سندھ دیس کی دھرتی پر


زبردست ویت نامی کھانا کھایا تھا ہم لوگوں نے۔ سوپ سے لے کر جھینگے اور بانس کے پھول سے لے کر بطخ تک ہر چیز نفیس اور مزے دار تھی۔ ساتھ میں میکسیکو کا مشہور وائن مریا ماریا۔ کھانے کا مزہ آ گیا تھا۔ بہت دنوں بعد سیر ہو کر کھایا اور مزے لے کر شراب پی تھی میں نے۔

وہ دلچسپ آدمی تھے میرا دل چاہتا تھا وہ بولتے رہیں اور میں سنتا رہوں۔ دنیا بھر کی باتیں کی تھیں انہوں نے۔ امریکا کی سیاس میں عیسائیوں کا کتنا اثر تھا، یہودی کیا کر رہے تھے، امریکن فٹ بال میں کون سا شہر جیت رہا ہے، آئندہ امریکن الیکشن میں کون جیتے گا، یورپ امریکا سے کیوں ناراض ہے، برطانیہ کیوں امریکا کے ساتھ ہے، لیڈی ڈیانا طلاق کے بعد کیا کرے گی، چین سپر طاقت کب بنے گا، بیس بال میں کیا ہو رہا ہے، ہالی وڈ کی کون سی فلم نے کتنا کمایا ہے، مادھوری ڈکشٹ کی شادی کیوں نہیں ہو رہی اور عمران خان نے کس کس سے معاشقہ چلایا تھا اور جاوید میاں داد کیوں بہت بڑا کھلاڑی ہے۔ وہ سرور میں بولتے رہے تھے۔ میں سرور میں سنتا رہا تھا۔ ان سے دوستی پکی ہو گئی تھی آپ سے تم ہوتے ہوتے زیادہ دیر نہیں لگی تھی۔

افضل کا ٹرانسپورٹ کا کاروبار تھا آہستہ آہستہ نیویارک سے پھیل کر دوسرے شہروں تک چلا گیا تھا۔ جب وہ نیویارک پہنچا تو دمڑی نہیں تھی اس کے پاس۔ سیاسی پناہ کی درخواست آسانی سے قبول ہو گئی اور ایک ٹیکسی کی کمپنی میں نوکری بھی مل گئی تھی۔ جس کے بعد وہ ایک ٹرانسپورٹ کمپنی میں چلا گیا تھا۔ شروع شروع میں تو بیس بیس اور بائیس بائیس گھنٹے کام کرتا رہا اور چھٹی کا نام تک نہیں لیا تھا۔ وہیں اس کی ملاقات جاش سے ہوئی تھی جو وہاں اکاؤنٹینٹ تھا۔ اس یہودی کی دوستی اسے خوب راس آئی تھی۔ بچت کیے ہوئے ڈالروں اور جاش کے مشوروں سے اس نے نیویارک مارکیٹ میں پیسے لگانا شروع کیے تھے اور تھوڑا سرمایہ کما لیا تھا کہ کمپنی والوں نے اسے پارٹنر بنالیا۔ کمپنی تیزی سے پھیلتی گئی اور پھیل رہی تھی اور زندگی اب خوب گزر رہی تھی۔

وہ نیویارک کے ایک مہنگے علاقے میں ایک کنڈومونیم میں رہتا تھا۔ شادی نہیں کی تھی۔ شروع شروع میں کام کی وجہ سے لڑکیوں اور عورتوں کی طرف توجہ نہیں دی تھی، ”بعد میں کئی عورتیں زندگی میں آئیں اور آ کر چلی گئیں، جو بیوی بننے کے قابل تھیں انہوں نے بیوی بننے سے انکار کر دیا۔ جو بیوی بننا چاہتی تھیں ان کا شوہر میں بن نہیں سکتا تھا۔“ یہ کہہ کر وہزور سے ہنسا تھا۔ ”زندگی گزر جائے گی یار۔ یہاں بڈھوں کو جوان اولادوں کی ضرورت نہیں ہے۔ انشورنس ہے تو بھی عزت سے ہی موت ہوگی اور انشورنس نہیں ہے تب بھی عزت سے ہی موت ہوگی۔ پھر اپنی مرضی کے بغیر کوئی کیوں کسی کی غلامی کرے۔ مرضی جب تھی تو کوئی ملا نہیں او جب ایسا نہیں ملا جس کی غلامی کا شوق ہو تو ایسوں کی غلامی کیا کرنا؟“

بات شاید صحیح تھی لیکن مزید اس موضوع پر کوئی بات نہیں ہوئی تھی۔

پھر ملاقاتیں ہوتی رہی تھیں۔ افضل کے کہنے سے میں نے ایک کمپیوٹر کمپنی میں نوکری پکڑ لی جہاں ترقی کے زبردست مواقع تھے۔ کمپنی میں پہلی ترقی کے فوراً بعد میں نے افضل کی دعوت کی تھی۔ میں نیویارک اور نیوجرسی کے سرحد پر رہتا تھا۔ چھوٹا سا گھر تھا میرا، وہیں میں نے افضل کو بلایا تھا۔ پاکستانی کھانے بنائے تھے۔ بڈوائزر کا مناسب انتظام تھا اور کھانے کے ساتھ سرخ اور سفید وائن۔ افضل کا شکریہ اسی طرح سے ادا ہو سکتا تھا۔

باتوں باتوں میں افضل نے بتایا تھا کہ بھٹو صاحب کی موت کے بعد بڑی کٹھن زندگی گزاری تھی اس نے۔ کالج کے زمانے سے ہی وہ پیپلز پارٹی میں تھا۔

”بڑی محنت کی تھی ہم لوگوں نے پیپلز پارٹی کے لیے۔ اس زمانے میں، میں کراچی یونیورسٹی میں تھا اور کراچی میں کفر و اسلام کی جنگ ہو رہی تھی۔ جماعت اسلامی اور جمعیت والوں نے سارے شہر پر قبضہ کیا ہوا تھا۔ جیکب لائنز کے مولوی احتشام الحق تھانوی نے تین سو تیرہ مولویوں کے دستخط سے پیپلز پارٹی کے خلاف کفر کا فتویٰ لکھ دیا تھا۔ سوشلزم کی بات کرنے والے بھٹو، بھاشانی، ولی خان کے ساتھی کافر ہیں۔ یہ فتویٰ لگایا گیا تھا اس وقت کے پاکستان میں ان لوگوں پر جو تبدیلی چاہتے تھے جو عوام کے لیے روٹی، کپڑا، مکان مانگ رہے تھے۔

ہم لوگ تو بھٹو صاحب کے دیوانے تھے۔ ایک خواب دکھایا تھا اس نے۔ آرمی والوں سے نجات کا خواب، سرمایہ داروں، جاگیرداروں سے نجات کا خواب، میروں پیروں سے آزادی کا خواب، ایک ایسے وطن کا خواب جہاں بہنوں کے سروں سے چادریں نہیں کھینچی جائیں گی، جہاں مائیں رو رو کر بیٹوں کا انتظار نہیں کریں گی، جہاں بچے بھکاری نہیں ہوں گے۔ ہم لوگ خود چندہ جمع کرتے تھے، بینر لگاتے تھے، پوسٹر چھاپتے تھے، راتوں کو دیواروں پر نعرے لکھتے تھے۔

بھٹو ساڈا شیر ہے، یا مانگ رہا ہے ہر انسان روٹی کپڑا اور مکان۔ پھر الیکشن بھی ہوئے۔ بھٹو صاحب اور مجیب صاحب الیکشن جیت گئے مگر پھر پاکستان پاکستان نہ رہا۔ مغربی پاکستان، پاکستان اور مشرقی بنگلہ دیش بن گیا۔ یہ سب کچھ بہت تیزی سے یکایک ہو گیا تھا۔ یہ کہہ کر وہ تھوڑی دیر کے لیے خاموش ہو گیا تھا جیسے آنسو چھپانے کی کوشش کر رہا ہو۔ شدید کرب تھا اس کے چہرے پر۔ ویران آنکھیں ایسی ہوتی ہوں گی، میں نے سوچا تھا۔

”ضیاء الحق کا زمانہ تو بہت ہی خراب تھا۔“ وہ رک رک کر بولا۔ ”سندھ پر تو جیسے عذاب آ گیا تھا۔ سندھ کے گاؤں اجڑ گئے۔ جو علاقہ بھی تھا وہ لاڑکانے کے قبرستان کی طرح ہو گیا تھا۔ نہ جانے کتنے جیلوں میں گئے اور نہ جانے کتنے غائب ہو گئے۔ تاریک راہوں میں مارے گئے اور بھٹو صاحب کے دوستوں نے فوجیوں کے ساتھ عشق و عاشقی کا بازار گرم رکھا۔ ہمارے جیسے لوگوں سے جیل بھرتے چلے گئے۔ سکھر جیل سے مچھ جیل تک۔ میں آج بھی راتوں کو خراب خواب دیکھتے دیکھتے چونک جاتا ہوں اور جیل کی دیواریں، پیٹھ پر پڑتے ہوئے ہنٹر، لوہے کی بیڑیاں، سگریٹ سے داغے ہوئے جسم۔ پاکستان کی جیلوں نے میرے اندر کے آدمی کو مار دیا تھا۔ میں بھی وحشی ہو گیا تھا، وحشی۔ جیل تو یہی کرتا ہے اندر سے توڑ دیتا ہے، اپنی ہی عزت کو اپنی ہی نظروں میں ختم کر دیتا ہے۔ یہی سب کچھ ہوا تھا میرے ساتھ۔ میرے اندر کا انسان اتنی ذاتی بے عزتی برداشت نہیں کر سکا تھا۔ حیوان سا بن گیا تھا میں۔“

”جیل سے نکل کر میں گھر والوں سے نہیں ملنے گیا۔ کیا شکل لے کر جاتا ان کے پاس؟ سگریٹ سے جلے ہوئے ہونٹ، اکھڑے ہوئے ناخن، ہنٹروں کے نشان۔ ماں باپ زندہ ہوتے اور دیکھتے تو بے ہوش ہو جاتے۔ ایک بھائی اور ایک بہن کے پاس جانے کی ہمت نہیں ہوئی۔ کہتے ہیں سیاسی قیدی آزاد ہوتا ہے تو بڑا مغرور ہوتا ہے مگر مجھے نہ جانے کیا ہو گیا تھا۔ کسی بات پر شرمندگی نہیں تھی مگر ہمت بھی نہیں تھی، اتنی بھی نہیں کہ ماں باپ کی قبر پر جاکر فاتحہ پڑھ لیتا، کیا سوچتے وہ لوگ، کیا بنانا چاہتے تھے مجھے، کیا بن گیا تھا میں؟“

”پیپلز پارٹی کے کسی بڑے لیڈر نے مدد نہیں کی میری۔ ہم چار دوستوں نے نہ جانے کس طرح سرحد پار کر کے افغانستان میں پناہ لی پھر ایران، ترکی سے ہوتے ہوئے جرمنی پہنچے تھے۔ جرمنی میں سیاسی پناہ ملی تھی، تو پھر میں امریکا آ گیا تھا۔ گھر والوں سے بات کرنے کی ہمت نہیں تھی مجھ میں۔ ویسے بھی گھر میں کون تھا میرا۔ والد بچپن میں ہی مر گئے تھے، ایک ماں تھی جو بہت دنوں تک جیلوں کے چکر کاٹتی رہی تھی۔ میں جیل میں ہی تھا جب ان کا انتقال ہو گیا تھا۔“

”گھر پر کسی رشتے دار نے قبضہ کر لیا ہو گا اور میں سننے کی ہمت نہیں رکھتا تھا کہ کس طرح سے میری ماں مجھے یاد کر کے مرگئی۔ ایک بار جب وطن چھوٹ گیا، جب ہمارا لیڈر ہی مر گیا تو پھر ہر ملک میرا ملک ہے اور ہر وطن میرا وطن۔ سوچتا تھا کہ جب ضیاء مرے گا تو پاکستان چلا جاؤں گا۔ اپنا وطن پھر اپنا ہی وطن ہے، میں سمجھا تو یہی تھا۔“

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments