دس لاکھ سال بعد انسان کیسا نظر آئے گا؟

لوسی جونز - بی بی سی ارتھ


 

انسان

کیا ہماری آنے والی نسلیں ایسے نیم کمپیوٹر قسم کی انسان ہوں گی جن کے جسموں میں ہائی ٹیک پرزے، دوبارہ لگ سکنے کے قابل ٹانگیں اور بازو، اور کسی کیمرے جیسی آنکھیں ہوں گی؟

کیا انسان حیاتیاتی اور مصنوعی زندگی کے درمیان کی کوئی چیز بن جائیں گے یا ہم چھوٹے، یا مزید لمبے، پتلے یا موٹے ہو جائیں گے۔ یا ہمارے چہرے کے خطوط بالکل الگ انداز اختیار کر لیں گے؟

ظاہر ہے کہ ہم ابھی یہ سب نہیں جانتے مگر اس سوال پر غور کرنے سے قبل ہمیں 10 لاکھ سال قبل جا کر دیکھنا ہو گا کہ انسان اس وقت کیسے نظر آتے تھے۔ سب سے پہلی بات، اس وقت انسانوں کی ہماری نوع یعنی ہومو سیپیئنز موجود نہیں تھے بلکہ کئی مختلف انواع تھیں جن میں ہومو ہائیڈلبرگینسس کا نام سب سے نمایاں ہے۔ اس کی ہومو ایریکٹس اور جدید انسانوں کے ساتھ کافی مماثلت تھی مگر اس کی جسمانی ساخت بعد میں آنے والے نیئنڈرتھل سے کہیں قدیم تھی۔

گذشتہ 10 ہزار برس میں انسانوں نے خود کو کئی تبدیلیوں کے حساب سے ڈھالا ہے۔ زرعی اندازِ زندگی اور خوراک کی فراوانی نے ایسے طبی مسائل کو جنم دیا جنھیں حل کرنے کے لیے ہم نے سائنس کا سہارا لیا، مثلاً ذیابیطس کے حل کے لیے انسولین ایجاد کی گئی۔ اگر وضع قطع کی بات کریں تو انسان زیادہ موٹے ہو گئے ہیں اور کچھ کچھ جگہوں پر تو لمبے بھی ہوئے ہیں۔

ڈنمارک کی آرہوس یونیورسٹی میں بائیو انفارمیٹکس کے پروفیسر تھامس میلوند کہتے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ وقت کے ساتھ ہم ارتقا پا کر چھوٹے ہونے لگیں تاکہ ہمارے جسموں کو کم توانائی کی ضرورت ہو، جو کہ اس گنجان آباد سیارے پر بہت کارآمد ہو سکتا ہے۔

زیادہ سارے لوگوں کے ساتھ رہنا ایک نئی صورتحال ہے اور ہم نے خود کو اس کے حساب سے ڈھالا ہے۔ جب ہم شکار کے ذریعے یا چیزیں چن کر خوراک حاصل کرتے تھے تو ہمارا روزانہ کی بنیاد پر کم سے کم انسانوں سے رابطہ ہوتا تھا۔ میلوند کہتے ہیں کہ ہو سکتا ہے ہمارا ارتقا اس انداز میں ہو کہ ہم اس معاملے میں مزید بہتر ہو سکیں۔ مثال کے طور پر لوگوں کے نام یاد رکھنا ایک مزید اہم ہنر ہو سکتا ہے۔

یہی وہ جگہ ہے جہاں ٹیکنالوجی کی مدد لی جا سکتی ہے۔ تھامس کہتے ہیں کہ ’دماغ میں موجود امپلانٹ ہمیں لوگوں کے نام یاد رکھنے میں مدد دے گی۔ ہم جانتے ہیں کہ لوگوں کے نام یاد رکھنے میں اچھا دماغ کن جینز سے مل کر بنتا ہے۔ ہم اسے تبدیل کر سکتے ہیں۔ یہ سائنس فکشن جیسا لگتا ہے مگر ہم یہ ابھی کر سکتے ہیں۔ ہم امپلانٹ کر سکتے ہیں مگر ہم نہیں جانتے کہ اسے زیادہ کارآمد کیسے بنایا جائے۔ ہم اس جانب بڑھ رہے ہیں مگر یہ تجرباتی مراحل میں ہی ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’یہ اب حیاتیاتی سوال نہیں رہا بلکہ تکنیکی سوال بن گیا ہے۔‘

فی الوقت لوگوں کے جسم میں خراب حصے کو بحال کرنے کے لیے امپلانٹ لگایا جاتا ہے مثلاً کولہے کا امپلانٹ یا پھر پیس میکر۔ شاید مستقبل میں امپلانٹ کے ذریعے انسان کو مجموعی طور پر بہتر بنایا جا سکے۔ دماغ کے امپلانٹ کے ساتھ ساتھ ہو سکتا ہے کہ ہم لوگ اپنے جسموں میں ٹیکنالوجی کے زیادہ نمایاں استعمال کرنے لگیں مثلاً کیمرا کی حامل ایسی مصنوعی آنکھ جو ایسے رنگ اور مناظر دیکھ سکے جو ہم عام آنکھ سے نہیں دیکھ سکتے۔

انسان

ہم سب نے ہی ڈیزائنر بچوں کے بارے میں سن رکھا ہے، یعنی بچوں کی پیدائش سے قبل ہی اُن میں اپنی من پسند خصوصیات شامل کروانا۔ سائنسدانوں کے پاس ایمبریو کے جینز میں تبدیل کرنے کی ٹیکنالوجی پہلے ہی موجود ہے حالانکہ یہ متنازع ہے اور کوئی نہیں جانتا کہ آگے کیا ہو گا۔ مگر میلوند کہتے ہیں کہ مستقبل میں شاید کچھ جینز کو تبدیل نہ کرنا غیر اخلاقی تصور کیا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ بچوں کی خصوصیات والدین خود منتخب کر سکیں گے اس لیے ممکنہ طور پر انسان ویسے نظر آئیں گے جیسا کہ اُن کے والدین چاہتے ہیں۔

میلوند کہتے ہیں کہ ’یہ اس وقت بھی انتخاب ہی ہو گا، یہ مصنوعی انتخاب ہو گا۔ جیسا کہ ہم کتوں کی نسلوں کے ساتھ کرتے ہیں، ویسا ہی انسانوں کے ساتھ کریں گے۔‘

یہ سب مفروضہ ہے مگر کیا موجودہ حقائق کو دیکھتے ہوئے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ مستقبل میں ہم کیسے نظر آیا کریں گے؟

اینگلیا رسکن یونیورسٹی میں بائیو انفارمیٹکس کے پروفیسر ڈاکٹر جیسن اے ہوجسن کہتے ہیں کہ ’اگلے 10 لاکھ سالوں کی پیش گوئی کرنا تو مکمل طور پر ہوا میں تیر چلانا ہو گا مگر بائیو انفارمیٹکس کے ذریعے ہم جینیاتی تبدیلیوں کے بارے میں موجودہ معلومات کو انسانوں میں رونما ہو رہی تبدیلیوں کے ساتھ ملا کر دیکھیں تو مستقبل قریب کی پیش گوئی کرنا عین ممکن ہے۔‘

اب ہمارے پاس دنیا بھر سے انسانوں کے مکمل جینوم کے سیمپلز موجود ہیں اس لیے ماہرینِ جینیات کو جینز میں قدرتی طور پر آنے والی تبدیلیوں کے بارے میں زیادہ معلومات ہیں اور اس حوالے سے بھی کہ یہ انسانی آبادی میں کس انداز میں پائی جاتی ہیں۔

ہم واضح طور پر نہیں کہہ سکتے کہ جینیاتی گونا گونیت کیسے تبدیل ہو گی مگر بائیو انفارمیٹکس کے شعبے میں سائنسدان ہمیں اس حوالے سے کچھ اندازہ فراہم کرنے کے لیے موجودہ رجحانات پر غور کر رہے ہیں۔

ہوجسن کی پیش گوئی ہے کہ شہری اور دیہی علاقے جینیاتی طور پر مزید متنوع ہو جائیں گے۔ ’ہجرت دیہی علاقوں سے شہروں کی جانب ہوتی ہے اس لیے شہر جینیاتی طور پر مزید متنوع ہو جائیں گے اور دیہی علاقے کم متنوع ہوں گے۔ ممکنہ طور پر آپ دیکھیں گے کہ فرق لوگوں کے رہائشی علاقے سے پڑے گا۔‘

انسان

مثال کے طور پر یہ فرق پوری دنیا میں ہو گا مگر برطانیہ میں دیہی علاقے کم متنوع ہیں اور یہاں پر زیادہ تر لوگوں کے آباؤ اجداد شہری علاقوں کے لوگوں کے آباؤ اجداد کے مقابلے میں برطانیہ میں کہیں زیادہ عرصے سے موجود ہیں۔ شہری علاقوں میں تارکینِ وطن کی بڑی تعداد آباد ہے۔

کچھ گروہ زیادہ تو کچھ کم شرح پر بچے پیدا کر رہے ہیں۔ اس کے مقابلے میں افریقہ میں آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے چنانچہ وہ جینز عالمی آبادی میں زیادہ سے زیادہ پائے جانے لگے ہیں۔ ہلکی رنگت والے علاقے کم شرح پر بچے پیدا کر رہے ہیں چنانچہ ہوجسن کی پیش گوئی ہے کہ عالمی تناظر میں رنگت گہری سے گہری ہوتی جائے گی۔

وہ کہتے ہیں کہ ’معاملہ تقریباً یہی ہے کہ جلد کی گہری رنگت ہلکی رنگت کے مقابلے میں عالمی سطح پر زیادہ فریکوئنسی پا رہی ہے۔ مجھے توقع ہے کہ آج سے کئی نسلوں بعد کسی اوسط شخص کا آج کے مقابلے میں کہیں زیادہ گہرا رنگ ہو گا۔‘

اور خلا کے بارے میں کیا خیال ہے؟ اگر انسان واقعتاً مِرّیخ کو آباد کر لیتے ہیں تو ہمارا ارتقا کیسا ہو گا؟ کم کششِ ثقل کے باعث ہمارے جسم کے پٹھے اپنی ساخت بدل سکتے ہیں۔ شاید ہمارے بازو اور ٹانگیں لمبی ہو جائیں۔ دوسری طرف برفانی دور جیسے ٹھنڈے آب و ہوا کے باعث شاید ہم مزید موٹے بھی ہو سکتے ہیں اور ہمارے جسم ہمارے نیئنڈرتھل آباؤاجداد کی طرح بالوں سے ڈھک سکتے ہیں؟

ہم نہیں جانتے مگر انسانی جینیاتی تبدیلیاں واقعتاً بڑھ رہی ہیں۔ ہوجسن بتاتے ہیں کہ عالمی سطح پر ہر سال انسانی جینوم میں موجود ساڑھے تین ارب بنیادی جوڑوں میں سے ہر ایک میں دو نئی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔

یہ بہت حیران کُن ہے اور اس سے یہ امکان کم ہی رہ جاتا ہے کہ ہم 10 لاکھ برس بعد آج جیسے ہی نظر آئیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32496 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments