افغانستان میں خواتین کے لیے مکمل پردے کا حکم


طالبان
افغانستان کے بشتر علاقوں میں خواتین پہلے سے برقع پہنتی ہیں
افغانستان میں اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد سے طالبان نے سنیچر کے روز ملک کی خواتین پر سخت ترین پابندیاں عائد کرتے ہوئے انہیں حکم دیا ہے کہ وہ عوام کے سامنے مکمل ڈھانپنے والا برقعہ پہنیں۔

طالبان عسکریت پسندوں نے 1996 اور 2001 کے درمیان اقتدار میں اپنے آخری دور کی نسبت زیادہ نرم طرز حکمرانی کا وعدہ کرتے ہوئے گذشتہ سال اگست میں ملک کا کنٹرول واپس لے لیا تھا۔ طالبان کا سابق دور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے پر تھا۔

طالبان حکومت پہلے ہی خواتین پر بہت سی پابندیاں عائد کرچکی ہے، ان پر بہت سی سرکاری ملازمتوں، سیکنڈری تعلیم اور اپنے شہروں یا افغانستان سے باہر تنہا سفر کرنے پر پابندی لگا دی ہے۔

سنیچر کے روز، افغانستان کے سپریم لیڈر اور طالبان کے سربراہ ہیبت اللہ اخوندزادہ نے خواتین کے لیے عوامی مقامات پر لباس کے سخت ضابطوں کا اعلان کیا تھا۔

کابل میں ایک تقریب میں طالبان حکام کی طرف سے جاری کردہ ایک حکم نامے میں کہا گیا، ’انہیں چادوری (سر سے پاؤں تک برقعہ) پہننا چاہیے کیونکہ یہ روایتی اور قابل احترام ہے۔‘

بیان میں کہا گیا، ’وہ خواتین جو زیادہ بوڑھی یا چھوٹی نہیں ہیں، ان کو شرعی ہدایات کے مطابق، آنکھوں کے علاوہ، اپنے چہرے کو ڈھانپنا چاہیے، تاکہ ایسے مردوں سے ملتے وقت مسائل سے بچا جا سکے جو محرم نہیں ہیں (بالغ قریبی مرد رشتہ دار)۔‘

امکان ہے کہ اس اس حکم سے بین الاقوامی سطح پر مذمت کی جائے گی۔ بین الاقوامی برادری میں بہت سے لوگ چاہتے ہیں کہ افغانستان کے لیے انسانی امداد اور طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے کا تعلق خواتین کے حقوق کی بحالی سے ہو۔

اخونزادہ کے حکم نامے میں یہ بھی کہا گیا کہ اگر خواتین کو باہر کوئی اہم کام نہ ہو تو ’بہتر ہے کہ وہ گھر میں رہیں۔‘

اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جو خواتین سرکاری اداروں میں کام کرتی ہیں اور حجاب کی پابندی نہیں کرتیں انہیں نوکری سے نکال دینا چاہیے۔

طالبان حکومت نے کہا ہے کہ ’میڈیا اور منبروں پر حجاب کے قواعد، فوائد، اہمیت اور نقصانات کی وضاحت کرنی چاہیے۔‘

حکم نامے کے مطابق قائم مقام وزیر امر بالمعروف کی قیادت میں سات رکنی وفد کو بھی خواتین کے حجاب کا جائزہ لینے کے لیے مقرر کیا گیا تھا۔

وفد کے دیگر ارکان میں شیخ مولوی عبدالحکیم، مولوی نور محمد ثاقب، مولوی شہاب الدین دلاور، مولوی فرید الدین محمود، مولوی نور اللہ منیر اور مولوی نور الحق انور شامل ہیں۔

طالبان نے اپنے پہلے دور حکومت میں خواتین کے لیے برقع کو لازمی قرار دیا تھا۔

ان کی اقتدار میں واپسی کے بعد سے، وزارت برائے فروغِ فضیلت اور برائی کی روک تھام نے خواتین کو کیا پہننا چاہیے اس بارے میں کئی ’رہنما اصول‘ جاری کیے ہیں لیکن سنیچر کا حکم نامہ اس طرح کا پہلا قومی حکم تھا۔

سخت گیر اسلام پسند مارچ کے مہینے میں اس وقت بین الاقوامی غم و غصے کا باعث بنے جب انھوں نے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد پہلی بار دوبارہ کھلنے کے چند گھنٹے بعد ہی لڑکیوں کے سیکنڈری سکولوں کو بند کرنے کا حکم دیا۔

یہ بھی پڑھیے

طالبان کی ’جبری‘ میزبانی: گُل بی بی کے پاس کھانا پکانے سے انکار کی گنجائش نہیں

طالبان کی حامی خواتین کی وائرل تصاویر: کیا سر تا پا سیاہ برقع افغان کلچر ہے؟

وہ افغان جو ملک چھوڑ نہ سکے طالبان کے سائے میں ان کی زندگی کیسی ہے؟

داڑھی، برقعہ، موسیقی۔۔۔ کیا طالبان دوبارہ نوے کی دہائی کے سخت گیر قوانین کا نفاذ کریں گے؟

’وہ کہتے ہیں ہمیں افغان خواتین کے ساتھ کوئی مسئلہ نہیں۔۔۔ لیکن میں ڈرتی ہوں‘

حکام نے اس پابندی کی کبھی کوئی توجیہہ نہںی دے سکے سوائے یہ کہنے کے کہ لڑکیوں کی تعلیم ’اسلامی اصولوں‘ کے مطابق ہونی چاہیے۔

طالبان

متعدد طالبان عہدیداروں کے مطابق، یہ پابندی اخونزادہ کی جانب سے جاری عائد کی گئی تھی۔

خواتین کو یہ حکم بھی دیا گیا ہے کہ وہ ان دنوں دارالحکومت کے پارکوں میں نہ جائیں جب مرد جاتے ہیں۔

کچھ افغان خواتین نے ابتدا میں اس کی سخت مزاحمت اور احتجاجی مظاہرے کیے جہاں انھوں نے تعلیم اور کام کے حق کا مطالبہ کیا۔

لیکن طالبان نے ان غیر منظور شدہ ریلیوں پر کریک ڈاؤن کیا اور کئی رہنماوں کو گرفتار کر لیا، اور ان کے زیر حراست ہونے سے بھی انکار کیا۔ ’

طالبان کے دونوں دور حکومت کے درمیان 20 سالوں میں، لڑکیوں کو سکول جانے کی اجازت دی گئی اور خواتین تمام شعبوں میں ملازمت حاصل کرنے کے قابل ہوئیں، حالانکہ ملک سماجی طور پر قدامت پسند رہا۔

ایک سخت قدامت پسند اور پدرانہ نظام والے افغانستان میں، دیہی علاقوں میں بہت سی خواتین پہلے سے ہی برقع پہنتی ہیں۔

بی بی سی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32471 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments