اقبال احمد: عالمی مقام کی حامل ایک باکمال علمی شخصیت


وہ پی ٹی وی کا حالات حاضرہ کا ایک پروگرام تھا اور اس میں اس وقت مہاتما گاندھی کے پوتے، ممتاز مورخ، راج موہن گاندھی کا انٹرویو کیا جا رہا تھا جو ان دنوں پاکستان آئے ہوئے تھے۔ عام طور پر ایسے پروگراموں میں دیکھنے والوں کے لئے مہمان شخصیت ہی توجہ کا مرکز ہوتی ہے کہ ساری گفتگو، اس کی شخصیت اور کار ہائے نمایاں کے گرد بنی جاتی ہے مگر یہاں معاملہ کچھ الٹ دکھائی دے رہا تھا۔ مہمان شخصیت سے زیادہ میزبان شخصیت اپنے نپے تلے سوالات اور علمی پس منظر کے ساتھ اپنی طرف کھینچے جا رہی تھی۔ ان کے سوالات اور سوالات کرنے کا انداز اس قدر منفرد اور دھیما تھا کہ یوں محسوس ہوتا کہ جواب کا سلسلہ ختم ہو اور مہمان سے پھر سوال کیا جائے تاکہ وہ شخصیت اپنے علم، شعور اور شائستگی کا اظہار دوبارہ کرسکے۔

یہ 1990 کی دہائی کی بات ہے جب سوشل میڈیا ہماری زندگی میں اتنا داخل نہیں ہوا تھا کہ ادھر کوئی بات جاننا چاہی اور ادھر، لمحہ بھر میں معلومات کا ڈھیر آ موجود ہوا۔ پھر بھی اپنی کم علمی اور بے خبری کے ساتھ، میزبان شخصیت کے بارے میں مختلف ذرائع سے مقدور بھر جاننے کی کوشش کی جس سے یہ اندازہ ہوا کہ وہ امریکہ میں مقیم تھے اور ان دنوں پاکستان میں رہائش پذیر ہیں۔ تاریخ کے شہرہ آفاق پروفیسر ہیں۔ صرف ماضی کی باریکیوں پر ہی نہیں، مستقبل کے امکانات پر بھی پوری نگاہ رکھتے ہیں۔

اس عالم میں ان کا جتنا بھی شخصی خاکہ حاصل ہوسکا وہ ان سے ملنے کی امنگ اور تڑپ پیدا کردینے کے لئے کافی تھا، یہ الگ بات کہ بعد میں ان کی گراں قدر خدمات اور شخصی خصوصیات کی مزید تفصیل میسر آنے کے بعد یہ عقدہ کھلا کہ تلاش کردہ ساری معلومات بھی، ان کی بھاری بھرکم شخصیت کے سامنے بالکل ناکافی اور سراسر نامکمل تھی۔

اسے خوش قسمتی کہیے کہ ان حالات میں جہاں ان سے ملنے، بات کرنے اور ان کے بارے میں جاننے کی خواہش بیدار ہوئی، اسی دوران ایک ٹی وی پروگرام کے لئے ایسے صاحب نظر کی ضرورت آن پیش ہوئی جو رواداری اور برداشت جیسے عہد حاضر کے اہم ترین موضوع کا تاریخی تناظر میں حقیقت پسندی کے ساتھ تجزیاتی احاطہ کرسکے تاکہ سننے اور دیکھنے والے انسان دوستی کے اس بنیادی تصور کو موجودہ صورت حال پر منطبق کر سکیں۔ شاید، علم دوست حلقوں میں، علمی مباحث کے دوران ایسے ہی خوب صورت اتفاق کو لاٹری نکلنا کہتے ہوں گے۔ سو نہایت چاہت کے ساتھ ان سے رابطے کی کوشش شروع ہوئی اور خوش قسمتی در خوش قسمتی کہ نہ صرف ان تک رسائی ممکن ہوئی بلکہ مطلوبہ ریکارڈنگ کے لئے وہ دستیاب بھی تھے۔

اس تمام عرصے میں، مختلف لوگوں سے ان کے بارے میں ملتی رہی معلومات کے باعث ان کی شخصیت، بلاشبہ مکمل طور پر اپنے حصار میں لے چکی تھی لہٰذا احترام اور عقیدت کا تقاضا تھا کہ ایسی بے مثال شخصیت کا استقبال ممکنہ حد تک ان کے مرتبے کے شایان شان ہو۔ عمومی طور پر لاؤنج سے ہی مہمانان گرامی کے استقبال کی روایت سے ہٹ کر ، ٹی وی سینٹر کا مین گیٹ، اس کے لئے سب سے موزوں جگہ دکھائی دیا کہ پی ٹی وی کی حدود میں داخل ہوتے ہی، ایسی شخصیت کے لئے دیدہ و دل فرش راہ ہو!

ان کی آمد پر جو خوشی ہونی تھی، وہ اختیار سے باہر تھی۔ پھر ان کا مہذبانہ اور مشفقانہ انداز، پہلی ہی ملاقات میں دل جیتنے کے لئے کافی تھا۔ ہمارے ہاں عموماً ایسا کم نظر آتا ہے وگرنہ، علم اور انکساری یکجا ہو جائے تو شخصیت کی قامت خود بہ خود دوگنی دکھائی دیتی ہے، اور اس وقت بجا طور پر ایک ایسی ہی دل موہ لینے والی شخصیت یہاں موجود تھی۔

لاؤنج کی طرف بڑھتے ہوئے، اور دوسرے ابتدائی خیر و عافیت کے کلمات کے، انھوں نے بڑی محبت سے پوچھا ”اس پروگرام کے لئے مجھے، کیسے یاد کر لیا“ ۔ شاید یہ سوال اس بات کا اشارہ تھا کہ انھیں سرکاری چینل پر دوسرے اسکالرز کی طرح حالات حاضرہ کے ٹاک شوز میں مدعو نہیں کیا جاتا تھا (اور غالباً اس کی وجہ روس افغان جنگ کے حوالے سے ان کا آزادانہ اور عام ڈگر سے ہٹ کر نقطہ نظر تھا۔ ) بہ ظاہر اس سوال کے کتنے ہی پہلو اور ہوسکتے تھے مگر اس موقع پر یہ کہنا ہی مناسب لگا، جو حقیقت بھی تھی، کہ اس اہم ترین موضوع کے لیے پہلا، موزوں ترین نام جو ذہن میں آیا، وہ آپ کا تھا۔

اس پروگرام سیریز میں مختلف عنوانات کے حوالے سے اب تک مختلف مشہور شخصیات اظہار خیال کر چکی تھیں مگر آج ان کی گفتگو کے بعد ، پہلی بار ایک عجیب منظر دیکھنے کو ملا کہ سٹوڈیو ریکارڈنگ میں حصہ لینے والا ہر شخص، انجنیئر سے لے کر کیمرہ مین، کیبل بوائے سے لے کر لائٹ مین، یکساں طور پر متاثر، مطمئن اور خوش گوار حیرت سے دوچار دکھائی دے رہا تھا جیسے کہی گئی، ایک ایک بات، اپنے حقیقی مفہوم کے ساتھ، سب کے دل میں اتر گئی ہو اور بہت سے بند دروازے آج ان کے دلائل اور وضاحتوں سے خود بہ خود کھل سے گئے ہوں۔

انسانی معاشرے میں رواداری کی، حیثیت، ضرورت اور اہمیت کو اپنے شائستہ لہجے اور تخلیقی تاریخی تدبر کے ساتھ اس قدر سہل بنا دینا کہ وہ ہر ذہنی سطح کو متوجہ ( اور قائل ) کر سکے، ان کی کرشماتی شخصیت کا جوہر، ہی کہا جاسکتا ہے۔

ریکارڈنگ کے بعد حاضرین کے ساتھ گپ شپ کے دوران بھی شائستگی اور برد باری کے انداز میں کوئی فرق نہ آیا۔ ایک صاحب سے سٹوڈیو کے کونے میں کافی انہماک کے ساتھ بات چیت کرتے رہے۔ معلوم کرنے پر بتایا کہ خلدونیہ یونیورسٹی کے حوالے سے بات ہو رہی تھی۔ جب یہ جتایا گیا کہ وہ صاحب غالباً اس پوزیشن میں نہیں کہ اس یونیورسٹی کے قیام کے کسی عمل میں کسی طور معاون ہو سکیں، تو نہایت سادگی سے کہنے لگے کہ اس ملک میں کوئی پتہ نہیں کہ کون آپ کی بات کہاں تک پہنچا دے اس لئے ان کی سن لینے اور اپنی بتا دینے میں کوئی مضائقہ نہیں۔

یہ عالمی سطح کے اس عظیم شخصیت کا طرز عمل ہے کہ جس نے الجزائر کی آزادی کی تحریک میں عملی طور پر حصہ لیا اور اس پاداش میں پیرس میں جیل کاٹی۔ امریکہ میں ویتنام جنگ کے خلاف چلنے والی مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اس کے نتیجے میں ہینری کسینجر کے اغوا کے لئے اکسانے کا مقدمہ قائم ہوا۔ فلسطین کی خود مختاری کے لئے مسلسل متحرک رہے۔ فلسطینی رہنما یاسر عرفات سے متعدد ملاقاتیں رہیں۔ امریکہ کی مختلف یونیورسٹیز میں تدریس کے فرائض انجام دیے۔ ہالینڈ کے دارالحکومت ایمسٹرڈیم میں بین المملکتی انسٹیٹیوٹ کے قیام میں بھر پور حصہ لیا۔

1967 کی عرب اسرائیل جنگ اور 1980 کی افغان روس جنگ کے نتائج اور ان کے ممکنہ اثرات کے حوالے سے جن کے، بے لاگ تجزیے اور بے باک تبصرے، ابتدا میں بعید از قیاس سمجھے گئے مگر بعد ازاں، جب ویسی ہی صورت حال نے جنم لیا جس کی پیش گوئی کی گئی تھی، تب ان کے سیاسی شعور اور تاریخی دور اندیشی کا ساری دنیا میں لوہا مانا گیا۔

عالمی شہرت یافتہ دانشور، نوم چومسکی ’ہاورڈ زن، ایڈورڈ سعید اور ارون دتی رائے، جن کے قدر دانوں میں سے تھے۔

جن کی ریٹائر منٹ کے بعد ان کے لیکچر پروگرام سیریز میں پہلا لیکچر اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کوفی عنان نے دیا۔

یہی وہ با کمال شخصیت ہے جس کی مدلل اور متاثر کن گفتگو سننے کی ساری دینا متمنی ہوتی تھی، اور جس نے امریکہ سے پاکستان منتقل ہونے کے بعد ، پوچھے جانے پر ، اس معاشرے میں جس چیز کی کمی محسوس کی تو وہ بھی، اچھی گفتگو تھی۔

اور یہی وہ شخصیت ہے جس نے خلدونیہ یونیورسٹی کا خواب دیکھا جہاں انگریزی، اردو اور مدرسے کے متوازی نصاب تعلیم کو ہم آہنگ بنا کر ایسے ذہن تیار کرنے تھے جو دنیا کے چیلنجز کا مقابلہ کرسکیں اور ایک مستقبل شناس معاشرے کی ضروریات اور خواہشات کی بروقت تشخیص اور تکمیل کے لئے مصروف عمل رہیں۔ آج وہ ہمارے درمیان موجود نہیں مگر اس دوررس ذہن کا خواب، اس سرزمین کے لئے، ہر نئے دن کے ساتھ اپنی اہمیت اور ضرورت میں اضافہ کرتا جا رہا ہے۔

عصر حاضر کے اس مایہ ناز مورخ، مدبر اور مفکر، اقبال احمد کے لئے اس سے بہتر خراج عقیدت، اور کیا ہو سکتا ہے کہ ان کے حقیقت پسندانہ خواب کو جتنی جلد ممکن ہو، حقیقت کی شکل دے دی جائے۔

( اقبال احمد، 11 مئی 1999 کو ، حرکت قلب بند ہونے سے اسلام آباد میں انتقال فرما گئے )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments