ فگرز اس قابل ہوتے ہیں کہ انہیں ہمیشہ ہمیشہ اور حرف آخر کی حیثیت سے انسان کے ذہنی فریم میں مستقل طور پر فکس کر کے سجا دیا جائے؟

آخر یہ پوسٹ ٹروتھ کس چڑیا کا نام ہے؟ یہ وہ بنیادی سوال ہیں جو اہل منطق و عقل و خرد کے ماتھے کا جھومر ہیں جن کے ذریعے سے حقائق تک پہنچنے کی سعی کی جاتی ہے اور آج جو لاتعداد حقائق تاریخی مدفن سے نکل کر ہمارے سامنے موجود ہیں وہ انہی اہل عقل و خرد کی کاوشوں کا نتیجہ ہیں اور ان حقائق پر سے ”مصلحتی مٹی“ جو جان بوجھ کر چڑھائی گئی ہوتی ہے اسے اتارنے کے چکروں میں نہ جانے کتنے اہل منطق کو اس کی بھاری قیمت چکانا پڑی اور یہ روایت آج بھی جوں کی توں چل رہی ہے۔

تبدیلی اور ”اسٹیٹس کو“ کے خاتمے کے نام پر کنٹینر سے سیاسی جدوجہد کا آغاز کرنے والی تحریک انصاف جسے مخصوص نتائج حاصل کرنے کے لیے خاص ”میڈیائی کمپین یا پروٹوکول“ کے ذریعے سے سیاسی اکھاڑے میں زبردستی اتار کر اقتدار حوالے کیا گیا اور تبدیلی کے اس وقتی پیکج سے جو کچھ برآمد ہوا وہ سب کچا چٹھا بھی آج ہمارے سامنے آ چکا ہے جسے اگر ذرا تلخ لہجے میں کوئی نام دیا جائے تو ”فرقہ عمرانیہ“ کہلاتا ہے

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ موجودہ پس منظر میں تحریک انصاف کو ”سچائی کا اسٹینڈرڈ بئرر“ کے مجسمے کے طور پر اور عمران خان کو سچائی اور محب وطن کے ”آفاقی بت“ کے طور پر پیش کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور نہیں لگایا جا رہا ہے؟ کیا ایسا ماحول پیدا کرنے کی کوشش نہیں کی جا رہی ہے کہ ایک ایسا منظر نامہ تشکیل دے دیا جائے کہ خان صاحب اور ان کی پارٹی کے علاوہ جو کچھ بھی ہے وہ سب فریب، دھوکہ اور مایا ہے؟ اور حقائق کی گردن مروڑنے اور درست منظرنامہ کو سموک اسکرین کرنے کے لئے جو ڈرامہ بازیاں جاری ہیں کیا وہ طفل تسلیاں یا مضحکہ خیزیاں نہیں ہیں؟

جب اقتدار میں تھے تو دوسروں کی ذات پر ہر طرح سے کیچڑ اچھالنا اور کردار کشی کے لئے ہر ممکن حد تک جانا جائز ٹھہرتا تھا اور اقتدار سے رخصت ہوتے ہی فارن فنڈنگ کیس، فرح گوگی کا معاملہ اور رجیم چینج کا معاملہ ”اندرونی و بیرونی کانسپریسی“ لگنے لگا کیا یہ کھلا تضاد نہیں ہے؟ کیا اس بات سے راہ فرار کا کوئی وسیلہ ہو سکتا ہے کہ تحریک انصاف میں ان لوگوں کو زیادہ نوازا گیا یا نوازا جاتا ہے جو خان صاحب کا دفاع گالیوں کی حد تک جاکر کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے یا دوسرے لفظوں میں کہیں کہ وہ خان صاحب کا دفاع ”مہذب گالیوں“ کی صورت میں فرماتے ہیں؟

حقائق تک پہنچنے کے لیے آپ ان دس بندوں کی فہرست نکا لیں جنہیں خان صاحب نے حکومت میں ہوتے ہوئے تعریفی اسناد سے نوازا، آپ کو ان کی ذہنی سطح کا پتا چل جائے گا۔ ان تعریفی اسناد حاصل کرنے والوں میں چند لوگ مراد سعید، اسد عمر، شفقت محمود، شیریں مزاری اور شیخ رشید شامل ہیں۔ اب جائزہ لیں کہ ان کی حکومتی کارکردگی کیا ہے سوائے عمران خان کے جھوٹے سچے منصوبوں پر اسمبلی میں کھڑے ہو کر دبنگ انداز میں مہر تصدیق ثبت کرنے کے؟

مراد سعید کی وہ تمام جذباتی تقریریں اقتدار سے پہلے والی اور بعد والی نکال لیں تو آپ کا کھلکھلا کر ہنسنے کو جی چاہے گا اور مراد سعید سے اتنا دریافت کر لیں کہ کیا خان صاحب نے بقول آپ کے سارا ملکی قرضہ آئی ایم ایف کے منہ پر دے مارا یا نہیں؟ اور غیرملکی لوٹا ہوا مال واپس آیا یا نہیں؟ میرے چاہنے والے مجھے اکثر کہتے ہیں کہ آپ سنجیدہ لکھاری ہیں اور ڈرٹی پالیٹکس پر اپنی توانائیاں صرف مت کریں تو میرا ان قارئین سے سوال ہے کہ ایک لکھنے والا اپنے عصر سے غافل کیسے رہ سکتا ہے؟

لوگوں نے تحریک انصاف کو تھرڈ آ پشن کے طور پر اس لئے چنا تھا کہ وہ کچھ بہتر پرفارم کر کے ملک و قوم کی بہتری میں اپنا کردار ادا کریں گے مگر تبدیلی کے نام پر جو نوجوانوں کے ساتھ کھلواڑ ہوا ہے کیا اس پر ”مجرمانہ چپ“ سادھ لی جائے اور عمران خان کی سیاسی پارٹی کو فرقہ عمرانیہ میں منتقل کرنے کے لیے ایک مجرمانہ خاموشی کی صورت میں ایک اور موقع فراہم کر دیا جائے؟ میری نسل کو دولے شاہ کے چوہے بنانے کے لیے ان کے سروں پر عمران خان کے عقیدتی خول چڑھائے جا رہے ہیں تاکہ موجودہ وقت میں وہ خان صاحب کو آنکھیں بند کر کے اپنا مسیحا تسلیم کر لیں اور ہر وقت ان کی آنکھیں مسیحا کی متلاشی رہیں اور وہ خود اپنی صلاحیتوں کو ان مسیحاؤں کی بھینٹ چڑھاتے رہیں۔

کیا ان کا مقدر مسیحا کی تلاش کے گرد ہی گھومتا رہے گا؟ اور چند لوگ ہی اوپر آ کر جذباتی چوہوں کو استعمال کر کے ہماری نسلوں کا یوں ہی استحصال کرتے رہیں گے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو ہر صاحب فکر و نظر کو غور کرنے پر مجبور کرتا ہے اور اگر ہمیشہ کی طرح ہم نے اس سوال کے آگے جذباتی بند باندھنے کی کوشش کی تو آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments