اسلام: چند عصری مسائل – مذہب، ریاست اور سیاست کے تناظر میں


 

”اسلام: چند عصری مسائل“ ڈاکٹر منظور احمد کی نو مضامین پر مشتمل ایک کتاب ہے۔ جو پیس پبلی کیشنز، لاہور سے 2015ء میں شائع ہوئی۔ اس کتاب میں مختلف پہلوؤں سے، فکری پیرائے میں دین فطرت کا جائزہ لیا گیا ہے۔

ڈاکٹر صاحب دیباچے میں لکھتے ہیں :

”کیا موجودہ زمانے میں اسلام پر عمل اسی رسمی طریقے سے مفید ہو گا، جس طریقے سے ہم اب تک کرتے آئے ہیں؟ یا ہمیں اسلام سے اپنے موجودہ مسائل کے سلسلے میں راہ نمائی مل سکتی ہے؟ ان چند سوالوں کے جوابات ان مضامین کے ذریعے دینے کی کوشش کی گئی ہے۔“

اس کے علاوہ اس کتاب میں ریاست اور جمہوریت، روایت اور شناخت، جدیدیت اور مابعد جدیدیت، بنیاد پرستی اور روشن خیالی، نظریہ اور اجتہاد کے ساتھ عہد حاضر میں اسلامی فکر جیسے موضوعات کا بڑی عرق ریزی سے جائزہ لیا گیا ہے۔

پہلا مضمون نظریہ اور پاکستان کے عنوان سے ہے۔ یہ وہ نظریہ ہے، جس کی بنیاد پر پاکستان بنا۔ یعنی دو قومی نظریہ۔ پاکستان کے نظریاتی مملکت ہونے کا تصور ایک ایسا دعویٰ ہے جس کے ثبوت میں کچھ عمومی باتیں، کچھ رومان، کچھ جذباتیت اور کچھ حد تک اسلام کی بیسویں صدی کی نئی تعبیر شامل ہے کہ اسلام ایک سیاسی تحریک یا نظریہ ہے اور اشتراکی نظام کے مثل اس کے کچھ بنیادی نظریات ہیں جو عقل کی کسوٹی پر پورے اترتے ہیں۔ ان نظریات پر مبنی ایک اسلامی ریاست کا قیام عمل میں آیا تھا اور اسی نہج پر آج بھی ایک ایسی اسلامی ریاست کا قیام عمل میں آ سکتا ہے۔ اس عمومی دعوے پر مسلمانوں کے اکثر گروہ متفق ہیں اور یہ اسلامی نظام کے سیاسی نعروں کی اساس ہے۔ لیکن جب عملاً ایک نظریاتی مملکت کے قیام کی بات آتی ہے تو اس کی راہ میں وہ بے لچک فقہی نظام (شرع سے متعلق ) سامنے آتا ہے جس میں کسی طور تبدیلی ممکن نہیں۔ پھر زمینی حقائق سے بھی قطع نظر کر لیا جاتا ہے۔

مولانا مودودی نے مسلمان اور سیاسی کشمکش کے ایک حصہ میں مسلم لیگ پر جو تنقید کی تھی وہ اس حد تک درست تھی کہ اس طریق کار سے وہ حکومت یا نظام ریاست قائم نہیں ہو سکتا جو مولانا کی نظر میں اسلامی حکومت کہلاتا ہے۔ چنانچہ انہوں نے اسلامی حکومت اور اس کے قیام کا طریق کار لکھ کر یہ بتلایا کہ وہ طریق کار ہو گا جس کے نتیجے میں یہ مقصود حاصل ہو سکتا ہے۔ جس میں ریاستی زمین کو قرآن و سنت کے حوالے سے ناقابل تنسیخ ثابت کرنا یا ٹھیٹ اسلامی قوانین جن کا ماخذ شریعت ہے اور سزا و جزا کے متعلق قوانین جو سماجی مطالعے او ر عصری تقاضوں سے عاری تھے۔ طریقہ کار زمینی حقائق میں قابل عمل بھی ہے یا نہیں، یہ بات مولانا کے دائرہ فکر سے باہر رہی۔ بین السطور یہ بات بھی فکری طور پر تسلیم کی جاتی رہی ہے جو نظریہ مولانا نے پیش کیا اس کا ہر متبادل باطل ہو گا کہ اسلام کا بس ایک ہی طریق کار ممکن ہے۔

اور مزید یہ کہ اگر مذہب کا پیراڈائم بدلنا ہے یا یہ کیسا ہونا چاہیے تو جنوبی ایشیا ء کے مسلم دانشور اس سلسلے میں اہم پیش رفت کرتے ہیں۔ اس قیاس آرائی میں کچھ دلائل موجود ہیں جن میں سے چند ایک یہ ہیں :

1۔ مسلمان ملکوں میں وہ جو نسبتاً زیادہ ترقی یافتہ ہیں اور جن کی نظریں مستقبل کی جانب ہیں وہی ہیں جنہوں نے دو متبادل دائرہ ہائے فکر میں ایک کو اختیار کر لیا ہے یعنی سیکولر یا مقدس۔ ترکی نے سیکولر طرز کو اختیار کر رکھا ہے اور اس کو ریاستی طاقت کے ذریعے ایک نظریہ حیات کی طرح نافذ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کے برعکس مذہبی تصورات عام لوگوں میں زیادہ مقبولیت پاتے جا رہے ہیں۔ ان دونوں میں محاذ آرائی ریاست کے جواز اور مقاصد کے کسی بھی عقلی طور پر تسلیم شدہ نمونے کے لئے غیر تعمیری ہو گی۔ جب تک کسی ایسے حق بجانب اور مناسب پیراڈائم کو فروغ حاصل نہ ہو جائے جو مذہبی شعور اور جدید ریاست کے عمل اور ترقی کی ضروریات کو بیک وقت پورا کرے۔ اس وقت تک معاشرے کے لئے ایک مکمل با تدبیر اور مضبوط معاشرتی عمل کو بروئے کار نہیں لایا جا سکتا۔

2۔ قدامت پسندانہ مذہبی نظریہ کے استحکام اور ایک دروں بین اجتماعی نفسیات کے باوجود ہندوستان وہ سر زمین تھی جہاں مذہب کو برقرار رکھتے ہوئے سر سید نے مذہب کی تفہیم اور اس کی تاویل کے لئے ایک نئے تنقیدی طریق کار کو فروغ دیا۔ سر سید نے مسلم دنیا کے دوسرے خطوں کو اپنے پیش رو علما ء سے کہیں زیادہ آگے جا کر مسلم دانشوری کے اس مہلک سکوت کو توڑنے میں کامیابی حاصل کی جو گزشتہ پانچ سو سالوں سے موجود تھا۔ انہوں نے مسلم دینیات کے متبادل تعمیری طریق کو ترقی دینے کا سلسلہ اس لئے شروع کیا کہ وہ مذہب کی افہام و تفہیم سائنسی نظریے کی مدد سے کرنا چاہتے تھے۔ یہ انہی کی کوشش کا نتیجہ تھا کہ قدامت پسندانہ اسلام کی جانب سے سخت مخالفت کے باوجود ہندوستانی مسلمانوں کے لئے گویا ایک دریچہ کھل گیا جس سے معلوم ہوا کہ مغربی دنیا میں کیا ہو رہا ہے۔

3۔ پاکستان میں ایک اہم معاشرتی تبدیلی وقوع پذیر ہوئی ہے یعنی دیہی آبادی کی شہروں کی طرف منتقلی۔ علاوہ ازیں ذرائع ابلاغ کا انقلاب دیہی آبادی میں بڑے نمایاں طور پر اور بہت تیز رفتاری سے اثر انداز ہو رہا ہے۔ اس نقل مکانی کے دو بڑے نتائج وجود میں آتے ہیں۔ پہلا تو یہ ہے کہ آبادی کے بہت بڑے حصے پر جاگیر درانہ گرفت کم ہو رہی ہے۔ وہ دیہاتی جو اپنے گھر بار چھوڑ کر شہروں میں جا بسے اب وہ جاگیر دار آقاؤں کے پہلے کی طرح مستقل ووٹر نہیں رہے جو ان کو پارلیمنٹ تک پہنچانے کا اہم ذریعہ تھے۔ اب سوچ بدل رہی ہے۔

4۔ جدید اصلاحی اسلام یا شہری اسلام پاکستان کی اور دوسرے اسلامی ممالک کی شہری آبادی میں بڑا استحکام ہے۔ ان علاقوں میں خصوصاً نو آبادیاتی نظام کے خلاف اسلامی اصلاحی تحریکوں نے اپنا بڑا کردار ادا کیا تھا اس لئے جدید زمانے کے تقاضوں سے اس طبقہ سے تعلق رکھنے والے روشناس ہو چکے تھے، طبعاً بھی اس اسلامی تصور کی خصوصیات میں مدافعانہ مناظر اتی اور جدلی خصوصیات پائی جاتی ہیں یہ مغربی طرز فکر کے خلاف خود ایک کلی نظام حیات ہونے کا دعویدار ہے۔ جو زمانہ جدید میں قابل عمل ہے۔ اسلامی ملکوں میں زبوں حالی کی وجہ اسلامی نظام نا کافی ہونا نہیں ہے بلکہ اسلامی نظام کو نہ اپنانا یا نئے نظام سے ہم آہنگ کر کے نہ دیکھنا، بین الاقوامی سازشیں او ر حکمرانوں کی نا اہلی بھی ہے۔

نظریاتی حکومت کے پرچار کوں نے اس بات کی زحمت بھی نہیں کی وہ پاکستانی معاشرہ کا سماجیاتی مطالعہ کریں اور یہ دیکھنے کی کوشش کریں کہ اس کے بنیادی ڈھانچے میں تو کوئی ایسی خرابی نہیں ہے کہ جو اسلامی حکومت کے قیام کو ناممکن بنا رہی ہو۔ یہ بات حقیقت ہے کہ معاشرہ میں اخلاقی اور سیاسی زوال واقع ہوا ہے۔ لیکن اس کا سارا الزام بھی نہایت آسانی سے تمام مذہبی جماعتیں حکمرانوں کے سر دے کر بری الذمہ ہو جاتی ہیں۔ اور یہ مطالبہ کرتی ہیں کہ یہ کام اگر ان کو مل جائے تو ہو سکتا ہے ورنہ نہیں۔

وہ اس بات سے بھی صرف نظر کرتی ہیں کہ جو اسلام، ان کی کوششوں سے دستوری اور قانونی طور پر ملک میں آیا اس نے معاشرہ کو کوئی فائدہ نہیں پہنچایا اور ان لوگوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا جو عوام کا استحصال کرتے رہے ہیں۔ قرارداد مقاصد، ملک کے دستور میں اس شق کا اضافہ کہ کوئی قانون قرآن و سنت کے خلاف نہیں بنایا جائے گا، شرعی عدالتوں کا قیام، حدود کا نفاذ، شراب کی حرمت، جمعہ کی چھٹی، ان سب نے پاکستان کو کتنا اس مملکت کے قیام کے قریب کیا جو ایک عام آدمی کے تخیلات میں رومانوی طور پر بسائے ہوئے ہے؟ قانونی او ر دستوری اسلام جیسا کہ نظریاتی مملکت والے پیش کرتے ہیں، استحصالی قوتوں کے ہاتھ مضبوط کرتا رہا ہے اور کرتا رہے گا۔

”پاکستان کا سیاسی نظریاتی پیراڈائم جس ریاست کا خواہاں ہے یعنی ریاست مدینہ، ریاست مدینہ کی حکومت عام چور کا ہاتھ کاٹ دیتی ہے لیکن ملک کی دولت جس پر ایک خاندان کا قبضہ ہے اور جہاں آزادی رائے ناپید ہے، جہاں بادشاہ کا فرمان قضائے الہیٰ ہے، ان میں کتنوں نے ذرائع مملکت پر قبضہ کرنے کی سزا پائی ہے؟“

اور خود پاکستان کے بارے میں صرف اتنا کہا جائے کہ یہاں کے باشندے اپنے اوپر خود حکومت کرنا چاہتے ہیں تو درست لیکن اسلام اور نظریہ کے نام پر عوام کی جذباتیت سے فائدہ اٹھانا صحیح نہیں۔ اسلامی نظریے سے متعلق جتنا شوروغوغا پاکستان میں ہوتا ہے شاید ہی کسی دوسرے ملک میں ہوتا ہو گا۔ لیکن اس سارے شور کا نتیجہ یہ ہے کہ سارے نظریاتی لوگ اب ایک ہی کام میں مصروف ہو گئے ہیں اور وہ ہے اسلامی حکومت کا قیام۔ وہ جو معاشرہ میں ایک جماعت ہونی چاہیے جو دنیا کے طالب نہ ہوں، جو اپنے عمل اور اخلاق سے دوسروں کے لئے قابل تقلید بنیں جو اپنی اخلاقی قوت سے معاشرہ میں امید کی قندیل کو روشن رکھیں، افسوس معاشرہ ان سے خالی ہو تا جا رہا ہے۔ قرآن کریم کی آیت کہ: تم میں کچھ لوگ ہونے چاہیں جو معروف کا حکم کریں اور منکر سے روکیں، کی تفسیر بھی آج کل کچھ ایسی ہے کہ ”معروف“ کو بہ زور نافذ کریں اور منکر کو بہ زور ختم کریں۔ ہمارے مصلحین یہ بات بھول گئے کہ اخلاق کا نفاذ بزور نہیں ہوتا بلکہ بہ رضا و رغبت ہوتا ہے۔

دنیا اب ایک کثیر ثقافتی تصور کی طرف بڑھ رہی ہے اور ہم یک نظری کی طرف۔ بلکہ ہمارا تو کلچر کا مسئلہ بھی ابھی تک حل نہیں ہو سکا، کیا ہمارا کلچر مذہبی عقائد سے تشکیل پاتا ہے یا کئی مقامی کلچر مل کر ایک کلچر کو بناتے ہیں۔ یا کیا یہ واحد کلچر باقی دوسرے کلچرز سے مل کر بنتا ہے، اس کی علیحدہ کوئی قومی پہچان نہیں؟ خیر یک نظری کا یہ تصور جو مغربی تصورات کے زیر اثر اسلام میں آیا مسلمانوں کو دنیا کے سامنے ایک ایسے فریق کی صورت میں پیش کرتا ہے کہ جو دوسروں کے وجود کو اپنے ہم مرتبہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے۔ پاکستان کا مستقبل ”نظریہ“ کی ایک تفصیلی اور گہری تنقید کے بغیر ممکن نہیں۔ اور اگر مسلمانوں نے خود کو اس کے لئے تیار نہ کیا تو نتائج شاید اچھے نہ ہوں۔

”اگر آج پاکستان میں آپ کسی سے یہ سوال پوچھیں کہ امریکا یا انگلستان میں آپ کون ہیں تو اس کا پہلا جواب تو اپنا نام بتانے پر ہو گا۔ دوبارہ پوچھیں کہ آپ کون ہیں تو شاید جواب ہو گا کہ وہ کس شہر کا کس گاؤں کایا پھر کس علاقے کا رہنے والا ہے۔ زیادہ بڑی اور گہری شناخت علاقائی ہے اور غالباً یہ شناخت کہ میں پاکستانی مسلم ہوں سب سے نچلی سطح کی شناخت ہو گی۔“

پاکستانی شناخت کے پیدا نہ ہونے کی بہت ساری وجوہات ہیں۔ سب سے بڑی وجہ تو یہ ہے کہ یہ تصور صرف ایک نام ہے جس کی اپنی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے۔ یہ نام چونکہ بعد میں پیدا ہوا اور اس نام سے پہلے کی شناختیں معاشرے میں گہرائی اور گیرائی کے ساتھ وجود رکھتی تھیں اس لیے وہ شناختیں پاکستان کے اندر مدغم نہ ہو سکیں او ر آج بھی پنجابی، سندھی، پشتون اور بلوچ کی شناختیں پاکستانی شناخت کے مقابلے میں زیادہ اہم ہیں۔ پاکستان کے قیام پر خیال یہ تھا کہ پاکستان کی شناخت اسلام کی بنیاد پر قائم ہو سکے گی لیکن اس میں کئی اشکال تھیں۔

پہلا تو یہ کہ لوگوں کی سمجھ میں بنگالی اور پنجابی ہونا تو آسان سے آتا تھا لیکن پاکستانی ہونا تو محض ایک نام تھا جس کے اتحاد ان کے اپنے قومی اتحاد سے زیادہ مضبوط نہیں تھا۔ دوسری بات یہ کہ مذہب وہ بنیاد فراہم نہیں کر سکا اور نہ کر سکتا ہے جس کی بنیاد پر انسان اپنے پاکستانی ہونے کی شناخت کو قائم کر سکے۔ سب سے بڑی وجہ تو یہ ہے کہ پاکستان میں ایسے لوگ بھی رہتے ہیں یا رہ سکتے ہیں جو مسلمان نہیں ہیں اس لئے اسلام ان کی شناخت نہیں بن سکتا تاکہ ان کو مسلمان کے متبادل نہ سمجھا جائے جو غیر ممالک میں شہریت لے کر مقیم ہو چکے ہیں۔

اسلام غیر اسلام کے مقابلے میں شناخت کے طور پر کام کرتا ہے خاص طور پر آج کل کے حالات میں مغرب مسلمانوں کی بحیثیت مجموعی ایک خاص انداز سے شناخت کرتا ہے۔ لیکن اسلام بحیثیت مذہب کے اپنے اندر یہ صلاحیت نہیں رکھتا کہ وہ تمام لوگوں کو ایک ساتھ متحد رکھ سکے یا مذہبی شناخت دوسری شناختوں پر حاوی ہو سکے۔ عیسائیت، یہودیت اور اسی طرح دوسرے مذاہب ایک محدود شناخت تو رکھتے ہیں وہ بھی اس وقت جب ان کے مد مقابل دوسری مذہبی شناخت موجود ہو لیکن بنیادی طور پر ان کو ان کے ملکوں یا نسل کے ذریعہ ہی شناخت کیا جاتا ہے۔ اگر یہ سوال پوچھا جائے کہ ایران اور سعودی عرب میں کون رہتا ہے تو جواب یہ ہو گا کہ ایران میں ایرانی رہتے ہیں اور سعودی عرب میں عربی یا افریقہ میں حبشی یا یورپ میں انگریز۔ اگرچہ ایرانیوں، حبشیوں اور انگریزوں میں اسلام قدر مشترک ہی کیوں نہ ہو۔

ریاست کا تصور بیسویں صدی کی پیدا وار ہے۔ مسلمانوں کی ریاستیں تو ماضی کے اندر رہی ہیں۔ ترکوں کی خلافت، بنوں عباس اور بنو امیہ کی بادشاہتوں کی شناخت ان قبائلی یا ملکی خصائص سے ہوتی رہی ہیں جن کے وہ نمائندہ تھے۔ لیکن ان میں سے کسی نے اپنے آپ کو اسلامی ریاست کہہ کر نہیں پکارا۔ مسلمانوں کے معاشرے تو البتہ موجود رہے ہیں لیکن اسلام کا نظریہ سیاست یا نظریہ ریاست بیسویں صدی کی مغربی فکر اور خاص طور پر سوشلزم کے زیر اثر پیدا ہوئی ہے۔ مسلمانوں کے مذہب کو بھی نظریہ یا آئیڈیالوجی کے طور پر پیش کرنے کا تصور بنیادی طور پر سیکولر تصورات ہیں جن میں علم کے اضافے کے ساتھ ساتھ تبدیلیاں آتی رہتی ہیں اور بعض مرتبہ نظریات پورے طور پر منقلب ہو کر کسی نئے نظریے کو جنم دیتے ہیں۔

”ہماری ساری بحثوں میں بہت ساری الجھنیں اس لیے پیدا ہوتی ہیں کہ ہم مغربی فکر کی نقالی کے شوق میں یا اس شوق میں کہ ہم یہ کہہ سکیں کہ مغربی افکار کے تمام سماجی تصورات اس سے بہتر انداز میں اسلامی سماج میں موجود ہیں یہ حرکتیں کرتے رہتے ہیں۔ مذہب کو اپنے جواز کے لئے مغربی فکر کی بیساکھیوں کی ضرورت نہیں ہے۔ اس لئے اس بات کی زیادہ فکر نہیں کرنی چاہیے کہ تمام مسلمانوں کی اسلامی شناخت ایک“ اسلامی امت ”کی شکل میں ظہور پذیر ہو۔ ایسا ہونا مختلف معاشرتی عوامل اور اسباب کی وجہ سے ممکن نظر نہیں آتا۔ ملکوں کی شناختیں اگرچہ وہاں پر مسلمان ہی کیوں نہ رہتے ہوں، اسلامی بنیاد پر ہونا ایک بعید از قیاس تصور ہے۔ “

پچھلے دو سو سالوں میں عام طور پر لیکن بیسویں صدی خاص طور پر عالم اسلام کے لئے اجتہاد کی ضرورت کے اعتبار سے خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔ مسئلہ اجتہاد آج جتنا فیصلہ طلب ہے اس سے پہلے کبھی نہیں تھا۔ اسلامی عروج کے زمانہ میں ساتویں صدی کی ابتداء سے آٹھویں صدی کے وسط تک مسلمانوں کی حکومت جزیرہ نما عرب سے نکل کر شمالی افریقہ، آئبیریا، مشرق وسطیٰ، ایران اور شمالی ہندوستان تک قائم ہو گئی۔ گیارہویں صدی کے آخر میں اگرچہ عیسائیوں نے مغربی بحیرہ روم پر دوبارہ اپنا تسلط قائم لیا اور سسلی اور ٹولیڈو کو مسلمانوں سے واپس لے لیا لیکن ڈیرہ صدی کی صلیبی جنگوں میں رفتہ رفتہ عیسائی حکومتیں شکست آشنا ہوتی ہیں یہاں تک کہ ترکان عثمانیہ نے مسلمانوں کی مملکت کی حدود کا دائرہ وسیع کرنے کا کام سنبھالا۔

1453 ءسے 1529ء تک مسلمان کسی نہ کسی صورت فاتح رہے، لیکن اس کے بعد زوال کی داستان ہے۔ 1915ء تک مسلمانوں کی صرف چار ریاستیں ایسی تھیں جن کو کسی طور آزاد کہا جا سکتا تھا جن میں ترکی، سعودی عرب، ایران اور افغانستان شامل ہیں۔ 1920ء کے بعد مغربی استعمار کا تسلط ختم ہونا شروع ہوا اور دوسری جنگ عظیم کے بعد اس میں تیزی آ گئی۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1757ء سے 1919ء تک تقریباً 92 مسلم مملکتیں استعماری طاقتوں سے آزاد ہوئیں۔ لیکن 1995ء تک تقریباً 69 ممالک دوبارہ خود مسلمانوں کے زیر نگیں آ گئے جن میں تقریباً 45 ملکوں میں مسلمانوں کی بہت غالب اکثریت ہے۔ اب وہ آزاد ہیں کہ اپنے زیر تسلط علاقوں میں اپنا منتخب کردہ سیاسی، مذہبی، معاشی اور معاشرتی نظام تشکیل دیں سکیں۔

بیسویں صدی او ر آج اکیسویں صدی میں مسلمانوں کو اپنے اپنے علاقوں میں سیاسی تسلط کا معاملہ سولہویں صدی کے تسلط کے زمانہ سے نوعی طور پر بڑا مختلف ہے اور اس لئے اگر مسلمان اپنا تہذیبی تشخص برقرار رکھنا چاہتے ہیں تو وہ معاشرتی، سیاسی اور مذہبی اصول و ضوابط کافی نہیں ہوں گے ۔ جن سے سولہویں صدی تک کسی نہ کسی طرح کام چلتا رہا ہے۔ آج تخلیقی اجتہاد کی جو ضرورت ہے وہ اس سے پہلے کبھی نہ تھی اس کی وجہ سے مغربی نشاۃ ثانیہ نے جس ذہنی آزادی کو جنم دیا اس کی مثال سولہویں صدی سے قبل نہیں ملتی۔

ڈیکارٹ اور اس کے بعد آنے والے مغربی مفکرین کی اکثریت نے مذہب کی حقانیت یا خدا کے وجود سے انکار نہیں کیا بلکہ اسی منطق کے سہارے جو یونان سے عیسائی، یہودی اور مسلمانوں کے علم کلام کے راستے مغربی فکر کو ملی تھی، مذاہب کو عقلی سہارا فراہم کیا۔ ڈیکارٹ نے وجود خدا کے اثبات کے لئے ان ہی پرانے دلائل کو استعمال کیا جو اس سے قبل متکلمین کر چکے تھے لیکن طبعیاتی نظام میں خدا کی مداخلت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔

جدیدیت مطالبہ کرتی ہے مذہب کو جدید دور سے ہم آہنگ کرنے کا تو یہ بات خدا لگتی ہو گی کہ مذہب کی احیاء جدید فکر و عقل کے حوالے سے جس قدر ممکن ہو کرنی چاہیے اور جہاں تک معاملہ ما بعد جدیدیت کا ہے جس نے ایک فرد کو انفرادی طور پر سوچنے پر مجبور کیا اور اس کے لیے سوچا بھی۔ جدید دور اظہاریت کے باب میں کافی متنوع ہے۔ زندگی پیچیدہ ہو چکی ہے۔ آئے روز نئے نئے رجحانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جن کے ساتھ ہم آہنگی ممکن نہیں مگر یاسیت کے اس دور میں جہاں وجودیت، سوریلزم اور کیوب ازم جیسے رجحانات در آئے ہوں اس میں مذہب اگر کسی امید کی صورت موجود رہتا ہے تو رہنے دینا چاہیے۔ اگر ہم سائنس کے حوالے سے خدا کے وجود کو ثابت کرنے کے امکانات کے لئے پرامید یا خوش گمان ہو سکتے ہیں تو مابعد الطبعیاتی فکر کے حوالے سے بھی اس امکان کے لئے جگہ دینی چاہیے کہ وہ بھی رجائیت سے بھرپور ایک امکان کی خواہش کر سکیں۔

با ایں ہمہ سوال یہ ہے کہ کیا مسلم ریاستوں میں اسلامی جمہوریت پنپ سکتی ہے اگر اس نظام حکومت کو ہم کسی طرح موزوں ٹھہرائیں بھی تو اس کا جواب ان عوامل پر منحصر ہے جو جمہوری نظام کو قابل عمل بنانے کے لئے ضروری ہیں :۔

پیراڈائم : پہلی ضرورت مسلمانوں کے فکری پیراڈائم کو بدلنے کی ہے۔ موجودہ پیراڈائم کسی بھی تبدیلی کے لئے مناسب نہیں اور نہ ہی اس میں سکت ہے۔ اس لیے کہ اجتہاد، مباح اور جواز کے تصورات بھی اسی پیراڈائم کا جزو ہیں جو ہمارے زبانی کلام سے نئے سرے سے مراد اور معنی تلاش کرنے میں ناکام ہیں۔ ان تصورات کے تحت ہم مسائل کو انہی معقولات کے سیاق و سباق میں دیکھتے ہیں جو ہماری فکر میں پہلی صدی کے اختتام کو پہنچے تھے۔

اب ہم ہدایت کو فرض، واجب، سنت و بدعت، مکروہ، مباح، جائز و ناجائز کے معقولات کے تحت ہی دیکھتے ہیں او ر استخراجی منطق کے ذریعے اجتہاد کے غیر بار آور عمل میں مصروف رہتے ہیں۔ اگر رجم زانی کی ایک سزا سنگ ریزی ہے تو سزا دراصل موت ہی ہے۔ تو مارنے کے اس غیر انسانی طریقے کو رائج کیوں رکھا جائے۔ زانی کو اگر موت ہی کی سزا دینی ہے تو کسی اور مناسب طریقے سے سزا دیں جس میں کسی انسانی حقوق کی تنظیم کو بھی شکایت نہ ہو اور سزا بھی ہو جائے۔ اس میں اس معاملہ کو کیا لانا کہ رجم زانی کی سزا موت ہے اور پتھروں سے مارنا شریعت پر عمل۔ اس پیرا ڈائم کو مکمل تبدیل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

دوسرا بڑا عامل جو جمہوری تصورات کی نشو و نما میں اہم کردار ادا کرتا ہے وہ ہے معاشرتی ساخت۔ پاکستان اور اس کے مغرب میں واقع مسلمان ملکوں میں عام طور پر قبائلی یا جاگیر دارانہ معاشرتی ساخت غالب ہے۔ یہ ساخت بادشاہی نظام سے مطابقت رکھتی ہے اور حکم و اطاعت کے رویہ کو جنم دیتی ہے، مسلمانوں کی تاریخ میں اس ساخت کے مضبوط رہنے کی بڑی وجہ وہ پیراڈائم بھی ہے جس کا اوپر تذکرہ کیا گیا ہے۔ یہ ساخت معاشرتی مساوات اور حقوق و فرائض میں برابری کے تصور کی ضد ہے۔ اور معاشرہ کو اس کلاسیکل طریقے پر استوار کرتی ہے جس میں مختلف طبقات کے علیحدہ علیحدہ حقوق و فرائض ہوتے ہیں۔ قبائلی اور جاگیردارانہ معاشرتی ساخت کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ سیاست یا مملکت میں لیڈر شپ کا رول چند طبقات یا خاندانوں میں مرتکز ہو جاتا ہے جن کو ختم کرنا مشکل ہے۔

”جمہوریت کی نشو نما میں مساوات پر مبنی معاشرہ، طبقاتی معاشروں کی نسبت زیادہ مفید اور معاون ہوتا ہے اور اس کی خرابیوں کو دور کرنے کے لئے ایک خود اصلاح پذیر میکنیزم مستحکم ہو جاتا ہے۔ معاشرہ کی غیر طبقہ ورانہ ساخت کا لازمی نتیجہ آزادی فکر اور آزادی اظہار بھی ہوتا ہے۔ یہ دونوں جمہوری نظام کے لئے اتنے ہی اہم ہیں جتنے حکم و اطاعت، بادشاہت اور آمریت کے لئے۔“

ہماری تاریخ میں، اور یہ صرف ہمارے ساتھ ہی مخصوص نہیں ہے ہر مذہب کی تاریخ میں اس کے ماننے والوں نے ابتدائی ہدایات کی روشنی میں منطقی، فلسفیانہ، مابعد الطبعیاتی، فقہی، معاشرتی اور سیاسی نظاموں کی مختلف میتھالوجیز تعمیر کی ہیں۔ غلطی ان میتھالوجیز کی تعمیر میں نہیں، ان کو حق کا آخری اظہار مان لینے کی ہے۔ اسلام میں اگر کوئی نئی علمی نہج نکالنی ہے تو مذہب کے بنیادی احساس کو خیر باد کہے بغیر ان میتھالوجیز کو ڈی کنسٹرکٹ کر نا ہو گا۔

ڈی کنسٹرکٹ سے مراد اس قدر ہے کہ زمانہ نے اس پر علمیات کے جو پرت چڑھا دیے ہیں ان کو علیحدہ کر کے، بنیاد تک پہنچا جائے اور اس کی تفہیم پر ایک نئی عمارت تعمیر کی جائے۔ یہ نئی عمارت بھی نئی میتھالوجی ہو سکتی ہے جس کو شاید آئندہ دوبارہ ڈیکسنٹرکٹ کرنا پڑے۔ لیکن اس عمل کے بغیر ہم اس جوہر خاص تک نہیں پہنچ سکتے جو مذہب کی اصل روح ہے۔ یہ تاریخی عمل ہے اور اگر ہم مذہب کو اپنی زندگیوں میں ایک حرکی قوت کے طور پر داخل رکھنا چاہتے ہیں تو اس طریق کار کو مسلسل چلتے رہنا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments