جس کی لاٹھی اس کی بھینس


حالیہ دنوں کی تحریک عدم اعتماد دیکھ کر لگتا ہے کہ پاکستان کو بھی جمہوریت کی بد دعا ہے یہاں کوئی وزیراعظم اپنی مدت ملازمت کبھی پوری نہیں کر پایا اور خان صاحب جو نیک شریف ایماندار و خوبرو تھے ان کی مدت ملازمت کا معاہدہ بھی 6 سال قبل ختم کر دیا گیا۔

وزیراعظم پاکستان نے اپنے حالیہ انٹرویو میں تسلیم کیا ہے کہ مقتدر حلقوں نے انھیں استعفی، قبل از وقت انتخابات اور عدم اعتماد کا سامنا کرنے کا اختیار دیا تھا، میرے خوبرو ریاست مدینہ کے داعی وزیراعظم نے عدم اعتماد کا راستہ چنا، کیونکہ جنرل مشرف ڈرتے نہیں تھے میرے عظیم کپتان گھبراتے نہیں ہیں۔ دوسرے الفاظ میں جس نے سیاسی شطرنج کی یہ بساط بچھائی تھی وہ نہایت زیرک انسان ہے۔

ہانڈی چڑھی تھی کچھ تو نکلنا تھا، نتیجہ سب کے سامنے ہے میرے کپتان جو ریاست مدینہ کا خواب لے کر بنی گالہ سے نکلے تھے اب بنی گالہ میں تشریف فرما ہیں، اور فسطائیت کو ہوا دے رہے ہیں۔

لیکن اس تمام مشق یعنی عدم اعتماد سے ہمارے کپتان کوئی سبق سیکھیں گے تو اس کا جواب فی الوقت نہیں ہے۔ اس بات کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اپنی غلطیوں کا ازالہ کرنے کی بجائے خان صاحب نے وہی وتیرہ اختیار کیا ہے جو حکومت میں آنے سے پہلے تھا۔ گلی گلی جلسہ اور احتجاج، اور دشنام طرازی کا طرزعمل اسی طرح جاری ہے جس طرح حکومت میں آنے سے پہلے جاری و ساری تھا۔ نتیجہ یہ ہے کہ معاشرہ تقطیب (پولرائزیشن) کا اس حد تک شکار ہو چکا ہے کہ یا آپ خان صاحب کے ساتھ ہیں یا آپ غدار اور استعمار کے ہرکارہ ہیں۔

خان صاحب نے اپنی حکمرانی کی پٹاری میں سے کارکردگی نکالنے کی بجائے، مذہب اور قومیت کے نام کا اژدھا نکالا ہے جو مقتدر حلقوں، عدلیہ، اور عوام الناس کو نگل رہا ہے۔ کبھی نور عالم، ندیم افضل چن، لوگوں کی عدم برداشت کا شکار ہوتے ہیں تو کبھی مدینہ منورہ میں روضہ رسول ﷺ کا تقدس پامال کیا جاتا ہے۔

حالیہ انٹرویو میں خان صاحب ایک اور بات کا اقرار کر چکے ہیں کہ انھیں اس سازش کا جولائی 2021 ء میں ہی پتا چل گیا تھا، اسی بنیاد پر وہ ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض کو ان کے منصب سے ہٹانا نہیں چاہتے تھے، اس سے کئی پیغامات واضح ہیں کہ خان صاحب نے امریکی سازش کا جو بیانیہ بنایا تھا وہ غلط ہے، اگر امریکہ و مقتدر حلقہ اس سب کا حصہ تھے تو انھوں اتنی دیر کیسے لگ گئی اس سازش کو عملی جامہ پہنانے میں، دوسرا مجھ جیسے ناقص العلم شخص کو یہ معلوم تھا کہ آئی ایس آئی ملک کی آنکھیں اور کان ہیں خان صاحب نے واضح تشریح کی ہے کہ یہ حکومت وقت کی آنکھ اور کان ہوتی ہیں، اس لئے ریاست کو اب حقیقی طور پر اپنی فکر کرنی چاہیے، تیسری اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ اگر فیض حمید صاحب رہ جاتے تو خان صاحب کا بال بھی بیکا نہیں ہونا تھا۔

سہیل وڑائچ کا وہ خوبصورت جملہ نہیں بھولتا جو انھوں نے 19 اگست 2018 ء کو فرمایا تھا کہ پاکستان کی تاریخ میں کوئی شخص اس مسند سے عزت سے نہیں گیا۔ لیکن اس دفعہ جانے والا ملک کے تمام بڑوں کی عزت بھی تار تار کر گیا ہے۔ امید ہے اس کے بعد شاید اسلامی جمہوریہ پاکستان حقیقی معنوں میں اسلامی و جمہوری ہو جائے جس کے امکانات نہایت مخدوش ہیں۔

خان صاحب البتہ الیکشن کے لئے اپنا بیانیہ بنا چکے ہیں جس کی بنیاد پر وہ الیکشن لڑیں گے، اور اس بیانیہ میں حسب ذائقہ و ترکیب مذہب اور قومیت کا آمیزہ نہایت خوبصورتی سے استعمال کر رہے ہیں۔ یہ بیانیہ دن رات نا صرف مقبول ہو رہا ہے بلکہ اس چورن کو ہاتھوں ہاتھ لیا جا رہا ہے،

نیز خان صاحب نے خودمختار ریاست کے قیام کا ایک عجیب و غریب خواب دکھایا ہے، جو دیوانے کا خواب ہے، کیونکہ یہاں طاقت کا سرچشمہ عوام الناس تو ہیں نہیں یہاں طاقت کا سرچشمہ تو مقتدر حلقہ ہیں۔ ان سے طاقت حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ آپ دیکھیں اگر وہ فیصلہ کر لیں کے آپ کو گدی سے ہٹانا ہے تو دنیا کی کوئی طاقت آپ کی گدی نہیں بچا سکتی یہاں تک کے پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ تحریک عدم اعتماد بھی کامیاب ہو جاتی ہے۔

خان صاحب یہ بات بہتر طریقہ سے جانتے ہیں، مقتدر حلقوں کے کندھے کا سہارا لے کر وہ اقتدار میں آئے تھے اور گدی نشین ہوئے تھے انھوں نے کندھا ہٹایا ہے تو گدی بھی ان کے ہاتھ سے نکل گئی ہے کیونکہ اب وہ غیرجانبدار ہو گئے ہیں۔ خان صاحب کو اصل دکھ عوام الناس یا ان کی حالت زار کا نہیں ہے ان کو دکھ یہ ہے کہ مجھے کیوں ہٹایا۔

آپ دنیا کی حالیہ تاریخ نکال کر دیکھ لیں عسکری ریاستیں خودمختار نہیں ہو سکتی ہیں، اور خاص طور پر وہ جن کی حکمت عملی ایک امریکی صدر کی فون کال کا وزن اٹھانے سے قاصر ہوں۔ ملک معاشی لحاظ سے مضبوط ہوں تو دفاعی لحاظ سے مضبوط ہوتے ہیں۔ معاشی لحاظ سے ہمارے سیاستدانوں نے کبھی ملک میں میثاق معیشت کی بات نہیں کی نا ہی سوچا ہے کہ اس کا کوئی حل نکلنا چاہیے، سب آتے ہیں اپنا اپنا ڈنگ ٹپاتے ہیں وہی گنے چنے وزیر خزانہ ہیں جو کبھی مشرف کے ساتھ تو کبھی زرداری صاحب کے ساتھ تو کبھی خان صاحب کے ساتھ ہیں۔

بنیادی طور پر جن اصلاحات کی نظام کو ضرورت ہے ان سے ہماری تمام سیاسی جماعتیں قاصر ہیں۔ دلی طور پر ان سب کو معلوم بھی ہے کہ مسائل کیا ہے مگر سنجیدگی سے حل کے لئے کوئی بھی تیار نہیں۔ مثال کے طور پر جب مسلم لیگ نون کی حکومت سٹیل مل، پی آئی و دیگر اداروں کی نجکاری کرنا چاہ رہی تھی تو ہمارے ارسطو معیشت داں جناب اسد عمر نے فرمایا کہ ان اداروں کی نجکاری کی ضرورت نہیں، ہم انھیں بہتر طریقہ سے چلا کر دکھائیں گے۔ وہ سفید ہاتھی اسی طرح کھڑے ہیں اور ہم سب ان سفید ہاتھیوں کا بوجھ اٹھا رہے ہیں۔

خان صاحب کو چاہیے اب دل گردہ بڑا کر لیں حکومت سے انسان نکلتا ہی دوبارہ آنے کے لئے ہے، وہ تو خوش نصیب ہیں کہ ان کی کارکردگی کی کوئی بات ہی نہیں ہو رہی اگر اس پر بات ہو جائے تو خان صاحب شاید اپنی ضمانت اگلے الیکشن میں ضبط کروا لیں۔ اب بدعنوانی کے کیس بھی بنیں گے، توشہ خانہ، عثمان بزدار، فرحت شہزادی عرف فرح خان کے بھی قصہ کہانیاں سامنے آئیں گے یہ سب اب چلتا رہے گا، لیکن ایک مفت کا مشورہ ہم بھی خان صاحب کو دینا چاہیں گے نون لیگ ووٹ کو عزت دو کا بیانیہ دے کر نکلی تھی تو خان صاحب ان کا مذاق اڑاتے تھے اب خان صاحب اسی بیانیہ کا ٹوکرا سر پر اٹھائے گلی گلی، شہر شہر ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں۔

نون لیگ کا اختتام بھی گیٹ نمبر چار ( 4 ) پر ہوا ہے آپ کا بھی انجام وہی ہو گا، اس لئے فسطائیت و انقلاب کی آگ کو اتنی ہی ہوا دیں جس کی تپش آپ برداشت کر سکیں ورنہ اس ملک میں وزیراعظم تختہ دار پر بھی جھولے ہیں، نا اہل بھی ہوئے ہیں اور جلا وطن بھی آپ یا آپ کی جماعت ان تینوں میں سے کسے کے بھی قابل نہیں ہیں۔ کیونکہ اول تو آپ جماعت ہیں نہیں دوم سیاسی تربیت کا شدید فقدان ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments