گلگت بلتستان صوبہ: وقت کی پکار


۔

گلگت بلتستان ساڑھے 72 ہزار مربع کلو میٹر رقبے پر پھیلا ایک وسیع و عریض خطہ ہے۔ پاکستانی کشمیر با معروف آزاد کشمیر کا رقبہ 13 ہزار مربع کلو میٹر ہے جبکہ ہندوستانی کشمیر (جسے پاکستان میں مقبوضہ کشمیر کہتے ہیں ) 42 ہزار اسکوائر کلو میٹر گھیرا ہوا ہے۔ یعنی دونوں اطراف کے کشمیر کا مجموعی رقبہ 55 ہزار مربع کلو میٹر، یعنی پاکستان اور ہندوستان دونوں کے زیر انتظام پورا کشمیر گلگت بلتستان سے چھوٹا ہے۔

اکتوبر 1947 میں پاکستان نے آفریدی قبائل کو کشمیر میں داخل کر کے مسئلہ خراب کر دیا، جواب میں والی کشمیر ہری سنگھ نے اپنی (باقی ماندہ) ریاست کو مشروط طور پر بھارت میں ضم کر دیا تو اس وقت گلگت بلتستان نہ آزاد ہوا تھا نہ ہی پاکستان میں شامل ہوا تھا۔ نومبر 1947 میں گلگت اور اگست 1948 میں بلتستان پاکستان میں اس طرح سے شامل ہو گیا کہ مقامی لوگوں نے اپنے زور بازو سے آزادی حاصل کی اور اپنی مرضی سے اپنے علاقے کو پاکستان کے حوالے کر دیا۔

یہاں پاکستانی ریاست کے فیصلہ سازوں کے ذہنوں میں کسی نے یہ بات ڈال دی کہ شمالی علاقہ جات یعنی 72 ہزار مربع کلو میٹر والے گلگت بلتستان کو کشمیر کے مسئلے کے ساتھ نتھی کر دیا جائے تو کل کلاں کشمیر پہ ریفرنڈم ہو گا تو اس علاقے کے لوگوں کے ووٹ پاکستان کو پڑیں گے۔ واللہ اعلم اس وقت پاکستان کے پاس کوئی اسٹیٹس مین نہیں تھا یا حکمرانوں کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کمزور تھی کہ اس نامعقول تجویز کو مان لیا گیا اور گلگت بلتستان کو بھی غیر ضروری طور پر ”متنازع“ والے ٹرے میں ڈال دیا۔

ورنہ اس وقت سیاسی ذہن رکھنے والا ایک عام آدمی بھی بتا سکتا تھا کہ کشمیر پر رائے شماری قیامت کی صبح تک تو ممکن نہیں۔ خیر پاکستان کو یہ بات سمجھنے میں 70 سال لگے۔ پہلے سی پیک منصوبے کی خاطر چین نے نیند سے جگایا، پھر 5 اگست 2019 کو مودی نے اپنے حصے کے کشمیر کو آئینی طور پر بھارت میں شامل کر دیا تو پاکستان اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکا۔ (بھارتی مقبوضہ) کشمیر باقاعدہ ہندوستان کا حصہ بن گیا مگر نہ اقوام متحدہ کے کان پہ جوں رینگی نہ سلامتی کونسل کی قراردادوں کی پھریری جاگی نہ ہی اقوام عالم نے نوٹس کیا۔

گویا شر سے خیر نکلا، کشمیر کا مدعا حل ہو گیا۔ پاکستان بھی سمجھ گیا بلکہ پاکستان کا مسئلہ آسان ہو گیا۔ آج بھی 72 ہزار مربع کلو میٹر والا جی بی اور 13 ہزار مربع کلو میٹر رقبے والا آزاد کشمیر مطلب ٹوٹل 85 ہزار اسکوائر کلو میٹر رقبہ پاکستان کے پاس ہے جو کہ غنیمت ہے۔ سو مسئلہ کشمیر عملاً حل ہو چکا ہے۔ بھارت، پاکستان، اقدام متحدہ اور دنیا نے اس حل پر خاموش رضامندی دکھائی ہے۔ لہذا اب حکومت پاکستان 75 سال تک خواہ مخواہ مسئلہ کشمیر کا حصہ بنے رہنے والے گلگت بلتستان کو اپنے آئین میں لے آئے۔ فل فلیج صوبہ بنا دے جو اس کا حق ہے۔ ایسا صوبہ جیسا پنجاب ہے، سندھ ہے۔ مکمل با اختیار، اٹھارہویں آئینی ترمیم کے تحت اختیارات و طاقت کا حامل صوبہ۔ یہی عملی و عقلی حل ہے۔ یہی گلگت بلتستان کی منزل ہے اور یہی پاکستان کے مفاد میں ہے۔ یہی وقت کی پکار ہے۔

ڈاکٹر سکندر علی زرین

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر سکندر علی زرین

سکندر علی زرین کا تعلق گلگت بلتستان سے ہے۔ ماس کمیونیکیشن کے پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ گزشتہ دس برس سے جیو نیوز سے بطور ایسوسی ایٹ اسائنمنٹ ایڈیٹر منسلک ہیں۔ گلگت بلتستان کے اخبارات کے لیے رپورٹنگ کرتے ہیں اور کالم بھی لکھتے ہیں۔ سیاست، تاریخ، اردو ادب، ابلاغیات ان کے پسندیدہ میدان ہیں

sikander-ali-zareen has 45 posts and counting.See all posts by sikander-ali-zareen

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments