سست آدمی نے آگ پر قابو پایا


سیریز کا لنک: سست آدمی کے انسانیت پر احسانات

سستو کا قبیلہ آگ تو استعمال کرتا تھا مگر اب تک اسے آگ سلگانی نہیں آئی تھی۔ کہیں قدرتی طور پر بجلی گرنے سے آگ لگتی تو وہاں سے آگ لا کر اپنا الاؤ روشن رکھا جاتا۔ جب تک آگ جلتی رہتی قبیلہ گوشت کو بھون کر کھا لیتا ورنہ کچا چبا جاتا۔ رات کو بھی تاریکی میں سونا پڑتا اور درندوں سے بچاؤ بھی مشکل ہو جاتا۔ اب یہ محض اتفاق ہے کہ الاؤ عموماً اسی وقت بجھتا تھا جب اس کی دیکھ بھال کے لیے سستو کی ڈیوٹی لگائی جاتی۔ یوں وہ مصیبت میں ہی مبتلا رہتا۔

چار لاکھ برس پہلے کا ذکر ہے کہ ایک دن سستو اور اس کا قبیلہ شکار کرنے نکلے۔ ان دنوں وہ چلتے پھرتے ایک سنگلاخ وادی میں آ گئے تھے جہاں پتھریلے پہاڑوں کے بیچ چشمے بہتے تھے۔ چشموں کے کنارے پر سبزہ بھی تھا، یوں وہاں چرند پرند آ جاتے تھے۔ سب اپنے اپنے نیزے ہاتھوں میں پکڑے شکار کے لیے تیار تھے، اچانک ایک شخص نے ہرن دیکھا اور اسے اپنا نیزہ پھینک کر مارا۔ ہرن کو کچھ چوٹ لگی مگر وہ ڈھیر نہیں ہوا۔ وہ لنگڑاتے ہوئے بھاگنے لگا۔ یہ دیکھ کر سستو کے قبیلے والے بھی پیچھے پیچھے دوڑے۔ سستو کو محنت کرنے میں کوئی فائدہ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ اگر ہرن نے قابو آنا ہی ہے تو کوئی دوسرا اسے پکڑ لے گا، خود کو تھکانا بیکار ہے۔ بہرحال فیملی پریشر کی وجہ سے وہ بھی مرے مرے سے قدموں سے یوں ہرن کے پیچھے دوڑنے لگا کہ اس کے نیزے کا دستہ تو اس کے ہاتھ میں تھا مگر اس کی نوک پتھریلی زمین پر گھسٹتی جا رہی تھی۔

ہرن کوئی ایک میل تک دوڑتا گیا اور پیچھے پیچھے قبیلے والے بھی۔ سستو بھی نیم دلی سے دوڑ رہا تھا۔ آخر کار ہرن زخموں سے نڈھال ہو گیا۔ ایک شکاری نے اسے نیزہ مار کر گرا دیا۔ سب جمع ہو کر اس کی کھال اتارنے لگے۔ سستو جب وہاں پہنچا تو چستو نے اس کا مذاق اڑانے کی نیت سے اس کا نیزہ چھیننے کی کوشش کی مگر یہ کیا؟ چستو نے جیسے ہی نیزے کی نوک پر ہاتھ ڈالا، ایک چیخ مار کر اس نے ہاتھ کھینچ لیا۔ نیزے کی نوک سے نہ صرف دھواں اٹھ رہا تھا بلکہ وہاں چھوٹے چھوٹے سے انگارے بھی موجود تھے۔

تم نے نیزے کو آگ کیسے لگائی؟ ہمارا الاؤ تو ایک مہینے سے بجھا پڑا ہے۔ چستو نے پوچھا۔

میں تمہاری طرح بے وقوف نہیں ہوں کہ ہرن مارنے میں اپنا وقت ضائع کروں۔ تم ہرن مار رہے تھے تو میں یہ سوچ رہا تھا کہ آگ کیسے جلائی جائے۔ پھر میں نے اس کا طریقہ دریافت کر لیا۔ سستو نے نہایت باوقار انداز میں کہا۔ سمجھ تو اس بھی نہیں آئی تھی کہ آگ کیسے لگی ہے مگر وہ یہ تسلیم نہیں کر سکتا تھا۔ اس نے خشک گھاس کے ایک ڈھیر میں اپنے نیزے کا سرا ڈالا، وہاں سے دھواں اٹھنے لگا تو سستو نے پھونکیں مار مار کر الاؤ جلا لیا۔ سب ہرن کا گوشت لے کر واپس غار میں پہنچے اور وہاں سستو کی جلائی گئی آگ کی مدد سے غار کا الاؤ دوبارہ روشن کر دیا گیا۔

سستو مسلسل سوچ رہا تھا کہ نیزے میں آگ کیسے لگی ہو گی۔ پھر اسے خیال آیا کہ نیزے کی نوک پتھر پر رگڑ کھا رہی تھی، شاید اس کی وجہ سے ایسا ہوا ہو۔ اس نے ایک چھوٹی سی لکڑی اٹھا کر دیوار سے رگڑنی شروع کی۔ وہ یہ دیکھ کر حیران ہوا کہ لکڑی کا سرا واقعی گرم ہو گیا تھا۔ سستو نے کچھ سوچا اور دو لکڑیوں کو آپ میں رگڑنے لگا۔ لکڑیاں گرم تو ہو گئیں مگر آگ کا نام و نشان تک نہ تھا۔

سستو کا بازو بھی تھک گیا تھا۔ اس نے ایک چھوٹے سے ڈنڈے کو ایک لکڑی موجود سوراخ میں پھنسایا اور دونوں ہتھیلیوں سے اسے مسلنے لگا۔ کچھ ہی دیر میں لکڑی سے دھواں بلند ہونے لگا اور پھر چھوٹے چھوٹے سے انگارے نمودار ہوئے۔ اب سستو کو انگارے بنانا آ گیا تھا جس سے وہ اپنی مرضی سے کبھی بھی آگ جلا سکتا تھا۔ سستو نے انگارے خشک گھاس میں ڈالے اور پھونکیں مار مار کا آگ جلا لی۔ یوں سستو کی کاہلی کے سبب بنی نوع انسان نے آگ کو قابو کرنے میں کامیابی حاصل کر لی۔

عدنان خان کاکڑ
اس سیریز کے دیگر حصےسست آدمی نے فیشن اور تدفین کا رواج ڈالاسست آدمی نے زبان ایجاد کی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments