جہیز کی تاریخ


جہیز کے نظام کی تاریخ چند سالوں یا چند صدیوں پر محیط نہیں ہے۔ نہ ہی اس کا تعلق چند مذاہب، گروہوں اور قوموں سے ہے۔ جہیز کی تاریخ ہزاروں سال پرانی ہے۔ اس کے واضح آثار بابل کی تہذیب، یونانیوں اور سلطنت روم سے جا کر ملتے ہیں۔ بڑے مذاہب میں جہیز کسی نہ کسی شکل میں لیا اور دیا جاتا ہے۔ لیکن ان مذاہب کے ماننے والے یہی دعوٰی کرتے ہیں کہ ان کے مذہب میں جہیز کے لین دین کا کوئی ذکر نہیں۔

سوال یہ ہے کہ جہیز کی لعنت نے انسانی معاشرے میں جگہ کیسے بنائی اور یہ نظام کیسے اتنا مضبوط ہو گیا کہ اس نے انسانی معاشرے کی شکل ہی بدل کر رکھ دی۔ پتھروں کے زمانے کا انسان غاروں میں رہتا اور شکار کر کے زندگی گزارتا تھا۔ جنگلی جانوروں کا خوف ہر وقت اس کے سر پر منڈلاتا رہتا تھا۔ اس زمانے میں مرد اور خواتین دن کا زیادہ وقت اکٹھے محفوظ پناہ گاہوں میں گزارتے، مل کر شکار کرتے بچوں کو مل جل کر پالتے تھے۔ یہ دور انسانی تاریخ کا بہترین دور تھا اس زمانے میں خود غرضی اور لالچ جیسی چیزوں نے ابھی پنجے نہیں گاڑھے تھے۔

انسانی تاریخ کے اس بہترین دور میں انسان جن خداؤں کی عبادت کرتا تھا ان میں زیادہ تر مونث تھیں اور ان کے نام بھی پیارے پیارے ہوا کرتے تھے۔ آئی سیس گاڈسٹ آف مون۔ آئی سیس زندگی اور جادو کی ملکہ تھی اس کا کام خواتین اور بچوں کی حفاظت کرنا اور بیماریوں کو دور کرنا تھا۔ سیکھمت جنگ اور شفاء کی خدا، اتھینہ دانائی، ہاتھ سے بنی چیزوں اور جنگ کی خدا۔ شہروں کے آباد ہونے سے پہلے کے مرد خداؤں کے ناموں میں بھی نرمی ہوا کرتی تھی۔

دس سے بارہ ہزار سال پہلے انسان نے پہلی باقاعدہ کھیتی باڑی شروع کی۔ پھر ضرورت سے زائد اشیاء کی خرید و فروخت شروع کی۔ شہر اور قبیلے بنانا شروع کیے۔ جیسے جیسے انسان ترقی کرتا گیا اس کے اندر ایک دوسرے سے مقابلے کا رجحان بڑھتا چلا گیا۔ دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے اس نے جائز اور ناجائز کام کرنے شروع کیے۔ زور اور تشدد کے عنصر نے اسی زمانے میں پنجے گاڑنے شروع کیے۔ زرخیز علاقوں کے لوگ اناج اور دیگر ضروریات زندگی فروخت کے لئے مختلف دیہاتوں میں لے جانے لگے۔

آہستہ آہستہ یہ سلسلہ بڑھا، کشتی رانی کا سلسلہ شروع ہوا۔ جن علاقوں میں مناسب مقدار میں فصلیں نہیں تھیں وہ زرخیز علاقوں میں لوٹ مار کی غرض سے حملہ کر دیتے۔ جس کے بعد ان علاقوں کی حفاظت کے لئے فوج اور اسلحے کی دوڑ کا آغاز ہوا۔ تجارت اور تشدد کے دور میں عورت کی اہمیت کم ہونا شروع ہو گئی۔ عورت آہستہ آہستہ گھر کی زینت اور مرد کی عزت تصور کی جانے لگی۔ مرد اور عورت کے درمیان فاصلہ بڑھنا شروع ہو گیا۔ مرد نے خاندان کو چھوڑ کر باہر کی دنیا میں زیادہ وقت گزارنا شروع کر دیا۔ مرد کے لئے اب بہن، بیٹیاں بوجھ تصور کی جانے لگیں۔ بوجھ کو سر سے اتارنے کے لئے اس نے ان کے ساتھ پرکشش پیکج آفر کرنا شروع کر دیے۔ اس طرح جہیز کے سلسلے کا آغاز ہوا۔

بڑے شہروں اور ریاستوں کے قیام سے پہلے کے مذکر اور مونث خداؤں کے نام نرم ہوا کرتے تھے۔ لیکن حکومتوں اور ریاستوں کے قیام کے بعد کے مرد خداؤں کے نام غصے والے ہوا کرتے تھے۔ جیسا کہ ہیڈیز موت کا خدا، زیئس طوفانوں کا خدا، پوسیڈان سمندروں کا خدا وغیرہ۔

ہندو دھرم کے ماننے والوں کا کہنا ہے کہ ان کے مذہب میں جہیز نام کی کا ذکر تک نہیں۔ ہندوستان کا سفر کرنے والے محققین ہزاروں سالوں سے اپنی کتابوں میں اس چیز کی نشاندہی کر چکے ہیں۔

تین سو قبل مسیح میں جب سکندر اعظم دنیا کو فتح کرتے ہوئے ہندوستان پہنچا تو اپنے ساتھ کچھ محققین بھی لایا تھا۔ یونانی تاریخ کے مشہور تاریخ دان آرین اور میگاستھنیس اپنی کتابوں میں اس بات کا ذکر کر چکے ہیں کہ بھارت میں جہیز کے نظام کا وجود ہی نہیں ہے۔ اسی طرح البیرونی نے ہندوستان کے سفر کے دوران ایک کتاب لکھی جس میں شادی کے موضوع پر بات کرتے ہوئے اس نے بھی اسی بات کو دہرایا۔

انڈیا کے لوگوں کا کہنا ہے کہ بارہویں صدی تک بھارت کی متعدد ریاستوں میں شادیوں کے میلے لگتے تھے۔ جن میں مرد طاقت کا مظاہرے کرتے تھے۔ لڑکی جس مرد پر ہاتھ رکھ دیتی تھی اس کی شادی اسی سے کروا دی جاتی تھی۔

مغلیہ دور میں زمینیں ریاست کی ملکیت ہوا کرتی تھیں۔ رعایا کا کام سلطنت کے حکم کی تعمیل ہوتا تھا۔ مرد اور عورتیں مل کر کھیتی باڑی اور دیگر امور سرانجام دیا کرتے تھے۔ اٹھارہیویں صدی میں انگریزوں نے زمینیں لوگوں میں بانٹنے کے ساتھ ان سے ٹیکس لینے کا سلسلہ شروع کیا۔ حیران کن طور پر زمینیں صرف مردوں میں بانٹیں گئیں۔ جس کی وجہ سے وہ حاکم بن بیٹھے، خواتین کا کام ان کی خدمت اور حکم کی تعمیل کرنا رہ گیا۔ اس طرح عورت مرد کی بہترین دوست سے بوجھ اور ذمہ داری بن گئی۔ بوجھ کو سر سے اتارنے کے لئے مردوں نے ان کے ساتھ شادی کرنے والوں کو قیمتی تحفے تحائف دینا شروع کر دیے۔ جو جتنا قیمتی تحفہ دیتا اس کا بوجھ اتنی جلدی سر سے اتر جاتا۔

دین اسلام عورت کو حق مہر اور والدین کی جائیداد میں سے حصہ فراہم کر کے تحفظ فراہم کرتا ہے۔ حضرت فاطمہ کی شادی کے وقت نبی پاک ﷺ نے حضرت علی سے دریافت کیا کہ ان کے پاس گزارے کے لئے کیا کچھ ہے۔ حضرت علی نے جواب دیا یا رسول اللہ ﷺ ایک چادر اور پانی کا گلاس ہے۔ آپ ﷺ نے یاد دلایا کہ مال غنیمت کا کچھ سامان بھی ہے اسے فروخت کر کے گھر کا سامان لے آئیں۔ حضرت علی نے سامان کی بولی لگوائی۔ حضرت عثمان سارا ماجرا دیکھ رہے تھے۔ سامان کی قیمت چار سو پچھتر درہم لگی۔ حضرت عثمان نے چار سو پچھتر درہم دے کر سامان حضرت علی سے خرید لیا۔ بعد میں تحفے کے طور پر واپس کر دیا۔ حضرت علی نے ان پیسوں سے حضرت فاطمہ کے لئے ضروریات زندگی کی چیزیں خریدیں۔ شادی نہایت سادگی ہوئی۔ حضور پاکﷺ نے اپنی پیاری بیٹی کو کچھ تحائف کے ساتھ رخصت کیا۔

بہت سے عرب ممالک میں شادی کرنے کے لئے لڑکے کو لڑکی والوں کی مرضی کے مطابق رقم ادا کرنی ہوتی ہے۔ سعودی عرب میں لڑکے گلا کرتے نظر آتے ہیں کہ لڑکی والوں کے مطالبات بہت بڑھ گئے ہیں۔ عمان میں حکومت بچی کی پیدائش پر والدین کو رقم ادا کرتی ہے۔ اس کے تعلیمی اخراجات برداشت کرتی ہے۔ شادی کے موقع پر اچھی خاصی رقم حکومت کی طرف سے دی جاتی ہے۔

جہیز کا نظام ساری دنیا میں کسی نہ کسی طرح آج بھی رائج ہے۔ لیکن اس نظام نے ہمارے ملک کی خواتین کو زیادہ متاثر کیا ہے۔ خود مختار اور با اختیار لڑکیوں سے شادی کرتے وقت لڑکا اور لڑکے والے جہیز کے بجائے لڑکی کی تنخواہ دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ وطن عزیز میں لڑکیوں کے والدین اور رشتہ دار، عورت کی آزادی کے ڈر سے لڑکیوں کو تعلیم اور نوکری سے دور رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے لڑکیوں کی شادی پر بھاری جہیز دینا پڑتا ہے۔ لڑکی کیونکہ خودمختار نہیں ہوتی اس لیے اسے ساری زندگی شوہر اور سسرال والوں سے دب کر رہنا پڑتا ہے۔ ذہنی، جسمانی تشدد اور طلاق کے واقعات اسی سلسلے کی کڑی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments