چھوٹی ڈیوڑھی اور بڑی ڈیوڑھی کا قصہ


( نوٹ: چھوٹی ڈیوڑھی اور بڑی ڈیوڑھی کی اصطلاحات کا لطف ملتانی سرائیکی ہی اٹھا سکتے )
یہ کہانی ہے چھوٹی ڈیوڑھی اور بڑی ڈیوڑھی کی

صاحب عالم طبعاً عاشق مزاج تھے، محبوباؤں کے جم غفیر ہوتے ہوئے بسائے تو انہوں نے صرف دو گھر ہی تھے جو چھوٹی ڈیوڑھی اور بڑھی ڈیوڑھی کے نام سے معروف تھے،

ساری پرجا اور ملازمین جانتے تھے کہ صاحب عالم چھوٹی اور بڑی ڈیوڑھیوں کی باریوں سے انتظام خانہ چلاتے ہیں، اس لئے ملازمین دونوں ڈیوڑھیوں سے اپنے اپنے تعلقات اچھے رکھتے تھے

لیکن وقت پہیے نے ایسا چکر دیا کہ صاحب عالم جو چھوٹی اور بڑی ڈیوڑھیوں کی کج ادائیوں سے تنگ آچکے تھے کہ ان کو ایک نئی کھلاڑی محبوبہ ایسی ملی کہ اس ہر ادا صاحب عالم کے جگر سے پار ہوئی اور اس نے پرانی سب محبوباؤں سے کج ادائی کی اور نئی سے رشتہ التفات قائم کر لیا

محبوباؤں کو اپنے عاشق بمنی یار کی اس کج ادا طبیعت کا اندازہ تھا، شروع میں تو انہوں نے اس ساری صورت حال کو ایزی لیا کہ روٹین کی یاری ہے، مگر کبھی کبھی ہلکی ہلکی ڈھولکی بجا کے اپنے ہونے کا احساس بھی دلاتی تھیں اور پرانی مستقل وفاؤں کی یاددہانی بھی کرائی جاتی تھی

لیکن ایک سوئمبر تو ایسا آیا کہ غضب ہی ہو گیا، جب نئی نویلی محبوبہ سلیکٹ یا منتخب ہو گئی اور سیاست کی چھوٹی ڈیوڑھی اور بڑی ڈیوڑھی ویران ہو گئیں

شروع شروع میں تو چھوٹی ڈیوڑھی اور بڑی ڈیوڑھی نے سیاپا بھی کیا، عاشق زار کو اپنی وفاؤں کے قصے بھی سنائے

مگر تقدیر کا لکھا کون ٹال سکتا تھا، سو اب تو سہاگن وہی تھی جو پیا من بھا گئی تھی،

چھوٹی ڈیوڑھی اور بڑی ڈیوڑھی کے باہمی مناقشے بھی رہتے تھے، جس کی بنا پہ ماضی میں ایک دوسرے کی ٹانگ کھچائی جیسی حرکات کی بنا پہ ایک دوسرے اعتبار نہیں قائم ہو رہا تھا، اور اپنے اپنے کینڈے میں اچھے وقت کے انتظار کو تقدیر کا لکھا سمجھ کر چپکی سی تو تھیں۔

مگر یار کی کج ادائی کا غم اور ٹھکرائے جانے کا زخم تھا کہ بھرنے میں ہی نہیں آ رہا تھا،

چھوٹی ڈیوڑھی اور بڑی ڈیوڑھی بھلا کہنہ برس ہو چکی تھیں مگر صحن سیاست کی گھاگ اور خرانٹ تھیں، حالات ایسے بن گئے تھے کہ

اپنے اپنے بے وفاؤں نے ہمیں یکجا کیا
ورنہ میں تیرا نہ تھا اور تو میرا نہ تھا
کے مصداق اکٹھا ہونا پڑا،

ایسے میں یار کی کج ادائیوں سے زخم خوردہ اور مجروح مولانا بھی مل گئے اور انہوں ماضی کی دونوں رقیباؤں کو صیغہ محبت بھی پڑھا دیا

ادھر نئی نویلی کو اپنے حسن کوزہ گر کا اتنا مان تھا کہ کبھی کبھی یار کو بھی کچوکے دینا شروع کر دیے

یار نے روایتی عاشقوں کی طرح شروع میں تو ماہ عسل کے دورانیے کو انجوائے بھی کیا اور کچوکوں سے حظ بھی اٹھایا

مگر عشق جتنا بھی زور آور ہو اس کو ایک دن اپنے اوقات پہ آنا ہوتا ہے

ابھی وہی حسن کھلنے لگا، وہی ادائیں جان کو آنے لگیں، وہی غمزے عشوے اور ادائیں تو بدتمیزی اور گستاخیاں لگنے لگیں

سواب! صاحب عالم کو پھر چھوٹی اور بڑی ڈیوڑھی کی یاد ستانے لگی، سو رجوع بھی ہو گیا، اور چھوٹی بڑی ڈیوڑھی سے پھر سلسلہ التفات بحال ہو گیا

چھوٹی بڑی ڈیوڑھی کی رونقیں بحال ہوئیں، محبوبہ کج ادا کو میکے بھیج دیا

بس اب راوی پریشان ہے کہ صاحب عالم کب کس سے ناراض ہوں اور کس کی ادا پہ راضی ہوں گے، کس کی ڈیوڑھی آباد ہوگی، کس کی ڈیوڑھی پھر ویران ہوگی

یا تاریخ ایک نیا موڑ لے گی اور تیسری ڈیوڑھی بھی قائم ہو جائے گی
سو آپ بھی میں بھی منتظر ہیں اور رہیں گے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments