سمندر کی بڑھتی آلودگی کا شکار ابراہیم حیدری کے مچھیرے


ابراہیم حیدری کراچی کے مچھیروں کی قدیمی آبادی ہے، اور یہاں سے مچھلی کا شکار کرنے کے لیے روانہ ہونے والی کشتیاں تین یا چار دن کے بعد واپس آتی ہیں۔

ریڑھی گوٹھ، جس کو عمومی طور پر ریڑھی میان بھی کہتے ہیں، سے روانہ ہونے والی آخری کشتی میں سوار ہوتے ہی مبارک علی اداس ہو گیا۔ سفید بال، چہرے پر جھریاں، آنکھوں میں آنسوں لیے بے بسی کے عالم میں مبارک علی نے کشتی میں اپنا سامان رکھا اور تین دن کے سفر پر جانے سے پہلے کشتی کا معائنہ کیا۔

ابراہیم حیدری کی جیٹی سے تین دن کے سفر پر روانہ ہونے والی یہ آخری کشتی تھی جس میں چار مچھیرے سوار تھے۔

”نہ رہنے کے قابل اچھا گھر ہے نہ زندگی کی دیگر سہولیات، نو سال کی عمر سے کشتی پر سوار ہو کر زندگی گزارنے کے لیے محنت کرتا آ رہا ہوں، گھر کا اکیلا کمانے والا فرد ہوں اور پندرہ افراد کھانے والے ہیں، مگر دو تین دن کی سخت محنت کرنے کے بعد ہی دو ہزار روپے کماتا ہوں۔ کوئی وقت تھا جب مچھلی کا شکار سمندر کے تین یا چار کلومیٹر کی اردگرد کیا کرتے تھے مگر جب سے کوڑا کرکٹ اور غلاظت سمندر میں جانے لگی ہے تب سے مچھلیاں بری طرح متاثر ہو رہی اور ہمیں مچھلی کا شکار کرنے کے لیے دور جانا پڑتا ہے،“ مبارک علی نے غم زدہ ہو کر بتایا۔

مبارک علی اس بات پر پریشان ہیں کہ کراچی کی اس قدیمی بستی کے قریب متعدد فیکٹریوں، نالوں اور کارخانوں سے نکلنے والی غلاظت، آلودہ اور زہریلا پانی بغیر کسی فلٹر کے سمندر میں جاتا ہے جس کی وجہ سے مچھلیاں بے حد متاثر ہوئی ہیں اور کشتی کی سہولیات میسر نہ ہونے کے وجہ سے غریب مچھیرے چھوٹی مچھلیوں پر مشتمل اپنے شکار کو جمع کرتے ہیں مگر وہ بھی اچھی قیمت پر فروخت نہیں ہوتی کیونکہ وہ چھوٹی مچھلی مرغیوں اور مچھلیوں کی خوراک بنانے والی فیکٹریاں خرید کرتی ہیں۔

مبارک علی نے بھینس کالونی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ سمندر میں بہت سارا فضلہ مویشیوں کی بہت بڑی مقامی کالونی سے بھی آتا ہے اور حکومت کی طرف سے کوئی دھیان نہیں دیا جا رہا۔

مچھیروں کی قدیم بستی میں رہنے والے مچھیرے یوں تو مسلسل مسائل کا شکار ہیں مگر بڑھتی ہوئی آلودگی، کوڑا کرکٹ، لاتعداد پلاسٹک اور غلاظت سمندر میں ڈالنے سے مچھلیاں بری طرح متاثر ہو رہی ہیں جس کی وجہ سے مچھیروں کا معاشی نقصان ہونے کے ساتھ زندگی کو مشکلات میں ڈالنے والے واقعات کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اس قدیم گاوؑں کا ذکر کرتے ہوئے ایک نوجوان سماجی کارکن حنیف کرمی نے بتایا کہ ہمارے آبا و اجداد اس گاؤں میں رہے ہیں مگر جب وہ ماضی کا ذکر کرتے ہیں تو ہمیں یوں لگتا ہے کہ ہم کچرے میں رہ رہے ہیں، کیوں کہ پہلے یہاں کوئی کچرا نہیں ہوتا تھا، ہر طرف صفائی، تازہ ہوائیں چلتی تھیں مگر جب سے ہم جوان ہوئے ہیں تب سے ہم نے گاؤں کے قریب ملبہ، غلاظت، کوڑے کے ڈھیر، پلاسٹک سمند پر ڈالتے دیکھے ہیں جس کی وجہ سے ہم بہت متاثر ہو رہے ہیں۔

حنیف نے کہا کہ ’سانس لیتے وقت یوں لگتا ہے جیسے کوئی کڑوی چیز ہمارے اندر جا رہی ہے، اب بڑے پیمانے پر یہاں فیکٹریاں بن گئی ہیں جن سے نکلنے والا دھواں، آلودگی والا پانی ہماری زندگیوں کو متاثر کر رہا ہے‘ ۔

حکومت کے تخمینہ کے مطابق روزانہ چار سو ملین گیلن گندا اور آلودہ پانی سمندر میں جاتا ہے جس کا تقریباً پانچواں حصہ ان صنعتوں سے جب کہ باقی گھریلو یا بلدیاتی نکاس سے آتا ہے۔ گھریلو، بلدیاتی اور صنعتی علاقوں سے نکلنے والا گندا پانی سمندر میں جانے سے پہلے صاف نہیں ہوتا جس کی وجہ سے پلاسٹک، کوڑا کرکٹ وغیرہ اس پانی میں مل کر سمندر میں جاتی ہیں اور پہر یوں سمندر کی آب حیات شدید متاثر ہوتی ہے۔

یہ مشاہدہ کیا گیا ہے کہ گندا پانی، کوڑا کرکٹ، غلاظت اور کچرا سمندر میں جانے کی وجہ سے مختلف قسم کے آبی پودے فنا ہو رہے ہیں، جس کی وجہ سے سمندر کی چھوٹی نسلوں کے لیے خوراک کی قلت پیدا ہو رہی ہے اور سمندری آلودگی کی وجہ سے کچھوے کی افزائش بھی متاثر ہو رہی ہے۔

کراچی کے چھ صنعتی علاقوں میں دس ہزار صنعتی یونٹ ہیں جو ٹیکسٹائل سے لے کر کیمیکلز اور کپڑے تک سب کچھ بناتے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق کراچی میں مویشیوں کی بہت بڑی مقامی کالونی ہے جس کو بھینس کالونی کے نام سے جانا جاتا ہے جس میں دس لاکھ کے قریب جانور ہیں جن میں گائے اور بھینسیں بھی شامل ہیں۔ مویشیوں کی اس بہت بڑی مقامی کالونی سے پیدا ہونے والا فضلہ اور گندگی بھی سمندر میں جاتی ہے۔

کراچی میں کوڑے کرکٹ کے لیے جگہیں متعین نہیں اس وجہ سے کوڑا کرکٹ یا ٹھوس فضلہ، جس میں پلاسٹک بھی شامل ہوتا ہے، سمندر میں براہ راست یا بارشی نالوں میں پھینک دیا جاتا ہے جو مون سون کے سیلاب کے بعد بالآخر سمندر میں جا گرتے ہیں۔

تحفظ ماحولیات کے صوبائی ادارے سندھ اینوارنمنٹل پروٹیکشن ایجنسی (سیپا) ، جو ماحولیاتی تحفظ کے لیے حکومت سے بہت بڑی رقم تو وصول کرتا ہے مگر ماحولیاتی تحفظ کے لیے کسی قسم کے ٹھوس اقدامات کرنے میں ناکام ہے۔

سیپا کے ڈائریکٹر اور انفارمیشن افسر سے گزشتہ ایک مہینے سے معلومات کی فراہمی کے لیے رابطہ کرنے کے باوجود بھی کسی قسم کا کوئی جواب نہیں دیا گیا۔

سندھ حکومت کے اس ادارے میں کام کرنے والے افسران بھی ماحولیاتی تحفظ اور ساحل سمندر پر بڑھتی ہوئی آلودگی پر بے خبر ہیں۔

انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر اینڈ نیچرل ریسورسز (آئی یو سی این) پاکستان سے وابستہ معروف ماہر ماحولیات کا کہنا ہے کہ آلودگی نے مچھلی کے شکار اور سمندری حیات کو بری طرح متاثر کیا ہے۔

مون سون کی بارشوں میں کوڑے کرکٹ اور گندگی کی بہت بڑی تعداد سمندر میں براہ راست جاتی ہے مگر حکومت کی جانب سے اس پر کسی قسم کے موؑثر اقدامات نہیں کیے گئے۔

ابراہیم حیدری کے مچھیرے اس ماحولیاتی تباہی سے مایوس ہیں اور حکومت سے التجا کرتے ہیں کہ مچھیروں کی قدیم بستی میں بڑھتی ہوئی آلودگی اور ماحولیاتی تباہی سے نمٹنے کے لیے اقدامات کیے جائیں تاکہ ان کو روزگار کی تلاش میں زیادہ دور نہ جانا پڑے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments