قبراں اڈیکدیاں مینوں


آج پنجابی کے نام ور جوان مرگ شاعر شیو کمار بٹالوی کی انچاسویں برسی ہے، اس موقع پر ایک تحریر۔ تحریر میں پنجابی شاعری بغیر ترجمے کے دی گئی ہے، اور صرف پنجابی جاننے والے افراد ہی اس سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔

لفظ بے جان ’بے صوت اور بے حس نہیں ہوتے اور نہ ہی منافق۔ ان کے اندر جذبے سانس لیتے ہیں۔ لفظوں اور جملوں کو جنم دیتے وقت لکھنے والا جس نفسیاتی کیفیت میں ہوتا ہے وہی لفظوں کا ابلاغی ورثہ قرار پاتی ہے۔ کتابوں میں سوئے ہوئے جملوں کو جب بھی جگایا جائے گا‘ وہ اسی ہجر کی ’وصال کی‘ درد کی اور خوشی یا رنج کی کیفیات کی ترسیل کریں گے جن کی گرفت میں لکھنے والے تخلیق کے وقت تھا۔ جملوں کی فطرت نہیں بدلتی ’وہ اپنے اصل سے جڑے رہتے ہیں۔ اگر کوئی تحریر آپ پر کسی قسم کے جذباتی اثرات مرتب نہیں کر رہی تو دو ہی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ یا تو آپ کے ٹرانسمیٹر کی Reception کمزور اور ناقص ہے یا پھر لکھنے والا کاروباری ہے اور لکھتے وقت وہ فقط اپنی ضروریات یا شہوت نام وری کا منشی تھا۔

بہر حال میں سچے لفظوں کی بات کر رہا ہوں ’اندر کی کیفیات سے شرابور ہو کر نطق قلم تک آتے لفظ۔ ایسے لفظوں کو جب سروں کے پانی میں گوندھ کر‘ تال کا ہلکا سا نمک ملایا جائے اور گائیکی کی دھیمی دھیمی آنچ پر پکا کر پیش کیا جائے تو لذت اور اثر پذیری دو چند بلکہ سہ چند ہو جاتی ہے۔

کم و بیش تیس برس پہلے گایا گیا نصرت فتح علی خاں کا وہ گیت آج بھی سننے والے کے اندر کو اسی ٹوٹ پھوٹ کا شکار کر دیتا ہے جس کا اسیر ان بولوں کو لکھنے والا عمر بھر رہا۔ میری مراد ”مائے نی مائے میرے گیتاں دے نیناں وچ برہوں دی رڑک پوے“ سے ہے۔

خاص لوگ شروع ہی سے خاص ہوتے ہیں۔ تھوڑے عرصے کے لئے تختۂ زمین پر اترتے ہیں۔ اپنے حصے کا درد اٹھا کر، دنیاوی کامیابیاں سمیٹتے اور لوح زمیں پر اپنے نام کی مہر ثبت کر کے چلے جاتے ہیں۔ شو کمار بٹالوی بھی دو ماہ کم 36 برس کی عمر لے کر دنیا میں آیا۔ اپنے گیتوں میں ’ناٹکوں کے منظر ناموں میں اور شعروں میں وہ درد پرو کر چلا گیا جس کی کسک پڑھنے‘ سننے والے اب بھی اسی شدت سے محسوس کرتے ہیں۔

اس کی تاریخ پیدائش 23 جولائی بتائی جاتی ہے تاہم میٹرک کی سند پر 23 اکتوبر 1937 ءلکھی ہے۔ پاکستانی پنجاب کی تحصیل شکر گڑھ کے ”بڑا پنڈ“ میں پنڈت کرشن گوپال کے گھر پیدا ہوا۔ وہ ایسی روح تھا جسے اس جہاں میں بھیجنے سے پہلے یادداشت محو نہیں کی گئی تھی۔ اس کی یادوں میں وہ عالم پوری طرح جاگتا تھا جہاں سے وہ زمین پر مٹی کے کلبوت میں اتارا گیا۔ اسی لیے وہ یہاں گزرے 36 برس وچھوڑے کی آگ میں سلگتا رہا۔ 1953 ء میں میٹرک اور پھر کرسچن کالج بٹالہ میں ایف ایس سی کے لئے داخلہ۔ وہ ایف ایس سی ’جو وہ کبھی نہ کر سکا مگر اس کالج میں اس نے اپنے اندر کی ٹیسوں بھری نظم دریافت کر لی۔ اس کے اندر کوئی درد کی بھٹی دہک رہی تھی جہاں سے بھاپ بن کر شعر اٹھتے۔

کی پچھدے او حال فقیراں دا
ساڈا ندیوں وچھڑیاں نیراں دا

اس کے معمولات بچپن سے ہی ہٹ کر تھے۔ ماں کی گود چھوڑ کر وہ فطرت کی آغوش تلاشا کرتا۔ پورا دن غائب رہنے پر ڈھونڈنے والے اس تک پہنچتے تو وہ کبھی درختوں کے کنج میں ’کبھی دریا کے کنارے اور کبھی پرانے مندر کی دیوار کے ساتھ لیٹا کھلی آنکھوں سے سپنے دیکھتا پایا جاتا۔ وہ منظوم داستانیں کہنے والوں کو بے خود ہو کر ٹکر ٹکر دیکھتا۔ جوگی کی بین پر جھومتے سانپوں کے ساتھ مسحور ہوتا۔ پتہ نہیں وہ کن سروں کی تلاش میں تھا۔ پھر کالج پہنچ کر اس نے اپنا سچ دریافت کر ہی لیا۔

گوتم کی خلوت نشینی اور شوکی جلوت میں خلوت نے ایک ہی سچ دریافت کیا کہ یہ دنیا دکھوں کا گھر ہے۔ اپنا اپنا نصیب ہے کسی کو محل اور گھر بار تیاگ کر سچ تک رسائی ملتی ہے اور کوئی چلتے پھرتے پا لیتا ہے۔ گوتم کی طرح شو کمار بٹالوی نے بھی دکھوں کو کھوجا اور پھر ان کی تبلیغ کی۔ 1960 ء میں اس کی نظموں کا پہلا مجموعہ ”پیڑاں دا پراگہ“ کے نام سے شائع ہوا۔

بیج ناتھ کے میلے میں اسے ”مینا“ ملی۔ ایک الہڑ اور مکمل دوشیزہ۔ شو کی بے چینیوں کے جوار بھاٹا میں سکوت گھلنے لگا ’درد کی ٹیسوں میں افاقہ ہوا اور وچھوڑے کا کرب وقتی طور پر جیسے درد کش دوا کے زیر اثر آ گیا مگر یہ وقفہ بڑا ہی عارضی تھا۔ مینا کو ٹائی فائیڈ ہو ا اور پھر وہ بھری جوانی میں مر گئی۔ یہ موت سے شو کا پہلا تعارف تھا۔ اب وہ شعروں میں موت کاڑھنے لگا۔ درد کے اسپ کو جیسے مہمیز لگ گئی اور وہ اس راہ کی کھوج میں لگ گیا جہاں مینا سفر کر گئی تھی۔

پٹھی والئے چنبے دیے ڈالئے ’
پیڑاں دا پراگہ بھن دے
تینوں دیاں ہنجواں دا بھاڑا
پیڑاں دا پراگہ بھن دے
چھیتی چھیتی کریں ’میں تے جانا بڑی دور نی
جتھے میرے ہانیاں دا ٹر گیا پور نی
اس پنڈ دا سنی دا راہ ہاڑا نی
پیڑاں دا پراگہ بھن دے
سوں گئیاں ہواواں رو رو کر ورلاپ نی
تاریاں نوں چڑھ گیا مٹھا مٹھا تاپ نی
جنج ساہواں دی دا رس گیا لاڑا۔
پیڑاں دا پراگہ بھن دے

ہندوستان کا سب سے بڑا ادبی ایوارڈ ”ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ“ حاصل کرنے والا وہ سب سے کم عمر شاعر اور ڈرامہ نگار تھا۔ ”لوٹا“ کے زیر عنوان اس نے مینا کا ہجر گوندھ کر ڈرامہ لکھا جسے یہ ایوارڈ دیا گیا۔ کئی برسوں بعد موت اور درد کے اس مبلغ کو اک ذرا سہارا بڑے گھر کی لڑکی سے ملا تاہم وہ بھی اسے چھوڑ کر پردیس سدھار گئی۔ اس نے 1967 ءمیں ارونا سے شادی بھی کی۔ ایک بیٹا مہربان اور بیٹی پوجا پیدا ہوئے۔ طویل قامت گورے چٹے شو کمار بٹالوی کو بڑی محبت ملی۔ وہ سٹیج سے نظم پڑھ کر اترتا تو کالجوں کی لڑکیاں اس کے ہاتھ چومتیں ’واری صدقے جاتیں مگر شو پھر کسی عورت کو نہ چاہ سکا۔ وہ کہتا تھا ”مکمل عورت تو مینا تھی‘ باقی سب تو ٹکڑوں میں بٹی ہوئی ہیں۔ کسی کے ہاتھ اچھے ہیں ’کسی کے پیر اور کسی کے بال‘ میں ٹکڑوں میں پیار نہیں کر سکتا“ ۔

دنیاوی عشق میں ناکامی کے بعد شو کو دراصل حسن کل کا عشق میسر آ گیا تھا۔ اس کا ظرف بڑا تھا ’اس نے انا الحق کا نعرہ نہیں لگایا۔ وہ کہتا تھا ”میں خود سے کچھ نہیں کہتا‘ جو لکھتا ہوں ’دراصل خدا مجھ سے لکھواتا ہے۔ میرا کچھ نہیں‘ سبھی اس کا ہے“ ۔ انہی کیفیات میں درد سہتا اور ٹیسیں بانٹتا ’عمر کے چھتیس سال پورے ہونے سے بھی دو ماہ پہلے شو کمار بٹالوی وہاں چلا گیا جہاں سب کو لوٹ کر جانا ہے۔ 6 مئی 1973 ء کو پنجابی کے اس عظیم شاعر اور ڈرامہ نگار کا دیہانت ہوا جس کے سچے جذبوں کی آنچ پر پک کر شعروں اور مکالموں میں ڈھلتے لفظ آج بھی درد اور وچھوڑے کی ترسیل کرتے ہیں۔

اس مئی میں اسے گئے انچاس برس ہو گئے ہیں جسے یہ دنیا درد کا گھر اور قبر ماں لگتی تھی۔ اسے پتہ تھا کہ بھری جوانی میں اسے ماں کے پاس لوٹ کے جانا ہے اسی لئے کہتا تھا

شکر دوپہر سر تے میرا ڈھل چلیا پرچھانواں
قبراں اڈیکدیاں مینوں جیوں پتراں نوں مانواں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments