مولانا عبد السلام نیازی کے خلیفہ مجاز سے چند ملاقاتیں



مزاج کے اعتبار سے میں شرمیلا، کم آمیز اور کم گو شخص ہوں۔ اجنبی لوگوں سے ملنے میں مجھے بہت جھجھک کا سامنا رہا ہے۔ کئی سال ہوسٹل میں رہنے کے بعد اس عادت پر کسی حد تک قابو پا چکا تھا۔ اس افتاد طبع کے باوجود مجھے ہر طرح کے لوگوں سے ملنے کے مواقع میسر آئے۔ اس میں زیادہ ہاتھ میرے دو دوستوں جاوید احمد غامدی اور باصر سلطان کاظمی کا رہا ہے۔
باصر کی معیت میں مجھے ادیبوں اور شاعروں کے ساتھ ملنے کے مواقع ملے۔ جاوید صاحب کے ساتھ مذہبی، تبلیغی، سیاسی اور علمی شخصیتوں سے ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ اس وقت ایک ایسی ہی شخصیت کی یاد آ رہی ہے۔
سن 1970 میں جاوید صاحب نے دائرۃ الفکر کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا تو میں ان کا اولین رفیق کار تھا۔ اس وقت ہمارا کام تھا مختلف لوگوں سے مل کر اپنا پیغام ان تک پہنچانا اور ایسے افراد کو تلاش کرنا جو ہمارے ادارے کی مالی معاونت کر سکیں۔ اسی تگ و دو میں بلال گنج میں ایک پیر صاحب سے بہت سی ملاقاتیں ہوئیں۔ پیر صاحب کا نام سید طاہر میاں تھا۔ کلین شیو، خوش گفتار انسان تھے۔ وہ دہلی کے مشہور اور نادرہء روزگار عالم مولوی عبدالسلام نیازی کے شاگرد اور خلیفہ تھے اور اس اعتبار سے مولانا مودودی صاحب کے ہم درس تھے۔ ان کی زبان سے مولانا نیازی اور مولانا مودودی صاحب کے بہت سے واقعات سننے کو ملے۔
افسوس یہ ہے کہ مجھے زندگی میں ماسوا چند مہینوں کے کبھی ڈائری لکھنے کی عادت نہیں رہی۔ اب پرانی باتوں کو لکھتے وقت بس حافظے پر ہی انحصار کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے بہت سے واقعات یادداشت سے محو ہو چکے ہیں لیکن کچھ ہیں جو یاد رہ گئے ہیں۔
نیازی صاحب کے بارے میں جاننے والوں کو معلوم ہے کہ تمام تر فضیلت علمی کے باوجود جب ان پر جذب کی کیفیت طاری ہوتی تھی تو ان کا مزاج بہت برہم ہو جاتا تھا۔ وہ خود کہا کرتے تھے کہ ان کا ناریل چٹخ جاتا تھا۔ سید طاہر میاں کا سنایا ہوا ایسا ہی ایک واقعہ یاد آ رہا ہے۔ ایک بار کوئی سکھ انھیں ملنے آ گیا۔ نیازی صاحب نے پوچھا، کیسے آنا ہوا۔ اس نے جواب دیا، حضور قدم بوسی کے لیے حاضر ہوا ہوں۔ یہ سن کر نیازی صاحب کا ناریل چٹخ گیا۔ انھوں نے پاؤں اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا، لے۔۔۔ چوم اسے۔ اب وہ سکھ حیران و پریشان کھڑا تھا۔ نیازی صاحب نے دو تین بار اپنی بات دہرائی تو اس بے چارے نے وہاں سے کھسکنے میں ہی عافیت جانی۔
ان کے علم و فضل کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ ایک بار پتنگ اڑانے کی خواہش کا اظہار کیا۔ نیازی صاحب نے فوراً ڈور اور پتنگ منگوائی۔ چھت پر جا کر طاہر صاحب نے پتنگ چڑھائی۔ ڈور نیازی صاحب نے پکڑی ہوئی تھی۔ بس کچھ ہی دیر بعد ذہن کی رو کسی اور طرف چل پڑی۔ طاہر صاحب کو پتنگ چھوڑ کر کاغذ قلم سنبھالنے کو کہا۔ بات پتنگ اڑانے سے شروع ہوئی اور پتہ نہیں کن کن وادیوں اور گھاٹیوں سے ہوتی ہوئی مکمل ہوئی۔ اتنے عرصہ میں سو ڈیڑھ سو صفحات پر مشتمل رسالہ املا کروا دیا تھا۔ مجھے کچھ یاد پڑتا ہے کہ ان کے پاس کافی تعداد میں نیازی صاحب کے مسودات بھی تھے۔
مولانا مودودی کا ذکر ابوالاعلیٰ کہہ کر کرتے تھے۔ تصوف کے معاملہ میں اختلاف کے باوجود مودودی صاحب کے علمی مقام و مرتبہ کے بہت مداح تھے۔ زمانہ طالب علمی کی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے بتایا کہ ابوالاعلی کو گڑ کھانے اور انگریزی ناول پڑھنے کا بہت شوق ہوتا تھا۔ اس شوق پر ایک دو بار نیازی صاحب سے مار بھی کھائی تھی۔ اس عمر میں بھی خود اعتمادی کا یہ عالم تھا کہ جب نیازی صاحب کسی وجہ سے درس نہ دیتے تو یہ خود باقی طالب علموں کو بٹھا کر پڑھانا شروع کر دیتا۔ اس وقت ابوالاعلی اکثر کہا کرتا تھا، میں اردو نثر میں ایسا اسلوب ایجاد کروں گا جو دلوں میں آگ لگا دے گا۔
مودودی صاحب سے لاہور میں ہونے والی ایک ملاقات کی روداد بھی بڑے دلچسپ انداز میں سنائی۔ طاہر میاں صاحب کے مریدوں میں اچھی خاصی تعداد بیوروکریسی اور فوجی افسران کی تھی۔ مودودی صاحب کو کسی کام کے سبب ان کی مدد کی ضرورت پڑی۔ بتانے لگے کہ کار بھیج کر مجھے بلوا بھیجا۔ میں ان کے ہاں گیا۔ ملاقات ہوئی تو کہنے لگے آپ تو بس نیازی صاحب کی تصویر بن گئے ہیں۔ کہیں آتے جاتے ہی نہیں۔ بس میاں کیا بتائیں، باتیں کرتے رہے، خود پان کھاتے رہے، ہمیں پوچھا تک نہیں۔ جب میں ملاقات کے بعد کمرے سے باہر نکلا تو کس نے نہیں پوچھا کہ بھیا واپس کیسے جاؤ گے؛ وہاں سے ٹیکسی لے کر گھر واپس آیا۔
سید طاہر میاں کی زبان سے یہ واقعہ سن کر برسبیل تذکرہ مجھے ایک اور واقعہ یاد آ گیا جس کا درج گزٹ ہونا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ مہمان داری کا یہ انداز جماعت والوں کا شعار بن چکا تھا۔ سن 1968 کے لگ بھگ کی بات ہے کہ مولانا مودودی نے سابق وزیر اعظم پاکستان چودھری محمد علی کو، جو اس وقت نظام اسلام پارٹی کے صدر تھے، جماعت کی مجلس شوریٰ سے خطاب کرنے کی دعوت دی۔ چودھری صاحب کو لانے کے لیے گاڑی بھیجی گئی کیونکہ چودھری صاحب کے پاس اپنی کار نہیں ہوتی تھی۔ جب وہ اپنا خطاب ختم کرکے باہر نکلے تو کسی نے نہ پوچھا کہ آپ واپس کیسے جائیں گے۔ وہ بڑھاپے اور خراب صحت کے ساتھ کافی دیر تک اچھرہ موڑ کے سٹاپ پر خوار ہو کر ٹیکسی لے کر واپس گھر پہنچے تھے۔ یہ واقعہ اخباروں میں بھی رپورٹ ہوا تھا۔
ایک بار ہم دونوں سید طاہر میاں کے ہاں موجود تھے کہ ڈاکٹر برہان احمد فاروقی صاحب بھی وہاں تشریف لے آئے۔ اب دونوں بزرگوں کی ملاقات کا احوال دیدنی تھا۔ فرشی نشست تھی۔ دونوں بزرگ آمنے سامنے التحیات کی پوزیشن میں بیٹھے ہوئے تھے۔ ڈاکٹر صاحب کی گل افشانی گفتار شروع ہوئی۔ ہر آٹھ دس جملوں کے بعد ڈاکٹر صاحب دونوں ہاتھوں کو جوڑ کر اوپر والے دھڑ کو ایک دائرے میں گھماتے ہوئے کہتے، بھائی صاحب، معاف کیجیے گا تعلی سے کام لے رہا ہوں۔ پیر صاحب جواب دیتے، نہیں صاحب، میں تو بہت طالب علمانہ انداز میں سن رہا ہوں۔ اس ادب آداب اور رکھ رکھاؤ کو دیکھ کر مجھ جیسے دیہاتی کے لیے ہنسی ضبط کرنا کافی مشکل ہو رہا تھا۔
پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو دل میں ہوک سی اٹھتی ہے کہ اس شہر لاہور میں کیسے کیسے باکمال، باعلم اور وضعدار لوگ موجود تھے۔ وے صورتیں الہٰی کس دیس بستیاں ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments