زندہ بدست مردہ


یہ لگ بھگ دو مہینے پرانی بات ہے، میں رات کو گلی میں چہل قدمی کر رہا تھا کہ کارنر والے گھر سے اچانک شامی صاحب نکلے اور مجھے تقریباً حکم دیتے ہوئے کہنے لگے قیصرانی صاحب آ جائیے ابا جی فوت ہو گئے ہیں۔ ان کا انداز ایسا تھا جیسے میں ابا جی کے فوت ہونے کے انتظار میں گلی میں چہل قدمی کر رہا تھا۔ شامی صاحب کہنے کو تو ہمارے ہمسائے تھے مگر گلی میں کسی سے بھی ان کا میل جول نہیں تھا۔ ہاں البتہ گلی میں چہل قدمی کے دوران کبھی آمنا سامنا ہوا تو مجھے سلام ضرور کر لیتے تھے۔ گلی میں تقریباً سارے گھر پانچ یا دس مرلہ کے ہیں مگر شامی صاحب کا گھر البتہ دو کنال سے زائد رقبہ پر ہے۔ کسی کو بھی صحیح اندازہ نہیں کہ شامی صاحب کیا کرتے ہیں مگر مشہور یہی کہ کئی فیکٹریوں کے مالک ہیں۔

خیر شامی صاحب کے ”حکم کی تعمیل“ میں ان کے گھر میں داخل ہوا۔ سامنے لان میں سٹریچر پر ڈیڈ باڈی رکھی ہوئی تھی۔ میں نے پوچھا گھر میں کوئی اور بندہ نہیں ہے؟ کہنے لگے بچے ہیں مگر ان کا ڈیڈ باڈیز کا زیادہ ایکسپوژر نہیں اس لیے تھوڑا ڈرتے ہیں۔ کوئی رشتہ دار وغیرہ؟ کہتے ایک بھائی اور بہن امریکہ میں ہیں۔ کچھ رشتہ دار ہیں ان کو فون کر دیا ہے۔ کیا ہوا تھا مرحوم کو ؟ میں نے پوچھا۔ کل تھوڑا طبیعت خراب ہوئی تو فلاں پرائیویٹ ہسپتال لے گیا۔

میں نے کہا اتنی دور گئے قریب ہی میو ہسپتال میں داخل کرا دیتے۔ کہنے لگے وہ تو ٹھیک ہے مگر شہر میں میرا بھی کوئی معیار ہے۔ اس لیے معیوب لگتا کسی کو بتاتے ہوئے کہ ابا جی کو سرکاری ہسپتال میں داخل کرایا۔ پھر بچوں کے بھی کئی دوست احباب۔ ان کا بھی یہی مشورہ کہ ہم کسی دوست کو کیسے سرکاری ہسپتال میں بلائیں گے۔ کہنے لگے خیر چھوڑیں اب جو ہونا تھا ہو گیا۔ دراصل میں نے آپ سے اس موقع کی ایس او پیز کے بارے میں مشورہ کرنا تھا۔

میں نے کہا ایس او پیز نہیں رسومات کہتے۔ کہنے لگے وہی۔ کہتے کیا ایسا ممکن کہ ہم سب کچھ outsource کر دیں؟ میں نے کہا قبر کی تیاری تو ہو جائے گی مگر جنازہ، قل خوانی کے لیے شہر میں ایسی کوئی سہولت میسر نہیں۔ اچانک مجھے خیال آیا ڈیڈ باڈی کے اوپر صرف ایک چادر ہے۔ میں نے شامی صاحب سے کہا اندر سے کوئی چارپائی منگوا لیں اور کوئی کمبل بھی جو جسد خاکی پر ڈالا جا سکے۔ کہنے لگے چارپائی تو کوئی نہیں، سنگل بیڈ چل جائے گا؟

اور کمبل کی کیا ضرورت ہے؟ کیا ڈیڈ باڈی کو ٹھنڈ محسوس ہوتی ہے؟ میں نے کہا چلو قریبی مسجد سے میں جنازے والی چارپائی منگوا لیتا ہوں اور جنازے کے لیے مولوی صاحب کا انتطام کر لیتا ہوں۔ کہنے لگے پیسوں کا کوئی مسئلہ نہیں، بے شک کسی اچھے مولوی صاحب کی خدمات لے لیں۔ میں نے کہا جنازہ فی سبیل اللہ پڑھایا جاتا ہے۔ میں نے قریبی مسجد کے مولوی صاحب کو فون کر کے بلا یا۔ انہوں نے غسل اور جنازے کے تمام انتظامات کر لیے۔

میں نے پوچھا شامی صاحب تدفین میانی صاحب قبرستان میں ہو گی؟ کہنے لگے نہیں یار۔ ہمارا بھی شہر میں اٹھنا بیٹھنا ہے، ابا جی کو کسی پوش قبرستان میں دفن کریں گے۔ میانی صاحب ایک زمانے کا پوش قبرستان تھا مگر اب تو کافی congestedہو گیا۔ ایک مرحوم کی ٹانگ دوسرے کی ”وکھی“ میں لگ رہی ہوتی ہے۔ پچھلے سو سال سے بھر ہی نہیں رہا۔ میں نے کہا شامی صاحب علاقے پوش ہوتے ہیں قبرستان نہیں۔ کہنے لگے جو بھی ہے، ہم ڈی ایچ اے سے کم کسی قبرستان میں تدفین نہیں کریں گے۔

میں نے سوچا اب شامی صاحب سے اجازت لے کر گھر چلا جاؤں اور صبح جنازے میں شرکت کر لوں گا۔ میں نے مشورہ دیا ڈیڈ باڈی کو اندر شفٹ کر لیں۔ کہنے لگے وہ تو ٹھیک ہے مگر وہی بچوں کا مسئلہ۔ فیصلہ یہ ہوا کہ سرونٹ کوارٹر میں رکھا جائے۔ میں نے شا می صاحب سے کہا رات کو آپ ڈیڈ باڈی کے ساتھ رہیں تو بہتر ہو گا۔ کہنے لگے ضروری ہے؟ ضروری تو نہیں مگر ڈیڈ باڈی کو اکیلے چھوڑنا مناسب نہیں۔ کہنے لگے یار میں نے تو آج دوپہر کو قیلولہ بھی نہیں کیا، مجھے اگر پتہ ہوتا کہ ابا جی نے جانا تو میں دوپہر کو تھوڑا آرام کر لیتا۔

آخر فیصلہ ہوا مرحوم کو رات کے لیے سرونٹ کوارٹر میں شفٹ کر دیتے۔ مرحوم کو سرونٹ کوارٹر میں شفٹ کر کے اور ملازم کی ڈیوٹی لگا کے میں اپنے گھر آ گیا۔ شامی صاحب بھی اپنے کمرے میں آرام کرنے چلے گئے۔ اگلے دن میں نے جنازے کے انتظامات میں بھی اپنا پورا حصہ ڈالا۔ کفن دفن چونکہ شامی صاحب پہلے ہی ”آؤٹ سورس“ کر چکے تھے اس لیے ان مراحل میں کوئی مسئلہ نہ ہوا۔ تدفین سے فارغ ہو کر میں شامی صاحب کے ساتھ ان کے گھر آ گیا۔

پوچھنے لگے بس ختم؟ میں نے کہا قرآن خوانی باقی ہے۔ کہنے لگے اس کی کیا ایس او پیز ہوتی ہیں؟ مجھے کچھ پڑھنا تو نہیں پڑے گا کیونکہ میں اسلامیات میں ذرا کمزور رہا ہوں۔ میں نے کہا کوئی مسئلہ نہیں مدرسے کے بچے قرآن پڑھ لیں گے۔ آخر میں کھانے کا بندوبست ہو گا۔ ساتھ ہی میں نے ایک کیٹرنگ والے کو فون کر کے ادھر ہی بلا لیا۔ شامی صاحب نے اسے کہا بتاؤ کون سے مینیو ہیں آپ کے پاس؟ میں نے مشورہ دیا شامی صاحب مینیو کو چھوڑیں پلاؤ اور زردہ بنوا لیتے ہیں۔

کہنے لگے کیوں ون ڈش کی پالیسی ہے یہاں؟ میں نے کہا شامی صاحب پالیسی کا مسئلہ نہیں قل خوانی پر اتنا کھانا کافی ہوتا ہے۔ خیر بڑی مشکل سے میں نے ون ڈش پر راضی کیا۔ شامی صاحب کہنے لگے یار کل قل خوانی میں میرے ساتھ ہی بیٹھنا ہے آپ نے تا کہ کوئی مسئلہ وغیرہ نہ ہو۔ اگلے دن میں مسلسل ان کے ساتھ رہا۔ تعزیت کرنے والے جب شامی صاحب سے مرحوم کے بارے میں پوچھیں مرحوم کیسے فوت ہوئے؟ تو شامی صاحب مجھے اشارہ کر دیں۔ میں نے تقریباً شامی صاحب کے فوکل پرسن کا کردار ادا کیا۔ قل خوانی سے واپس گھر آتے ہوئے شامی صاحب نے میرا شکریہ ادا کیا اور ساتھ پوچھا کوئی آئٹم ابھی رہ تو نہیں گیا۔ میں نے کہا نہیں شامی صاحب کوئی آئٹم باقی نہیں اب۔ ٹھنڈی سانس لیتے ہوئے شامی صاحب بڑبڑائے ”ٖاف ویری ٹف پروسیجر“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments