کینچلی چڑھا سانپ



نوید کی زندگی میں سب سے بڑا چھناکا تب ہوا جب کوئی اس کی تنہائیوں میں مخل ہو گیا لیکن یہ انجانے میں نہیں بلکہ مدہوشی کے ایک خاص وقفے کے تسلسل میں جانے بوجھے کو انجانے میں گنوانے سے ہوا تھا۔ ہوا یہ تھا کہ وہ اپنی تنہائی کی یکسانیت سے اکتا کر ایکتا کو اس میں شریک کر بیٹھا تھا۔

وہ اپنی زندگی کو سگریٹ کے مرغولوں سے زیادہ اہمیت نہیں دیتا تھا لیکن ایکتا نہ تو سگریٹ تھی اور نہ ہی مرغولہ کہ جل کر یا تحلیل ہو کر اس کی تنہائی سے نکل جاتی۔ وہ زندگی سے بھرپور لڑکی تھی اور اس کے اکیلے پن کو ہی اس کی تنہائیوں کا سبب جان کر اس کا مداوا کرنے کی خاطر، اس کی زندگی میں شامل ہوئی تھی۔ ایسی بات بھی نہیں تھی کہ وہ اس کے مزاج سے بیگانہ تھی بلکہ وہ اس کے مزاج کو بھی اس کی محرومیوں کے تناظر میں آنکتی تھی۔ ایک روز اس نے اکیلی سڑک کے سناٹے میں، اکیلے ساکت کھجور کے پیڑ تلے اس سے کہا تھا:

” نوید تم شادی کیوں نہیں کر لیتے۔ “
” میں تو اس انسٹیٹیوشن کو ہی نہیں مانتا“ نوید نے زہرخند کرتے ہوئے جواب دیا تھا۔

اسے معلوم تھا کہ اگر وہ مزید بولے گی تو وہ دلیلوں اور تاویلوں کی گنجھلوں میں قصے کو اتنا الجھا دے گا کہ جواب کی بجائے، اس میں سے سوالات کی لاکھ ٹپک کر جم جائے گی۔

” اچھا چلو تو پھر دوستی کر لیتے ہیں۔ “
” میری تو کسی سے دشمنی ہے ہی نہیں، میں تو نفرت کے معانی سے ناآشنا ہوں۔ “

وہ کہنا تو یہ چاہتی تھی کہ اے بے چارہ شخص، جو نفرت کے معانی سے آگاہ نہیں، وہ محبت کی نزاکتوں کو کیا سمجھے گا۔ جو جنگ کی ہولناکیوں سے خائف نہ ہو، وہ امن کی بانسری کی مدھرتا کا رس کیسے پی سکتا ہے لیکن وہ اس کے مزاج کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے ہلکا سا قہقہہ لگا کر اس کے موٹر سائیکل کی عقبی نشست پر بیٹھ گئی تھی اور پھر موٹر سائیکل ہوا سے باتیں کرنے لگی تھی۔

وہ تیز رفتاری سے خائف تھی کیونکہ اس میں زندگی کی ساری فہم ضم تھی جبکہ موت کی جبلت سے ہمکنار نوید زندگی کو پرکاہ کی سی اہمیت نہیں دے رہا تھا مگر وہ پر اعتماد تھی کہ بالآخر اس شخص کو ہوا کے گھوڑے سے اتار کر ہی دم لے گی۔

ایک خطرناک موڑ پر اس نے دانت بھینچتے ہوئے سوچا تھا:

” یہ پاگل کس قدر سرد مہر ہے حتٰی کہ اپنے بارے میں بھی“ مگر لاشعوری طور پر اس کی انگلیوں کا دباؤ نوید کے پیٹ پر بڑھا تو نوید نے ایک سپاٹ قہقہہ لگا کر کہا تھا:

” ڈر گئی ہو نا۔ جینا چاہتی ہو۔“

” نہ ڈرنے کی بھلا بات ہی کون سی رہ گئی تھی لیکن نوید موت سے زیادہ موت کی تکلیف کا احساس زیادہ بھیانک ہوتا ہے۔ “

نوید کے جسم میں ایک سرد لہر دوڑ گئی تھی اور اس نے موٹر سائیکل کی رفتار مناسب کر دی تھی۔

پھر ایک روز جب نوید کو لگا کہ ایکتا تو اس کی تنہائی میں شرکت کرنے کو آمادہ ہے تو اس نے اس پر مجرمانہ حملہ کرنے کا ڈرامہ بھی رچایا تھا۔ وہ تب کس قدر خوفزدہ ہو گئی تھی۔ وہ فی الواقعی خدا رسول کے واسطے دے رہی تھی جبکہ خدا اور رسول سے منکر نوید اپنے اندر بہت زیادہ ڈرا ہوا اور ملائم صفت تھا، وہ خود اندر ہی اندر کانپ رہا تھا۔ وہ رت جگے سے دکھتی انکھوں میں بلب کی چبھتی ہوئی روشنی کو گل کرنے کے لیے مڑا ہی تھا کہ ایکتا ہوا کے تیز جھونکے کی طرح کھڑکی کھول کے غائب ہو گئی تھی۔ وہ کتنا سہما تھا۔ کس قدر بے قرار ہوا تھا۔ وہ اپنے مرتبے سے بے نیاز ہو کر کس طرح سڑک پر ادھر سے ادھر اور ادھر سے ادھر دوڑا پھرا تھا، مگر اس کا سراغ نہ پا سکا تھا۔ نوید نے ایکتا کی خیریت معلوم کرنے کے لیے کیا کیا جتن نہیں کیے تھے۔

وہ ازدواجی زندگی کو جسمانی آلائشوں کی منتقلی سے موسوم کرتا تھا۔ ایک بستر پہ لیٹے دو انسانوں کے رشتے کو پیٹ کی گڑگڑاہٹوں اور لمس کی چپچپاہٹوں سے آلودہ جانتا تھا لیکن یہ جذباتی بے حسی اس کی عقلی حساسیت کا کیموفلاج تھی۔ وہ تمام رسموں، بندھنوں اور اداروں سے بغاوت کر کے انہیں توڑنا چاہتا تھا اور نتائج سے ماورا ہو کر انہیں توڑتا بھی تھا لیکن کسی دوسرے انسان کو محض اپنی ذات کی خاطر ایسا کرنے پر ہرگز نہیں اکسا سکتا تھا۔

وہ سوچتا تھا کہ ایک عام مذہبی متوسط گھرانے کی لڑکی جو اپنے خواب بھی رکھتی ہے، بھلا اسے کیا حق پہنچتا ہے کہ اس کے خواب توڑے۔ وہ ہر طرح کے استحصال سے سعود کرنا چاہتا تھا۔ یہ تو اسے بہت بعد میں جا کر معلوم ہوا تھا کہ لفظ استحصال کا بھی کئی طرح سے استحصال ہوتا رہتا ہے۔ بہرحال تب تو وہ اس کے ہاتھوں پہ مہندی رچانے، سہیلیوں سکھیوں میں بیاہ کے گیت گائے جانے اور الوداعی کے رقت آمیز منظر سے اسے ہمکنار نہ کرنے سے ہولایا رہتا تھا۔

ایکتا کی شرکت ایک نیا رنگ اختیار کرتی جا رہی تھی۔ وہ اسے ایک ہی وقت میں دوست بھی سمجھتا، بیٹی اور بہن بھی حتٰی کہ ماں کا ایک روپ بھی۔ جب مختلف طرح کی سوچیں سوچ سوچ کر اس کے دماغ کی گراریاں گھسنے لگیں اور نیند تقریباً روٹھ گئی تو بالآخر اس نے ایکتا سے کہہ دیا، ”یار اس فلم کی ریل کو تیز چلانا چاہیے“ یہ کہتے ہوئے وہ ڈرا بھی تھا کہ ریل تیز چلانے سے ٹوٹ بھی جایا کرتی ہے۔

نوید کا ایک ایکسیڈنٹ ہو چکا تھا اور اس کے دائیں ہاتھ کی پشت کی تین ہڈیاں ٹوٹ چکی تھیں۔ ایکتا اس کی دوستانہ خدمت میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھتی تھی حتٰی کہ گردن موڑ کر اس کی شلوار کا ازاربند تک باندھ دیا کرتی۔ وہ دونوں ہسپتال کے ٹی وی لاؤنج میں بیٹھے رہتے اور بس رات کو جدا ہوا کرتے۔

نہ تو انہیں دنیا والوں کی باتوں کا احساس تھا اور نہ ہی آنے والے وقت کی فکر۔ لاؤنج سے اٹھ کر ڈاکٹروں کی اجازت کے بغیر سینما گھروں، ریستورانوں اور پارکوں میں پیار کی تتلیاں اڑاتے پھرتے تھے۔

نوید تو پہلے ہی ایک روز اسے اپنے بڑے بھائی سے متعارف کروا کر ایکتا سے شادی کروانے کا مطالبہ کر بیٹھا تھا۔ بڑے بھائی نے جب اسے رشتوں کی اونچ نیچ سمجھانے کی کوشش کی تو اس نے ڈھٹائی سے کہہ دیا تھا کہ جب میں نوین سے پیار کرتا تھا ( حقیقت یہ ہے کہ وہ اسے پیار کی بجائے ہمدردی کا نام دیا کرتا تھا ) تو آپ نے اس کی دوسری جگہ شادی ہو جانے دی تب میں نے منشیات کا سہارا لیا وغیرہ وغیرہ۔ بھائی نے اپنے غصے کو قابو کرتے ہوئے کہا تھا، ”کہہ تو ایسے رہے ہو جیسے کوئی کارنامہ سرانجام دیا ہو، بہرحال جو کہو گے اسی طرح کر لیں گے۔ “

جن دنوں وہ دونوں ہسپتال سے اڑنچھو ہو کر اڑتے پھرتے تھے تب باتیں خوشبو کی طرح اڑ کر ایکتا کے ماں باپ کے شہر میں جا پہنچی تھیں تو ایکتا کی ماں سچ جاننے کے لیے اس شہر پہنچی جہاں دونوں کا ٹھکانہ تھا۔

وہ ماں کے آنے پر بہت ڈری ہوئی تھی لیکن نوید نے کہا کہ میں تمہارے ساتھ تمہاری ماں سے ملنے جاؤں گا۔ پھر وہ زندگی میں پہلی بار اطاعت شعار بیٹے کی طرح اس کی ماں سے ملا تھا۔ ”خالہ آپ کی عزت میری عزت“ اس ایک ہی فقرے میں اس نے نہ صرف سب کچھ کہہ ڈالا تھا بلکہ فیصلہ سنا دیا تھا۔

پھر منگنی طے ہو گئی۔ اب جب وہ اپنے والدین کے گھر جا بیٹھی تو نوید کی تنہائی ایک بار پھر مصفا ہوئی۔ اسے شدت سے اپنی مصفا تنہائی میں ایکتا کی آلودگی کا احساس ہوا تھا۔ تب اس نے اسے اس قدر متلی آور خطوط لکھے کہ اگر وہ کوئی عام لڑکی ہوتی تو اوبھ اوبھ جاتی لیکن اس نے اپنے جوابی خطوط میں دعا سلام کے علاوہ دم سادھے رکھا تھا۔

بارہا نوید کو یہ احساس ہوا کہ ایکتا معاشرے سے خوفزدہ ہے اور منگنی کو شادی میں بدلنا چاہتی ہے لیکن وہ اسے جانتا بھی تو تھا اور شاید اس کے بھی لاشعور میں اس کے لیے مسلسل چیلنج بنے رہنا ہی سمایا ہوا تھا۔

شادی کے روز نوید نے مدہوشی کا لبادہ اوڑھے رکھا۔ لوگوں کے لیے اچنبھا بنا رہا۔ نکاح خوان نوید کی گھرکیوں سے گھبرا کے قبول، قبول، قبول کی تکرار کی بجائے ”شادی طے پائی“ پر ہی اکتفا کر گیا تھا۔

جب نوید کو زنانے میں لے جایا گیا تو دلہن کے پہلو میں بیٹھے ہوئے اس نے عجیب و غریب حرکات کیں۔ یقیناً چہ میگوئیاں ہوئی ہوں گی مگر ایکتا بھی اعتماد کی پوشاک اوڑھے سب کچھ سہ گئی۔

پھر اس نے ایکتا کو اپنی حرکتوں کا شریک کر لیا۔ سماج سے بغاوت، رواجوں سے نفرت اور انسانوں سے محبت کرنے کا درس دیتا رہا۔ اپنے تمام کمپلیکسز کی تسکین کا نشانہ ایکتا کو ہی بناتا اور وہ بھی اس کے تجربوں کی بھٹی میں جل کر کندن بنتی رہی۔ اس نے نشہ بازوں سے لے کر انقلابیوں تک سبھوں کے نخرے سہے۔ نشہ باز جو عارضی سکون کے متلاشی تھے اور انقلابی جو مستقل اور اجتماعی مفاد کے خواب بنتے تھے۔

لیکن جب پہلے بچے کی پیدائش کے بعد ایک ایک دو گیارہ سے تین تینتیس ہو گئے تو نوید کے نکھٹو پن، سرد مہر طبیعت، عزیزوں، رشتہ داروں سے لاتعلقی، دنیاداری سے فرار اور اسی قبیل کے دوسرے اعمال نے مل کر ایکتا اور نوید کے درمیان رنجش کے تانے بانے بننا شروع کر دیے۔

وہ ایکتا کے بدنی نقائص سے لے کر جذباتی کم مائیگی تک یعنی جس طرح بھی ہو سکتا تھا، کھل کھیلتا تھا۔ نشتر زنی اور کچوکے دینے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیتا۔ آہستہ آہستہ وہ بھی تڑخنے لگی تھی۔ اس کے اندر کے لاوے سے گھبرا کر نوید نے اپنے اندر سمٹنا شروع کر دیا تھا۔

اب دوسرا حربہ استعمال کرنے کی باری تھی۔ نوید نے معاشرتی فرائض کے علاوہ معاشی فرائض کی سرانجام دہی بھی اس کے سر پہ ڈال دی تھی۔ اپنی ہر قسم کی حرکتوں اور ہر قسم کے دوستوں کو اپنے بیڈ روم تک لے آیا تھا۔

جب ایک مخصوص قبیل کے مخصوص شناسا کی جانب ایکتا کے بڑھتے میلان کو دیکھا تو نوید کی ساری ازاد خیالی اور وسیع النظری ہوا ہو گئی۔ وہ ایکتا کو زمانے کے اتار چڑھاؤ سمجھانے کی کوشش کرنے لگا۔ لیکن پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا تھا۔ عورت کو مرد کے برابر لانے کی کوشش نوید کی اپنے خلاف ہی کی ایک سازش ثابت ہوئی۔ تب تو وہ بالکل ہی مختلف شخص بن گیا تھا جب ایکتا نے اپنی آزادیوں اور اپنے حقوق کا موازنہ اس کی آزادیوں اور اس کے حقوق سے کرنا اور ساتھ ہی اسے اپنے فرائض سے لا توجہی کا متشدد طریقہ سے احساس دلانا شروع کیا تھا۔

روز روز کے آپسی جھگڑے انہیں ایک دوسرے سے دور کھینچے چلے جا رہے تھے لیکن اب ان دونوں میں کوئی بھی کسی کے لیے چیلنج نہیں رہا تھا۔ بچ رہی تھیں تو دونوں کی اپنی اپنی تنہائیاں۔ مگر اب نوید اپنی تنہائیوں کو حقیقی تنہائی کے طور پر تسلیم کرنے سے عاری ہو چکا تھا کیونکہ اس تنہائی میں برسوں کی مثبت اور منفی یادوں کے علاوہ دو بچوں کے چہرے بھی جگنووں کی طرح جلتے بجھتے دکھائی دیتے تھے۔ اب تنہائی کینچلی چڑھا سانپ بن چکی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments