'سبز سونا': چرس کی گِرتی قیمتیں اور اجازت ناموں کے منتظر بھنگ کے پاکستانی کاشتکار

اسلام گل آفریدی - صحافی


بھنگ
پاکستان کے قبائلی ضلع لوئر اورکزئی سے تعلق رکھنے والے 30 سالہ جہانگیر جانانہ اور اُن کے علاقے کے دیگر کاشتکار بارش اور حکومت کے طرف سے بھنگ کے قانونی اجازت ملنے کے انتظار میں ہیں۔

کاشتکاروں کے مطابق انھیں آئندہ دنوں میں بارش ہونے کی امید تو ہے لیکن حکومت کے فیصلے کے بارے میں کچھ معلوم نہیں۔

اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود بھی جہانگیر اور اُن کے خاندان کا ذریعہ معاش کھیتوں میں بھنگ کی فصل سے حاصل ہونے والی چرس کی غیرقانونی فروخت پر ہے جس سے، اُن کے مطابق، وہ سالانہ پانچ سے چھ لاکھ روپے کما لیتے ہیں لیکن گذشتہ کئی برسوں سے اس فصل سے حاصل ہونے والی اُن کی آمدن آدھی رہ گئی ہے کیونکہ افغانستان سے ہونے والی سمنگلنگ قیمتوں میں کمی کا باعث بنی ہے۔

خیبرپختونخوا کے تین اضلاع یعنی خیبر کی وادی تیراہ، اورکزئی اور کرم کے مخصوص علاقوں میں بھنگ کاشت کی جاتی ہے، اور اس سے بننے والی چرس ناصرف اندورن ملک بلکہ بیرون ملک سمگل کی جاتی ہے۔

دیگر ممالک میں بھنگ کے اجزا سے خوراک، ملبوسات، ادویات اور تعمیراتی سامان کی تیاری ہوتی ہے جو بھنگ سے بننے والی چرس کے مقابلے میں کافی زیادہ آمدن دیتی ہے۔

اس بنیاد پر خیبر پختونخوا حکومت نے سنہ 2021 میں ضلع خیبر کی وادی تیراہ، اوکرزئی اور کرم میں بھنگ کی قانونی کاشت اور اور اس سے چرس اور دیگر نشے بنانے کے بجائے اس کے مفید استعمال کے حوالے سے سروے کرنے کا فیصلہ کیا تھا جس کی ذمہ داری پشاور یونیورسٹی کے شعبہ فارمیسی کو دی گئی تھی۔

چرس

شعبہ فارمیسی سے منسلک پروفیسر فضل ناصر اس منصوبے کے نگران تھے۔ اُنھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ جون 2021 سے تینوں اضلاع میں بھنگ کے حوالے سے سروے کا آغاز ہوا اور جدید طریقہ کار اور ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے چھ ماہ کی قلیل مدت میں کل رقبے پر بھنگ کے کاشت اور چرس کی سالانہ پیدوار کے حوالے سے معلومات جمع کر کے دسمبر 2021 میں خیبر پختونخوا اکنامک زون کے پاس جمع کیا گیا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ اس تحقیقاتی کام پر ایک کروڑ 43 لاکھ روپے خرچ ہوئے ہیں۔

جن علاقوں میں سروے ہوا تھا وہاں سے تعلق رکھنے والے کاشتکار پراُمید تھے کہ صوبائی حکومت رواں سال بھنگ کے کاشت کے لیے تمام مسائل اور سرکاری کارروائی مکمل کر لے گی تاہم مذکورہ منصوبہ تاخیر کا شکار ہوا۔

سروے رپورٹ سے کیا پتا چلا؟

سروے رپورٹ میں حکومت کو تجویز دی گئی ہے کہ چرس سے ‘سی بی ڈی’ تیل کشید کرنے اور بھنگ کے تنے سے مختلف اشیا تیار کرنے کے لیے بھنگ کی کاشت والے تین اضلاع میں چھ کارخانے لگائے جائیں جس سے چھ ہزار افراد کو براہ راست کام کے مواقع میسر ہوں گے۔

اوپن مارکیٹ میں سی بی ڈی تیل کی فی لیٹر کی قیمت 1250 سے 1500 امریکی ڈالر ہے جبکہ ساڑھے تین کلو چرس سے ایک لیٹر تیل نکلتا ہے۔ سی بی ڈی تیل کی اچھی قیمت کی وجہ سے اس کو’گرین گولڈ’ یعنی سبز سونا بھی کہا جاتا ہے۔

رپورٹ میں بھنگ کے بیج میں بنیادی تبدیلیوں کی تجویز پیش کی گئی ہے کیونکہ موجودہ فصل میں نشے کا عنصر یعنی ‘ایچ ٹی سی’ کی مقدار 43 فیصد ہے جو بہت زیادہ ہے۔

بھنگ

موجودہ بیج سے بننے والے بھنگ کے پودے کی لمبائی نو سے دس فٹ ہوتی ہے جبکہ تجویز کردہ بیج کے پودوں کی لمبائی پندرہ سے سولہ فٹ ہو گی۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان تینوں اضلاع میں ذرائع آمد و رفت کو بہتر بنانے، سکول، کالج اور گیس کی فراہمی کے لیے بھی اقدامات کیے جائیں۔

صوبائی حکومت نے بھنگ کے ادویات میں استعمال اور تحقیقاتی کام کی ذمہ داری پشاور یونیورسٹی کے شعبہ فارمیسی، مارکیٹنگ و بزنس پلان کے مد میں منیجمنٹ سٹڈیز، مشینری کی تنصب کے ماحول پر اثرت کے حوالے سے شعبہ ماحولیات، جغرافیائی معلومات کے لیے شعبہ ارضیات ، قانونی حیثیت کے جائزے کی ذمہ داری لا کالج اور لوگوں میں سماجی شعور اُجاگر کرنے کے ذمہ داری شعبہ سوشیالوجی کے حوالے گیا گیا تھا۔

اس پوری تحقیقاتی عمل میں پشاور یونیورسٹی کے مذکورہ شعبوں میں زیر تعلیم خیبر، کرم اور اورکزئی کے طلبہ نے حصہ لیا۔

بھنگ

منصوبے پر پیش رفت کیا ہے؟

خیبر پختونخوا اکنامک زون کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر جاوید اقبال خٹک کے مطابق بھنگ کے حوالے سے ابتدائی رپورٹ کو سمال انڈسٹری ڈویلیپمنٹ بورڈ اور پلاننگ اینڈ ڈویلیپمنٹ کو نظرثانی کے لیے بھیج دیاگیا ہے۔

اُنھوں نے کہاکہ مذکورہ اداروں اور اکنامک زون کے تجاویز کی حتمی رپورٹ نہ صرف ادارے کی ویب سائیٹ پر دستیاب ہوگی بلکہ اس حصے میں سرمایہ کاری اور معاشی مواقع پیدا کرنے کے لیے عملی اقدامات شروع کیے جائیں گے۔

خیبر، اورکزئی اور کرم میں بھنگ کے قانونی کاشت میں تاخیر کے حوالے سے صوبائی حکومت کے ترجمان بیرسٹر سیف کے ساتھ رابطہ کیا گیا مگر ان کے طرف سے کوئی جواب ملا تاہم صوبے کے ایک اعلی عہدیدار نے بتایا کہ بھنگ کے قانونی کاشت میں تاخیر کی ایک وجہ قومی بھنگ پالیسی کی منظوری میں رکاوٹیں ہیں۔

انھوں نے کہا صوبائی سطح پر تحقیق کا کام مکمل ہو چکا ہے تاہم اس حوالے سے متعلقہ اداروں کے ساتھ مشاورت کا عمل جاری ہے جو کہ جلد مکمل ہونے کے بعد صوبے میں بھنگ کے کاشت قانونی انداز میں شروع ہو جائے گی۔

بھنگ کی کاشت کے اعداد و شمار

خیبر، اورکزئی اور کرم میں بھنگ کی موجودہ کاشت کے حوالے سے کسی بھی سرکاری ادارے کے پاس مصدقہ اعداد و شمار موجود نہیں تاہم پروفیسر فضل ناصر نے دعویٰ کیا کہ جدید ٹیکنالوجی اور مقامی مارکیٹ کے اعداد و شمار کے مطابق تینوں اضلاع میں دوسو مربع کلومیٹر یعنی 49ہزار ایکٹر زمین پر بھنگ کاشت کی جاتی ہے جس سے سالانہ پچاس لاکھ کلوگرام تک چرس حاصل ہوتی ہے۔

رقبے کے لحاظ سے اورکزئی پہلے، تیراہ دوسرے جبکہ کرم تیسرے نمبر پر ہے تاہم سب سے بہترین فصل تیراہ میں پیدا ہوتی ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ آدھے ایکڑ زمین سے تیراہ میں پانچ کلو، اوکرزئی میں ساڑھے تین کلواور کرم میں دو سے ڈھائی کلو تک چرس حاصل کی جا سکتی ہے۔

چرس کی قیمتیں کم کیوں ہوئیں؟

چرس

وادی تیراہ کے 70 سالہ حاجی کریم نے رواں سال کھیتوں پر فصل کے کاشت کے لیے زمین کو پہلے سے تیار کر دیا ہے لیکن رواں سال بروقت بارشوں کے نہ ہونے کی وجہ سے اب تک اُنھوں نے بھنگ کاشت نہیں کی ہے۔

اُن کا کہنا ہے کہ دو ایکڑ زرعی زمین سے پندرہ لاکھ سالانہ آمدن حاصل ہوتی تھی لیکن مارکیٹ میں چرس کے قیمت ساٹھ ہزار روپے فی کلو سے کم ہو کر 12 ہزار تک گرنے کی وجہ سے اخراجات ہی بمشکل پورے ہوتے ہیں۔

اُن کے بقول مقامی لوگوں کے پاس بھنگ کی کاشت کے علاوہ کوئی اور متبادل ذریعہ نہیں تاہم حکومت کے طرف سے کہاگیا ہے کہ علاقے میں بھنگ کی قانونی کاشت کی اجازت ملنے کے بعد لوگوں کے آمدن میں اضافہ ہوگا لیکن اب تک اس حوالے سے کچھ بھی معلوم نہیں ہے۔

اسی علاقے سے تعلق رکھنے والے شیر خان (فرضی نام) چرس کی فروخت کے غیرقانونی کاروبار سے وابستہ ہیں۔ اُنھوں نے بتایا کہ مئی 2018 میں قبائلی علاقوں کے خیبرپختونخوا میں انضمام کے بعد مختلف اداروں اور قوانین کے توسیع کی وجہ سے چرس کا کاروبار جاری رکھنے میں کافی مشکلات پیدا ہوگئی ہیں کیونکہ دیگر علاقوں تک منتقلی انتہائی مشکل اور اخراجات بڑھ چکے ہیں۔

اُنھوں نے کہا کہ گذشتہ کئی برسوں سے بلوچستان کے راستے افغانستان سے چرس کے بھاری مقدار کی سمگلنگ کی وجہ سے چرس کی قیمت ستر ساٹھ ہزار روپے کلو سے کم ہوکر دس سے بارہ ہزار کلو تک کر گر چکی ہے جس کے وجہ سے پاکستان میں بھنگ کی فصل پر ہونے والے اخراجات بھی بمشکل ہی پورے ہوتے ہیں۔

‘جب بھنگ کی کاشت قانونی ہو گی تو کاشتکار کو فائدہ ہو گا’

بھنگ

مستقبل میں خیبر، اورکزئی اور کرم میں بھنگ کی قانونی کاشت کے حوالے سے اگر ایک طرف مقامی لوگ حکومت کے اس اقدام کو بہتر معاشی مستقبل کی اُمید سمجھتے ہیں تو دوسری طرف لوگ اس حوالے سے کئی سولات اُٹھا رہے ہیں۔

آباد گل اورکزئی فیروز خیل میلے کے رہائشی ہیں اور چھ ایکڑ زمین پر بھنگ کی کاشت کرتے ہیں، اپنی زمین پر بھنگ کی کاشت کے علاوہ وہ ہر سال وہ آٹھ سے دس لاکھ روپے مالیت کی بھنگ مقامی کاشتکاروں سے بھی خریدتے ہیں۔

اُنھوں نے کہا کہ کارخانے لگانے، بھنگ سے حاصل مواد کے مارکیٹنگ اور دیگر منصوبوں میں مقامی کاشتکاروں اور سرمایہ کاروں کو مواقع فراہم کیا جائے کیونکہ ان علاقوں میں بھنگ کے فصل کے علاوہ کمائی کا کوئی دوسرا ذریعہ نہیں۔

پروفیسر فضل ناصر نے کہا کہ انھوں نے مقامی آبادی کے خدشات کو مدنظر رکھتے ہوئے زیادہ سے زیادہ فائدہ مقامی افراد کو دینے کی اقدام پر زور دیا ہے اور حکومت کو تجویز دی ہے کہ مجوزہ اقدامات سے ہونے والے معاشی فوائد میں بڑا حصہ مقامی آبادی کا ہونا چاہیے۔

اُنھوں نے کہاکہ ایک کارخانے پر تقریبا چھ سے آٹھ کروڑ لاگت آئے گی جبکہ پرائیوٹ سیکٹر میں مقامی سرمایہ کار چھوٹے کارخانے ایک سے ڈیڑھ کروڑ روپے میں لگا سکتے ہیں۔

جاوید اقبال خٹک نے بتایا کہ بھنگ سے حاصل ہونے والے کیمیکل مواد کے لیے صرف مقامی مارکیٹ نہیں بلکہ بین الاقوامی مارکیٹ تک رسائی کے لیے ضلع خیبر میں ایک ہزار ایکڑ زمین پر خیبر اکنامک کاریڈور قائم کرنے کے لیے تمام انتظامات مکمل ہو چکے ہیں جن میں پہلا حصہ بھنگ کے چھوٹے اور درمیانے درجے کے کارخانے قائم کرنا، راستوں کے بندش کے صورت میں افغانستان جانے والے بڑی گاڑیوں کے لیے ٹرمینل اور تازہ سبزی اور میوہ جات کو کولڈ سٹوریج کنٹینر کو ری چارج کرنے کی سہولت میسر ہوگی۔

انھوں نے کہاکہ جب بھنگ سے قانون کے مطابق مواد کا حصول شروع ہو گا تو کاشتکاروں کو بہتر معاوضہ ملے گا جبکہ تیراہ، اورکزئی اور کر م میں بھی چھوٹے یونٹ کے قیام کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔

خیبر

بھنگ کی قانونی کاشت اور آمدن

قومی اسمبلی کی کمیٹی برائے سائنس و ٹیکنالوجی نے گذشتہ سال اکتوبر میں فیصلہ کیا تھا کہ سال کے آخر میں قومی بھنگ پالیسی منظور ہو جائے گی تاہم اب تک اس میں کوئی خاص پیش رفت نہ ہو سکی ہے۔

پاکستان کونسل آف سائنٹیفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ کے ممبر ڈاکٹر نسیم رؤف نے اس حوالے سے بتایا کہ کینابیز یا بھنگ دنیا بھر میں ادویات کے لیے استعمال ہوتا ہے اور درد کش تیل سی بی ڈی بھی اس سے بنایا جاتا ہے جس کا ایک لیٹر 10 ہزار ڈالر تک میں فروخت ہوتا ہے۔

اس کے علاوہ کپڑے کے تیاری میں بھی اس کی کافی اہمیت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ دنیا میں اس پودے سے منسلک تجارت 29 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہے اور 2025 تک اس کی تجارت کا ممکنہ حجم 95 ارب ڈالر تک ہو گا۔

اُن کے بقول سابق وزیراعظم عمران خان نے جون 2020 میں بھنگ کی کاشت سے مالی فوائد کے حوالے سے حکومت کو اقدامات اُٹھانے کی ہدایت کی تھی جس پر ستمبر 2020 میں کابینہ کی منظوری کے بعد پی سی ون تیار کیا گیا۔

خیبر پختونخوا کے ضم اضلاع میں بھنگ کے ساتھ پوست کی فصل کو بھی تحقیقاتی منصوبے میں شامل کیا گیا تھا تاہم جب منصوبے پر کام شروع ہوا تو اُس وقت مذکورہ فصل کا وقت گزرگیا تھا۔

اس حوالے سے بھنگ کے تحقیقاتی ٹیم صوبائی حکومت کے فیصلے کی منتظر تھی تاہم تاخیر کے بنا پر پوست کے فصل کا وقت رواں سال بھی ختم ہو گیا ہے۔

بھنگ

پاکستان میں بھنگ کے قانونی کاشت کی تاریخ

ملک میں بھنگ کے قانونی کاشت کے لیے پہلی پالیسی 1950 میں بنائی گئی تھی جس کے تحت پنجاب کے ضلع بہاؤلپور میں پہلی کاشت ہوئی تھا تاہم یہ منصوبہ ناکام ہوا، کیونکہ اس علاقے کی آب و ہوا گرم تھی۔

حکومت نے بعد میں ہزارہ ڈویژن کے سرد علاقوں میں بھنگ کے کاشت کی کامیاب تجربات کیے لیکن بعد میں ان منصوبوں پر کوئی خاص کام نہیں ہوا۔

خیبر پختونخوا کے اضلاع کے مختلف پہاڑی علاقوں میں بھی بھنگ کے غیر قانونی کاشت ہوتی تھی اور اب طویل عرصے سے تیراہ، اورکزئی اور کر م میں بھنگ کاشت ہوتی ہے۔

بھنگ سے چر س کیسے حاصل کی جاتی ہے؟

مئی کے شروع میں تیراہ، اورکزئی اور کرم میں بھنگ کے باقاعدہ کاشت شروع ہوکر دو تین ہفتے میں یہ عمل مکمل ہو جاتا ہے۔ پودے کے لمبائی ڈھائی فٹ ہونے کے بعد اُس میں گوڈی کر کے جڑی بوٹیاں نکال لی جاتی ہیں اور ساتھ پودوں کی تعداد بھی کم کر لی جاتی ہے۔

مقامی کاشتکار گذشتہ سال کی فصل سے حاصل کیا گیا بیج کاشت کرتے ہیں۔ مئی اور جون کے مہینے میں مصنوعی کھاد کے استعمال کے ساتھ فصل سے نر پودے بھی نکال لیے جاتے ہیں تاکہ فصل کی پیدوار بہتر ہو سکے۔

یہ بھی پڑھیے

پاکستان میں بھنگ سے بنی یہ جینز کیا کپڑے کی صنعت کا مستقبل ہے؟

بھنگ کا استعمال ہمارے دماغ کو کس طرح متاثر کرتا ہے؟

’پہلے چرس پی اور پھر بلدیہ فیکٹری کو آگ لگا دی‘

منشیات کی پیداوار کے لیے بدنام پاکستانی علاقہ جہاں اب مشروم اگائے جا رہے ہیں

فصل کے کٹائی اکتوبر کے آخر میں شروع ہوتی ہے اور پودوں کو چھوٹے سائز میں بندھ لینے کے بعد ان کو کھیت ہی چھوڑ دیا جاتا ہے تاکہ ان پر بارش اور برف باری پڑے کیونکہ اس عمل سے پودے سے حاصل ہونے والی چرس کا معیار بہتر ہو جاتا ہے۔

پہلے بارش یا برف باری کے بعد بھنگ کو محفوظ مقام پر منتقل کر کے دسمبر، جنوری کی ابتدا میں فصل سے چرس کے حصول کا عمل شروع ہو جاتا ہے جوکہ فروری یا مارچ تک جاری رہتا ہے۔

بھنگ

نوجوان متبادل روزگار کی تلاش میں

وادی تیراہ میں چند نوجوان ایسے روزگار کے تلاش میں ہیں جو کم خرچ اور زیادہ آمدن کے ساتھ قانونی ہو۔ اس مقصد کے حصول کے لیے نیوکلیئر انسٹیٹیوٹ فار فوڈ اینڈ ایگریکلچر (این آئی ایف اے) کی تکینکی مدد سے جنوری 2021 میں مشروم کے کاشت کے حوالے سے تربیت کا اہتمام کیا گیا تھا جس میں 30 سے زائد مقامی کاشتکاروں نے شرکت کی ان میں ایک تیس سالہ فضل ربی بھی شامل تھے جنھوں نے تربیت کے حصول کے بعد اپنے گھر میں مشروم کاشت کی۔

اس کے ساتھ وہ علاقے میں مشروم کے پیدوار بڑھانے کے لیے تیراہ مشرم کلب کے نام سے ایک تنظیم بنائی جس میں وادی کے ستر سے زائد کاشتکار ممبرز ہیں۔

فضل ربی کا کہنا ہے کہ ماضی کے مقابلے میں زرعی زمینوں سے حاصل ہونے والی بھنگ کے فصل کی قیمت کم ہونے کی وجہ سے علاقے میں نوجوان بڑی تعداد کمائی کے لیے نئے راستوں کے تلاش میں تھی۔

اور پھر مقامی عسکری حکام کے معاونت سے مشروم کی کاشت کے حوالے سے تربیت کا اہتمام کیا۔ ان کے بقول نوجوانوں نے اس بنیاد پر مشروم کی پہلی بار کاشت شروع کی جس کے کافی اچھے نتائج سامنے آنا شروع ہوئے جس کی وجہ سے لوگوں کے دلچسپی بڑھ گئی۔

مشروم کلب کے طرف سے مزید کاشتکاروں کو مشروم کے کاشت کے تربیت فراہم کیاگیا اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔

محکمہ زراعت خیبر کے ڈائریکٹر ضیا اسلام دواڑ نے بتایا کہ جن علاقوں میں بھنگ کاشت ہوتی ہے وہاں پر زبردستی کاشتکاری بند نہیں کر رہے ہیں بلکہ ادارہ اور عسکری حکام کی مدد سے علاقے میں ایسی سبزیاں، فصلیں اور باغات لگائے جا رہے ہیں جن سے آمدن بھنگ کے مقابلے میں زیادہ ہو۔

اُنھوں نے کہا کہ اس سلسلے میں محکمہ زراعت کے جانب سے تیراہ میں زغفران، پیاز، آلو اور ٹماٹر کی کاشت پر کام جاری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32498 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments