تضحیکی سیاست


بھلے وقتوں میں عام لوگ بھی باہمی گفتگو میں آداب معاشرت اور حفظ مراتب کا خیال رکھتے تھے۔ کسی کی بد زبانی کا جواب بھی تہذیب کے دائرے میں سننے کو ملتا، جیسے ایک صاحب ہتک آمیز جملوں کے رد عمل میں کچھ یوں گویا ہوئے ”دیکھئے بھائی آپ حد سے بڑھ رہے ہیں، اعتدال میں رہیے، کہیں ایسا نہ ہو کہ میں بھی آپ کی شان میں گستاخی کر بیٹھوں ”۔ واہ بھلا آج یہ سننے کو کہاں ملتے ہیں۔ ایک بار شیخو  نے خوا جہ سرا کو گدھا کہا تو ڈانٹ پڑی کہ جس کی دو تولے کی زبان ہی قابو میں نہیں وہ اتنی بڑی ریاست خاک چلا پائے گا۔

لکھنو اور دہلی کی تہذیب کا رکھ رکھاؤ اور آداب کیا کہنے۔ اشرافیہ کے طبقات بھی اپنے بچوں کو تہذیب سکھانے طوائفوں کے ہاں لاتے تھے۔ اب آپ، حضور والا، قبلہ، محترم، جناب جیسے آداب کا دور نہیں رہا۔ بلکہ اوئے تیری، تو چیز کیا ہے، لعنت ہے، پھاڑ میں جاؤ، خس کم جہاں پاک، کے الاپ سنائی دیتے ہیں۔ کبھی بد ترین انسانوں اور غداروں کو گالی بھی مہذب پیرائے میں ہوتی تھی، جیسے جعفر از بنگال، صادق از دکن ننگ دیں ننگ ملت ننگ وطن قائد بھی آزاد کو زیادہ سے زیادہ ”شو بوائے آف کانگریس“ یا گاندھی کو ”بوڑھا چالاک گاندھی“ کہہ کر مطمئن ہو جاتے۔

پر اس کے بعد بد تہذیبوں کے سلسلے دراز ہوتے گئے۔ ستر کی دہائی میں اک جمہوری سربراہ اپنے سیاسی حریفوں کو ”سور کے بچو“ چوہے، ڈبل بیرل، آلو خان، کانا، بینڈ ماسٹر، مولانا وہسکی ”کہا کرتے تھے اور عوام تالیاں بجاتے تھے۔ دور حاضر تو اس میدان میں ڈھیروں میدان مار گیا۔ آداب گفتگو تو ہوا ہوئے۔ ایک دوسرے کو تمیز سے دیکھنا بھی نصیب میں نہیں رہا۔ کوئی برا مانے تو سلپ آف ٹنگ کہہ کر ٹال دیا جاتا ہے۔ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا نے تو گویا آٹھ چاند لگا دیے۔

سنا کرتے تھے کہ سیاست کے میدان میں سبھی ننگے ہیں اب سوشل میڈیا اور ٹاک شوز میں ان ننگوں کو براہ راست دیکھنے کا اتفاق روز ہی ہو جاتا ہے۔ یہ کہنا بھی بجا ہو گا کہ سیاست کے حمام میں ننگوں کے ساتھ ساتھ کچھ ”گنجے“ بھی ہیں۔ اینکر پرسن فساد کی جڑ بنے ہیں اور پارلیمنٹیرین باقاعدہ چارلیمنٹیرین ہوچکے ہیں۔ ایوانوں اور ٹی وی شوز میں گالی گلوچ کے فی البدیہ مقابلے ہوتے ہیں اور مکوں اور گھونسوں کا ماہرانہ استعمال بھی دیکھا جاتا ہے ۔

توصیف پہ تالیاں بند ہو چکی ہیں کیونکہ تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے، ایک ہاتھ سے تو صرف تھپڑ بج سکتا ہے۔ یوسفی کہتے ہیں کہ کچھ لوگوں کی زبان کا چلن ان کے اپنے چال چلن سے بھی زیادہ خراب ہو چکا ہے۔ مزید فرماتے ہیں کہ ”ہم نے بیالوجی اور علم الاعضا کی بہت سی اصطلاحات محلے کے بزرگوں اور خواتین کے جھگڑوں میں سے سن کر یاد کیں”۔ موجودہ حالات میں کہا جاسکتا ہے کہ اب یہ سہولت سیاسی قائدین اور سیاسی کارکنوں کے ہاں دستیاب ہے۔

اب سیاسی لوگ تیشہ سخن برائے ایذا رسانی لئے اپنے مخالفین کے سر ہیں۔ کبھی یہ سب لوگ نہ جھکنے اور نہ بکنے والے سمجھے جاتے ہیں پر اب محض ”بکنے“ کا رواج باقی ہے۔ اپنے ہاں سیاسی ہلڑ بازی اور زبان درازی قدیم روم کی یاد تازہ کرتی ہیں۔ یہ اصطلاح 44 قبل مسیح میں رائج ہوئی۔ فلپکس روم کے مشہور احتجاجی قائد ”سسیرو“ کی چودہ دھواں دھار تقریروں کا مجموعہ ہے جو اس نے اپنے سیاسی حریف مارک انٹونی کے خلاف سیاسی جلسوں میں کی تھیں۔

سسیرو نے اپنے سیاسی مقاصد کے لئے جو لئیس سیزر کے قتل کو موضوع بنا کر شہرت حاصل کی اور سیاسی تاریخ کی بدترین مخالفانہ تقریریں کیں۔ اس اسلوب سے الزامات گھڑے کہ سچ لگنے لگے اور اپنا الو سیدھا کیے رکھا۔ دوسری طرف بڑے بڑے قائدین نے اپنے دفاع اور تحسین کے لئے خصوصی قابلیتوں کے حامل افراد پہ انحصار کیا۔ جیسے ہٹلر کے ساتھ گوئیبلز اور میگڈا کے نام آتے ہیں۔ استہزائی اور دشنامی سیاست کی شروعات ساٹھ کے عشرے میں ہوئی کیونکہ دور ایوب بہت سے عیوب ساتھ لایا۔

ستر کی دہائی میں کسی کو ڈبل پیرل، کسی کو آلو خان اور کسی کو اچھرے کا پوپ کے القابات سے نوازا گیا۔ حریفوں کو شکست خوردہ، مسترد شدہ، مایوس، نکمے اور نااہل کہا جاتا رہا۔ نوے کا عشرہ بی بی اور میاں کا عشرہ ثابت ہوا۔ خوب لفظی ہاتھا پائی ہوئی شاعر نے لکھا۔ پہنچ گئے ہیں الیکشن کے پھر دوراہے پر سمجھ نہ آئے میرے بھائی کس طرف جائیں ادھر میاں ہے ادھر مائی کس طرف جائیں ادھر کنواں ہے ادھر کھائی کس طرف جائیں ایسے سلسلہ ہائے خرافات و نشیع نشیب و فراز سے ہوتے اکیسویں صدی تک پہنچے اور آج تاریخ کی بلند ترین سطح تک پہنچ چکے ہیں۔

سیاسی تبریٰ اور سیاسی ضلع جگت کا عروج ہے۔ قیامت کا فتنہ قصۂ پارینہ ہوا۔ اب تو شیطان کی آنت اور شب یلدا بھی سر جھکائے کھڑی ہیں اور بے شمار امیدوار قطار اندر قطار تمغہ حسن بدتمیزاں کے حصول کی ہوس میں گوادر کے ساحل سے تابخاک کاشغر ہیں۔ سمجھ نہیں آتی کہ قائدین، ورکرز، صحافیوں، وکلاء اور اینکرز کو ایٹی کیٹس اور (کانسٹیٹیوشن) سکھانے کے لئے کون سی ٹیوشن درکار ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments