سیاسی بد خبرے اور خالد حمید صدیقی

فاروق عادل - مصنف، کالم نگار


خبروں کا انبار لگا ہوا ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے سعودی عرب کا دورہ کیا۔ متحدہ عرب امارات پہنچے۔ ان دوروں میں دیگر کے علاوہ وفاقی وزیر خزانہ ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل بھی ساتھ تھے۔ یہ دورے کئی اعتبار سے اہم تھے۔ خاص طور پر قومی معیشت کے تعلق سے۔ گزشتہ دور میں قومی معیشت پر کیا بیتی، یہ کچھ ایسا راز نہیں لیکن یہ دورے اس ضمن میں بہت کچھ مزید جاننے کا ذریعہ بنے۔ مثلاً یہ کہ گزشتہ دور حکومت میں ہمارے ہاں سرمایہ کاری رکی تو اس کے اسباب کیا تھے اور آنے والے دنوں میں اگر ہمارے دوست اس سلسلے میں تحفظات رکھتے ہیں تو وہ کیا ہیں۔ نیز اس مشکل صورت حال سے نکلنے کے لیے مفتاح اسمٰعیل کیا حکمت عملی اپنے ذہن میں رکھتے ہیں۔

ایک مسئلہ شیخ رشید احمد ہیں۔ ان دنوں وہ جس قسم کی زبان استعمال کر رہے ہیں، وہ مستقبل کا کوئی اچھا منظر پیش نہیں کرتی۔ وہ مار دھاڑ، خونریزی اور جلاؤ گھیراؤ کی بات کر رہے ہیں۔ کچھ ایسا ہی لب و لہجہ انھوں 2014 کے دھرنے میں بھی استعمال کیا تھا۔ اسے ان کی عادت سمجھ کر نظر انداز کیا جاسکتا تھا لیکن عمران خان کی مسلسل تقریریں، خاص طور پر میاں والی کی تقریر سے اندازہ ہوتا ہے کہ شیخ صاحب اس قسم کی باتیں بے سوچے سمجھے نہیں کر رہے۔ یہ سب ایک منظم منصوبہ بندی تحت ہو رہا ہے۔ اس کے مقاصد کیا ہیں، یہ سمجھنا کچھ ایسا مشکل نہیں۔ یہ صورت حال ہمیں ایک ایسے اندھیرے کی طرف لے جا رہی ہے، اس میں کسی کا بھی بھلا نہیں۔ خود ان کا بھی نہیں، جن کی وجہ سے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔

ان ہی گمبھیر مسائل کے بارے میں غور و فکر کے دوران میں یار عزیز خالد حمید فاروقی کی رحلت کی خبر ملی اور دل ڈوب سا گیا۔ خالد کو احباب ان کی صحافتی خدمات کے تناظر میں یاد کر رہے ہیں لیکن صحافت انھیں یاد کرنے کا واحد حوالہ نہیں ہے۔ انھوں نے جامعہ کراچی میں ایک ایسے دور میں این ایس ایف کی قیادت کی جب لسانی اور نسلی اسلوب کی خوف ناک سیاست میں بارود کے دھوئیں میں دم گھٹتا تھا اور سنگین کی نوک رگ جاں سے بس ہوا بھر کے فاصلے پر تھی۔

ایسے ماحول میں این ایس ایف جیسی نظریاتی طلبہ تنظیم کا وجود برقرار رکھنا ہی کارنامہ ہوتا لیکن انھوں نے تو اسے صف اول میں لا کھڑا کیا تھا۔ یہ سب کیسے ہوا؟ آج اسے یاد کرتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ جیسے ہمارا یہ ملک ایک بڑی سی جامعہ کراچی بن چکا ہے اور آج کے بعض لیڈر بالکل اسی انداز میں سنگینیں اٹھائے ہم غریبوں کی جان لینے کے درپے ہیں۔ اس ماحول میں خالد کی یاد اور ان کی رخصتی کا دکھ معمول سے سوا ہے۔

ان دنوں میں ہم جامعہ کے ہاسٹل ایوان اقبال میں رہتے تھے۔ جامعہ کراچی کے اس ہاسٹل کی عمارتیں ابھی نئی اور سبزہ خال خال تھا۔ بحیرہ عرب سے اٹھنے والی منھ زور ہوائیں جب پندرہ سولہ میل کا فاصلہ طے کر کے ہاسٹل کی چار منزلہ عمارت کی سیڑھیوں اور برآمدوں سے گزرتی تو طویل سروں کی تیز اور منہ زور سیٹیاں بجنے لگتیں۔ ہارر فلموں کے صوتی اثرات کی شدت بھی ان سے کچھ کم ہی لگتی۔ ایک شب مجھے یاد ہے، ہواؤں کے اسی شور میں دروازے پر دستک ہوئی۔ کچھ ایسے یاد پڑتا ہے، حنیف حسن، خالد اور میں اپنے کمرے کے فرش پر بیٹھے جانے کون سے مسائل سلجھانے میں مصروف تھے کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ سیٹیاں بجاتی ہوا کے شور میں حنیف نے ڈرامائی سی بلکہ کسی قدر خوف زدہ سی آواز میں انھیں مخاطب کیا:

’ کامریڈ!
ہوں ’
خالد نے جواب دیا اور حنیف کی طرف نیم باز آنکھوں سے دیکھا۔
’انقلاب‘
’ ابے انقلاب ہے تو پھر تیری کیوں سٹک رہی ہے، میں اسے دیکھ لوں گا‘ ۔

انھوں مسکراتے ہوئے بات مکمل کی۔ جامعات اور خاص طور پر ہاسٹل کی زندگی میں ہم جماعتوں کے ساتھ اس قسم کی چھیڑ چھاڑ معمول کی بات ہے لیکن سینئرز اور جونیئرز کے درمیان تھوڑی جھجک اور فاصلہ ہوتا ہے۔ گفتگو میں کچھ رکھ رکھا اور ادب آداب کی ایک صورت ہوتی ہے۔ خالد حمید شعبہ ابلاغ عامہ میں استثنا تھے۔ ہر چھوٹا بڑا ان کے ساتھ بے تکلف تھا۔ اپنی تکلیف اور ضرورت ان کے ساتھ شیئر کر سکتا تھا۔ انھیں دیکھ کر مجھے ہمیشہ پروفیسر عثمان غنی کی یاد آ جاتی۔

بہت عرصہ پہلے کی بات ہے، کسی نشست میں ان کی گفتگو سننے کا موقع ملا۔ پروفیسر صاحب کا کہنا تھا کہ ایک عام شخص اور ایک نظریاتی شخص میں ایک بنیادی فرق ہے۔ عام شخص کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنے رہن سہن اور اٹھنے بیٹھنے میں ارد گرد سے ممتاز دکھائی دے۔ اس کے مقابلے میں نظریاتی آدمی میں سادگی اور اکڑفوں نہیں ہوتی۔ وہ سادہ سے کپڑے پہنتا ہے۔ لوگوں میں گھل مل جاتا ہے۔ اس کی کوشش ہوتی ہے کہ اس کے طرز عمل میں کوئی ایسی بات شامل نہ ہو جائے جس سے کوئی بھی شخص اس شخص سے فاصلہ محسوس کرے اور بات کرنے سے ہچکچائے۔ خالد اس معیار پر ہر اعتبار سے پورے اترتے تھے۔

پاکستان تحریک انصاف کے نوجوان کارکنوں کا اس وقت جن حریف جماعتوں اور ان کے متعلقین کے ساتھ رویہ ہے، اس زمانے کی جامعات میں کشیدگی کے دنوں میں بعض طلبہ تنظیموں کے وابستگان میں ایسی کیفیت پیدا ہو جاتی تھی۔ اس کیفیت میں خالد حمید کا شمار ان چند ممتاز طلبہ میں ہوتا تھا جو ہر ایک کے ساتھ بات کر سکتے تھے۔ جذبات کی چڑھی ہوئی آندھی میں ٹھہراؤ پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ میں سوچتا ہوں کہ ہمارے اس عہد میں جس طرح شیخ رشید جلاؤ گھیراؤ کی دھمکیاں دے رہے ہیں، خونریزی اور کارکنوں کی خود سوزی جیسی ناپسندیدہ بات کر رہے ہیں یا عمران خان اپنے کارکنوں کو دیگر جماعتوں کے سیاسی جماعتوں کے کارکنوں اور راہ نماؤں کے خلاف تشدد پر اکسا کر خانہ جنگی کے دروازے کھولنے پر مصر ہیں، ایسے حالات میں خالد حمید ہماری سیاست میں متحرک ہوتے تو ہر قسم کے ڈیڈ لاک کے باوجود وہ کچھ ایسا بیچ بچاؤ کرتے کہ بھڑکتی ہوئی اس آگ پر ٹھنڈا پانی پڑ جاتا۔

یہ خوش گمانی مجھے اس وجہ سے ہے کہ اپنے عہد کی جامعہ کراچی میں انھوں بساط بھر ہمیشہ یہی کام کیا۔ کاش اس عہد کی بڑی بڑی سیاسی شخصیات کم از کم خالد حمید جیسا سیاسی شعور ہی رکھتیں۔ نوے کی دہائی جامعہ کراچی پر بہت بھاری گزری۔ کراچی اس زمانے میں ماضی سے مستقبل میں منقلب ہو رہا تھا۔ ایک ایسا کراچی جس میں روایت پسندی اور لحاظ مروت الطاف حسین کی تند و تیز اور تلخ سیاست کی نذر ہو رہی تھی۔ جامعہ کراچی ان بدلتی ہوئی سیاسی اقدار کے اثرات سے کیسے محفوظ رہ سکتی تھی؟

یہ عین وہی زمانہ تھا جب اپنے تحفظ کے لیے بعض ان طلبہ نے بھی اسلحے کا سہارا لینے میں عافیت سمجھی جو کبھی اس کے قریب بھی نہیں گئے۔ خالد حمید کا اختصاص یہ ہے کہ اس پر آشوب زمانے میں بھی انھوں نے اسلحے کی لعنت سے خود کو محفوظ رکھا۔ ان کا کارنامہ فقط یہ نہیں ہے کہ انھوں نے اسلحے کو کبھی ہاتھ نہیں لگایا بلکہ یہ بھی ہے کہ اس پر آشوب زمانے میں انھوں نے اپنی طلبہ تنظیم کی اہمیت بھی برقرار رکھی۔ یہ اس کے باوجود تھا کہ بعض بڑی بڑی بلکہ دیو ہیکل تنظیموں کے درمیان چھوٹی اور پرامن تنظیموں کے لیے اپنا وجود برقرار رکھنا کوئی آسان کام نہ تھا۔ یہ کام انھوں نے اپنی ذہانت اور خلوص کے علاوہ مہر و وفا اور درد مندی کے اس جذبے کی مدد سے انجام دیا جو فی زمانہ نایاب ہے۔

خالد حمید کی رحلت ہم لوگوں کے لیے تو ایک ذاتی صدمہ ہے کہ بہت سے ماہ و سال ہم نے اکٹھے گزارے۔ کراچی کی خوش گوار شاموں میں جامعہ کی ٹھنڈی سڑک پر طویل سیریں کیں۔ جیب میں پیسے ہوئے تو صوفی کے ہوٹل سے اکٹھے بیٹھ کر کھانا کھا لیا۔ نہ ہوئے ٹھنڈا پانی پی پی کر کئی دن ویسے ہی ہنستے کھیلتے گزار لیے۔ اداس لمحوں میں ایک دوسرے کا حوصلہ بن گئے اور خوشیوں کے وفور میں ہنس ہنس ایک دوسرے کے سرخ ہوتے ہوئے چہرے دیکھے اور محبت سے بغل گیر ہوئے۔ یہ یادیں اپنی جگہ لیکن طالب علم راہنما خالد حمید کی زندگی میں ہماری موجودہ قومی سیاست کے لیے بہت سے سبق ہیں۔ کاش مفادات کی منھ زور آندھی میں بگٹٹ دوڑنے اور اہل وطن کو خونریزی کی خبریں دینے والے بد خبرے ہمارے اس دوست کی زندگی سے ہی کچھ سیکھ سکتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments