جج صاحب اور عورت کی ٹانگیں!


”اگر آپ دوران آبادی اس کی (عورت) ٹانگیں نیچے نہ آنے دیتے تو آج یہ جانے سے انکار نہ کرتی“

کیا کہیں ان الفاظ کو پڑھ کر جو بھری عدالت میں انصاف کی کرسی پر بیٹھے ہوئے منصف نے اس عورت کے لیے کہے جو اس کی عدالت میں اپنی زندگی جینے کا حق خلع کی صورت لینے آئی تھی۔

ہنسیں یا روئیں؟

یہ واقعہ منڈی بہا الدین کی عدالت میں پیش آیا جب خلع کی درخواست رد کرتے ہوئے جج موصوف نے عورت کو اس کے شوہر کے ساتھ جانے کو کہا۔ عورت کے انکار پہ جج صاحب آپے میں نہ رہے اور شوہر کو مخاطب کر کے اسے جھاڑ پلائی۔ جج صاحب کے خیال میں عورت اس لیے جرات سے خلع مانگنے آئی تھی کہ شوہر نے اس کی ٹانگیں ہر وقت فضا میں معلق کیوں نہیں رکھیں؟

ہمیں یہ خبر سن کر قطعی حیرت نہیں ہوئی اس لیے کہ جج محترم بھی تو اسی معاشرے کی پیداوار ہیں جو عورت کو دن رات ایک ہی جگہ سے ناپتا اور تولتا ہے، چاہے وہ عورت ماں ہو، بہن ہو یا بیٹی ہو۔

ہمیں جج صاحب کے گھر کی عورتوں سے شدید ہمدردی محسوس ہوئی۔ اس ماں نے کیسی زندگی گزاری ہو گی جس کا بیٹا عورت کو انصاف دینے کی بجائے اس کی ٹانگوں کے معاملات پہ نظر رکھتے ہوئے شوہر سے ہمدردی جتا رہا ہے۔

شاید جج صاحب کی اماں دن میں اپنے جسم و روح پہ شوہر سے جوتے کھاتی ہوں گی اور رات کو جج کا ابا بیوی کی ٹانگیں نیچے نہیں آنے دیتا ہو گا۔ عورت کے متعلق سیکھا جانے والا جج صاحب کا پہلا سبق!

پھر جج صاحب نے اپنی بہنوں کا معاملہ دیکھا ہو گا جنہیں عزت و غیرت کے نام پہ چھوٹی عمر میں ایک اپنے جیسے مرد کے حوالے کر دیا ہو گا۔ بہن کو نصیحت کی گئی ہو گی کہ ڈولی میں جا رہی ہو، ڈولے میں واپس آنا۔ وہیں چپکے سے بہنوئی کے کان میں سرگوشی کی ہو گی کہ قابو کر کے رکھنا اور ٹانگیں نیچے نہ آنے دینا تاکہ بھاگ نہ سکے۔ معاشرتی چلن سے جج صاحب کا سیکھا گیا دوسرا سبق!

جج صاحب شاید کسی بد قسمت بیٹی کے باپ بھی ہوں جس کی شادی پر ہو سکتا ہے وہ اپنے داماد کو ان سنہری الفاظ کا تحفہ دیں اور داماد مونچھوں پر تاؤ دیتا ہوا بیوی کو قابو میں رکھنے کے اس نسخے کو گھول کر پی لے۔ جج صاحب کی زندگی کا تیسرا سبق!

بخدا ہمیں جج صاحب کے گھر رہنے والی عورت نامی مخلوق سے دلی ہمدردی ہے۔
چلیے اس جملے کا پوسٹ مارٹم ہی کر کے دیکھ لیں کہ ٹانگیں نیچے نہ آنے کے معنی کیا ہیں؟

ایسا تو ہو نہیں سکتا کہ جج صاحب سمجھتے ہوں کہ عورت کو پاؤں زمیں پر اتارنے نہیں چاہئیں۔ جانتے ہیں سب کہ ملکہ یا شہزادی تو وہ ہے نہیں اور فلم پاکیزہ کا ڈائیلاگ بولنے کی نہ کوئی گنجائش ہے، آپ پاؤں زمین پر مت رکھیے گا، میلے ہو جائیں گے۔ فلمی باتوں کا شریف زادیوں سے بھلا کیا تعلق؟

یونہی ایک خیال سرسراتا ہے، ہو سکتا ہے ان کا اشارہ سرکس میں کام کرنے کی طرف ہو جہاں عورت کسی بازی گر کی مانند سر کے بل چلتی رہے اور ٹانگیں فضا میں معلق رہ کر کبھی نیچے نہ آئیں۔ مگر پھر خود ہی سوچتے ہیں، سرکس، بازی گری اور شوہر کو تنبیہ۔ بات کچھ سمجھ میں آتی نہیں۔

پھر کیا معنی اخذ کریں ٹانگیں نیچے نہ آنے کی؟

عورت کی زندگی میں بہت سے مواقع آتے ہیں جب ٹانگوں کا رخ اوپر کی طرف ہو جاتا ہے ۔ سب سے اہم وقت وہ ہوتا ہے جب عورت زندگی اور موت کا کھیل کھیلتے ہوئے ٹانگیں فضا میں بلند کر کے زندگی کو جنم دیتی ہے۔

وہ مقام جہاں سے منہ کے بل رینگتے ہوئے ہر انسان دنیا میں آتا ہے۔ وہ جگہ جہاں کا اولین لمس عورت کی عظمت کا نشان بن کر اس کے ساتھ رہتا ہے۔ وہ عمل جس کا احسان وہ زندگی بھر نہیں اتار سکتا۔ دنیا میں آنے والا ہر انسان جب پہلا سانس لیتا ہے اور پہلی بار آنکھ کھولتا ہے تو کیا دیکھتا ہے، درد کی شدت سے کانپتی ہوئی لہولہان دو ٹانگیں۔ اس عورت کی ٹانگیں جو موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جنم دیتی ہے۔

کیا کوئی جانتا ہے کہ کئی بار ان معلق ٹانگوں کو سیدھا ہو کر نیچے آنے کا موقع ہی نہیں ملتا۔ بچے کی پیدائش کے بعد خون تھمنے سے انکاری ہو جاتا ہے اور عورت زندگی کی سرحد پار کر لیتی ہے۔ تب ٹانگیں پکڑ کر نیچے لانی پڑتی ہیں قبر میں لٹانے کے لیے۔ لیکن کیا کیجیے کہ کچھ لوگ قبر میں لیٹی عورت کی ٹانگیں بھی نیچے نہیں رہنے دیتے۔ رات کے اندھیرے میں گیلی مٹی کھود کر قبر میں کفن سرکا کر بے جان ٹانگیں اٹھا دی جاتی ہیں۔ افسوس عورت اس وقت بھی کہیں نہیں جا سکتی۔

ٹانگیں نیچے نہ آنے کے انہی معنی کی طرف جج صاحب نے اشارہ کیا ہے۔ وہ انہی لوگوں میں سے ایک ہیں جو یہ خیال کرتے ہیں کہ عورت کو جنس کی خوراک اس کثرت سے ٹھونکنی چاہیے کہ کوئی اور خیال آ ہی نہ سکے۔ ٹانگوں کا رخ ہر وقت آسمان کی طرف رکھا جائے گا تو بے چاری ٹانگیں کہاں نیچے آ کر زمیں پہ پاؤں رکھ سکیں گی، بھاگنا تو دور کی بات رہی۔

ان کے خیال میں جب عورت کے پاؤں کے نیچے نہ زمین ہو اور نہ سر پہ اپنا آسمان تو ننگی نہائے گی کیا اور نچوڑے گی کیا کے مصداق حق مانگنے کی جرات کہاں سے لائے گی؟ دوسرے لفظوں میں عورت انسان نہیں، ایسی جنسی مخلوق ہے جس کی ٹانگوں کو معلق رکھ کر ہی زنجیر سے باندھا جا سکتا ہے۔

عورت کو اپنے جیسا انسان سمجھنا معاشرے کے مرد کو اپنی توہین لگتی ہے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ٹانگوں اور بیچ ٹانگوں سے پہچانی جانے والی مخلوق کو برابر کا درجہ دیا جائے۔

پھر کیا سمجھیں عورت کو آخر؟

ابھی تک کی شہادتوں کے بعد تو سمجھ یہی آتا ہے کہ بنیادی طور پہ وہ ایک سوراخ ہے۔ ایک ایسا سوراخ جس سے مرد کی مردانگی بندھی ہے۔

دشمن قبیلے کو زچ کرنا ہو تو یہی سوراخ کام آئے گا۔

اپنے جیسے ہی ایک اور مرد کو بے عزت کرنا ہو تو تب بھی اسی سوراخ کا تصور کر کے منہ بھر بھر کے گالیاں دے لیجیے۔

جھنجھلا ہٹ اور غصے پہ کنٹرول نہ ہو تو یاد کر لیجیے یہ سوراخ اور بھاری بھرکم مغلظات سے ہلکا کیجیے اپنا دل۔

عزت اور غیرت کے نام پہ وحشیانہ کھیل کھیلنا ہو تو تب بھی اسی سوراخ کا سہارا لے لیجیے۔

محفل میں ہنسی مذاق یا شور و غل پیدا کرنا ہو تب ایسے لطائف یاد کر کیجیے جن میں سوراخ کے ذکر کے پھندنے لگے ہوں۔

بے تکلف دوستوں کی قربت بھی اسی سوراخ کے تذکرے سے سجتی ہے بھئی!

ہمارے خیال میں یہ سوراخ ایسی چھلنی ہے جس میں ہر مرد کی شخصیت نکھر کر سامنے آ جاتی ہے۔ یا شاید ایک روزن دیوار جس سے مرد کے اندر کی تاریکی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے اور یہ بھی کہ مرد عورت کو عزت کے قابل اپنے جیسا انسان سمجھتا ہے کہ نہیں؟

یقین کیجیے جج صاحب نے اپنی عدالت میں یہ جملہ پہلی بار نہیں بولا ہو گا۔ یہ جملہ تو ایک آئینہ ہے ان کی اس سوچ کا جس کے ساتھ وہ پروان چڑھے ہیں۔ یہ جملہ جملہ نہیں ترازو ہے جس کے ذریعے ان کی نظر میں عورت کا مقام واضح ہو کر سامنے آتا ہے۔ انہیں اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ان کے ہاتھ میں تھامی انصاف کے ترازو کے پلڑے کیا دکھا رہے ہیں؟

ہمیں یہ بھی علم ہے کہ جج صاحب اس منڈلی میں تنہا ہر گز نہیں۔ معاشرہ بچپن سے مرد کو جو سکھاتا ہے وہ یہی کچھ تو ہے۔ یہ جملہ اور اس جیسے بیسویں اور جملے دن رات نہ جانے کہاں کہاں بولے جاتے ہیں، بولے جا رہے ہوں گے، جنہیں نو عمر بچے اپنے حافظے میں محفوظ کر رہے ہوں گے۔ کل کو یہی جملے تو کام آئیں گے عورت کو اس کی اوقات یاد دلانے کے لیے۔

جنسی تضحیک کے علاوہ اس سارے قصے کا ایک اور المناک پہلو بھی ہے۔ جج صاحب کی نظر میں بیوی کا شوہر سے علیحدگی کا فیصلہ درست نہیں اور وہ بضد ہیں کہ بیوی شوہر کے ساتھ اس کے گھر جائے۔

سوال یہ ہے کیا کسی بھی انسان پہ جبر کرنے کا انہیں حق ہے؟ ہماری معلومات کے مطابق اگر عورت شوہر کے ساتھ نہ رہنے کا فیصلہ کرے تو یہ اس کا شرعی حق ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے شوہر اگر بیوی کو طلاق دینا چاہے تو سب اس کے اس حق کو تسلیم کرتے ہیں۔

اسلام میں عورت کے خلع لینے کے اس حق کو تسلیم کیا گیا ہے۔ تاریخ گواہ ہے جب حضرت زینب نے حضور صلعم کے سامنے طلاق لینے کی وجہ یہ بتائی کہ اپنے شوہر کی شکل ناپسند ہونے کے سبب سے وہ ان کے ساتھ نہیں رہنا چاہتیں۔ ان کی مرضی کو تسلیم کر کے انہیں طلاق لینے کا حق دے دیا گیا۔

اسلام نے عورت کو وہ حق دیا جو عہد قدیم کے معاشرے ٹھکرا دیا کرتے تھے۔ ستی کا لفظ ہم میں سے کسی کے لیے اجنبی نہیں۔ شوہر مر جائے تو زندہ عورت سے جینے کا حق چھین کر شوہر کی چتا میں جلا کر خاک کر دیا جائے۔

علیحدگی کا حق نہ دینا بھی تو خاک ہونا ہی ہے، آرزوؤں اور خواہشوں کی چتا میں!
کس کس بات کا ماتم کریں ہم!

‎ماتم کرنے کی ہماری خواہش کو چھوڑیں، ہم اس مسئلے کو اعلیٰ عدالتوں کے بڑے منصفوں کے روبرو پیش کرتے ہیں اور ان سے پوچھتے ہیں کیا مذکورہ جج صاحب کے کے مذکورہ جملے سے عدالتوں کی عزت و توقیر میں کوئی کمی بیشی آئی ہے؟ اگر تو عدالتوں کی عزت بڑھی ہے تو جج صاحب کو ضرور عزت و آبرو سے سرفراز کیا جانا چاہیے اور نہیں تو کیا ان کے خلاف توہین عدالت کی کاروائی نہیں ہونی چاہیے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).