عمران خان کا منفی بیانیہ اور اس کے ممکنہ مثبت نتائج


عمران خان کے پونے چار سالہ دور حکومت کا یقیناً سخت ترین محاسبہ کیا جاسکتا ہے کہ ان کے دور میں بدترین حکومت کی ایک ایسی مثال قائم کی گئی ہے جو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے بد عنوان اور موقع پرست سیاست دانوں اور نا اہل حکمرانوں کو بھی پیچھے چھوڑ گئی ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ خان صاحب نے اپنی سیاسی جدوجہد کے آغاز سے اپنے دور حکومت تک محض خوش کن نعروں اور دل فریب وعدوں کے ذریعے عوام کو بے وقوف بنائے رکھا اور جب انھیں کچھ کرنے کا موقع ملا تو وہ موقع بھی انھوں نے دوسروں کی پگڑیاں اچھالنے اور مخالف سیاست دانوں پر مختلف قسم کے منفی اور نازیبا الزام تراشیوں میں ضائع کیا۔

اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ انھوں نے عدم اعتماد کی جمہوری اور آئینی تحریک کو اپنی غیرجمہوری ہتھ کنڈوں کے ذریعے ناکام بنانے کی کوشش کی۔ انھوں نے اعلی عدلیہ کے احکام کو بھی پاؤں تلے روندنے کی جرات کی لیکن ناکامی نے ان کا منہ دیکھا۔ یہ بات بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ نئی نسل نے ان کے ساتھ بڑی امیدیں وابستہ کی تھیں اور وہ انھیں ملک اور قوم کا مسیحا سمجھتی تھی لیکن عمران خان کی بیڈ گورننس کے باوجود نئی نسل کا ایک بڑا حصہ اب بھی ان کی سیاست سے متاثر ہے اور وہ ان کی آواز پر لبیک کہنے کے لئے ہمہ وقت تیار رہتا ہے۔

خان صاحب نے سیاست میں جھوٹ، گالم گلوچ، تصادم اور یو ٹرن کی جو آلائش ملا دی ہے، اسے بھی مہذب اور شائستہ لوگ پاکستان کے سیاسی کلچر کے لئے زہر قاتل سمجھتے ہیں اور اسی وجہ سے بہت سے ان کے چاہنے والوں نے یا تو خاموشی اختیار کرلی ہے اور یا وہ بھی انھیں متکبر، خود پسند اور نفسیاتی مریض سمجھنے پر مجبور ہو گئے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ خان صاحب نیا پاکستان بنانے کی بہ جائے پرانے پاکستان کو بھی بگاڑ بیٹھے ہیں۔

عمران خان نے اس وقت جس غیر ملکی سازشی بیانئے کے ذریعے اپنے دور حکومت کی خامیوں بلکہ فاش غلطیوں اور نا اہلیوں کو چھپائے رکھا ہے، ان کے چاہنے والے عوام کو اس کی بھی کوئی پروا نہیں ہے، وہ تو بس خان صاحب کے دیوانے ہیں۔ خان صاحب اپنے جلسوں میں انھیں جو بھی جھوٹی سچی بات بتاتے ہیں، وہ انھیں خان صاحب کا مقدس فرمان سمجھ کر قبول کرلیتے ہیں اور اس کے لئے مخالف سیاست دانوں کو سوشل میڈیا پر گالیاں دینا اپنے لئے باعث فخر سمجھتے ہیں۔

عمران خان خود جس مائنڈ سیٹ کے مالک ہیں، انھوں نے اپنے ارد گرد بھی شیخ رشید، فواد چوہدری، مراد سعید اور شیریں مزاری وغیرہ جیسے لوگ جمع کیے ہیں جو اسمبلی کے اندر بھی خان صاحب کے معقول اور نامعقول اقوال زریں کے لئے دفاعی مورچہ سنبھالے ہوئے تھے اور سوشل میڈیا پہ بھی خان صاحب کے تکبر، انا اور نرگسیت پر مبنی اقوال اور اعمال کا دفاع کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ اس وقت خان صاحب نے فوج، عدلیہ، الیکشن کمیشن اور میڈیا کو نشانے پر لیا ہوا ہے اور وہ اپنے اور اپنے حواریوں کے علاوہ سب کو پیہم غدار، لوٹے اور چور قرار دے رہے ہیں۔

وہ خود کو 22 کروڑ عوام کے واحد صادق، امین اور اہل رہنما سمجھتے ہیں اور ان کے خیال میں اگر آئندہ عام انتخابات فوری طور پر منعقد کیے جائیں تو وہ بھاری اکثریت سے کام یاب ہوں گے اور انھیں اپنی حکومت بنانے کے لئے اپنے ساتھ الیکٹیبلز اور لوٹا بن جانے والے ممبران اسمبلی شامل کرنے کی چنداں ضرورت نہیں پڑے گی اور اگر خدا ناخواستہ آئندہ عام انتخابات میں انھیں حکومت بنانے کے لئے مطلوبہ اکثریت نہ مل سکی تو ان کے خیال میں یقیناً اس کی وجہ اداروں کی مداخلت اور غیرملکی سازش ہی ہوگی اور وہ نتائج کو ماننے سے صاف انکار کریں گے اور ان کے مزاحمتی جلسے، جلوس اور دھرنے پھر سے شروع ہوں گے۔

اس کالم میں عمران خان کی جن خامیوں کا تذکرہ کیا گیا، بلاشبہ ان کے چاہنے والے انھیں لغو قرار دیں گے اور وہ خان صاحب کو ہر حال میں فرشتہ ہی سمجھتے رہیں گے۔ ان کے پاس سب سے بڑی دلیل یہ ہوگی کہ عمران خان سب کچھ ہوسکتے ہیں لیکن وہ کرپٹ اور چور نہیں ہوسکتے، لیکن جو لوگ سیاسی شعور رکھتے ہیں، جو شخصیت پرستی کی بہ جائے عمل پر یقین رکھتے ہیں اور جو سمجھتے ہیں کہ عمران خان کے دور میں ملک کا ہر شعبہ زبوں حالی کا شکار ہوا اور بدترین مہنگائی کے علاوہ بھی عوام کے لئے قدم قدم پر زندگی کو مشکل اور دشوار بنا دیا گیا ہے، اور انھوں نے جس نئے پاکستان بنانے کا خوش کن خواب دکھایا تھا، وہ محض سراب تھا، اس لئے وہ عمران خان کو ناپسند کرنے لگے ہیں۔

لیکن عمران خان کا مخالف سیاست دانوں کے حوالے سے چور چور اور بد عنوان ہونے کا نعرہ عوام میں اتنا مقبول ہو چکا ہے کہ وہ ان کی بیڈ گورننس اور نا اہل ٹیم کے باوجود اب بھی انھیں ملک و قوم کا مسیحا سمجھتے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کو تین تین بار حکومت بنانے کا موقع ملا تھا لیکن انھوں نے اس کے باوجود پاکستان کو نہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے شیطانی شکنجے سے ملک کو آزاد کیا اور نہ ہی امریکی مفادات کے لئے ملک و قوم کے مفادات کی کوئی پروا کی۔

انھوں نے خود انحصاری کی بہ جائے ہمیشہ امریکی امداد اور قرضوں کے حصول پر توجہ مرکوز کیے رکھی اور جو قرض اور امداد انھیں ملتی رہی ہے، اس کا بیشتر حصہ اپنی عیاشیوں اور ذاتی لوٹ مار کی نذر کیا۔ اگر وہ ہم سے آزاد ہونے والے بنگلہ دیش کی طرح صنعت، معیشت اور تجارت کو ترقی دیتے، جمہوری اداروں کو حقیقی معنوں میں مضبوط بناتے، اپنی اچھی کارکردگی کے ذریعے خود کو اسٹیبلشمنٹ کی غیر آئینی مداخلت سے آزاد کراتے اور ملک میں مذہبی انتہاپسندی کے آگے بند باندھتے تو یقیناً آج عمران خان انھیں چور، ڈاکو اور غدار جیسے القابات سے نہ نوازتے۔

اس وقت وہ اپنی نا اہلیوں کی سزا نہ صرف خود عمران خان کی شکل میں بھگت رہے ہیں بلکہ خان صاحب جیسے مغرور، خود پسند، انا پرست اور دروغ گوئی کے ماہر انسان کو ایک عذاب کی شکل میں عوام پر بھی مسلط کر دیا ہے جو اپنی کرشماتی شخصیت کے بل بوتے پر حقیقت سے دور، اپنی چرب زبانی سے ایسے بیانیہ کو تشکیل دینے میں ماہر ہیں جس نے عوام کی ایک بہت بڑی تعداد کو اپنے سحر میں جکڑ کر رکھا ہے۔

عمران خان نے پاکستان کی سیاست میں جو آلائش بھر دی ہے اور اپنے چاہنے والوں کے ذہنوں میں جس طرح بد گوئی، گالم گلوچ، ہٹ دھرمی اور انتہاپسندی کے زہر گھول دیے ہیں، یقیناً اس کے منفی اثرات ہماری سماجی زندگی میں تا دیر قائم رہیں گے لیکن ان کے بطن سے بالآخر مثبت نتائج بھی ضرور برآمد ہوں گے۔ عمران خان کو اگر دوبارہ اقتدار مل گیا (جس کا امکان بہت کم ہے ) تو وہ آئندہ بھی نیا پاکستان بنانے میں کام یاب نہیں ہو سکیں گے۔

ان کی خود پسندی اور نرگسیت انھیں اپنے مخصوص خول سے باہر نہیں نکلنے دے گی۔ وہ اپنے دوسرے دور حکومت میں بھی ملک و قوم کی تعمیر و ترقی اور خوش حالی کے حوالے سے کوئی غیرمعمولی کارنامہ انجام نہیں دے سکیں گے بلکہ مخالف سیاست دانوں کو چور چور کہتے رہیں گے اور ان ہی نعروں میں ملک کو خدا ناخواستہ کسی سانحہ سے دوچار کریں گے۔

جب انھیں 2013 ء کے عام انتخابات میں خیبر پختون خوا میں صوبائی حکومت ملی تھی تو اس وقت بھی وہ عوام کو کوئی ریلیف نہیں دے سکے تھے بلکہ ان کے احتجاجی دھرنوں کی سیاست سے لگ رہا تھا کہ اگر انھیں مرکز میں حکومت بنانے کا موقع ملا تو ان کی نا اہلی اور بیڈ گورننس کی وجہ سے عوام کو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی سابقہ بد عنوان حکومتیں اچھا محسوس ہونے لگیں گی۔

موجودہ صورت حال میں عمران خان نے ملک کو بدترین سیاسی انتشار سے دوچار کر دیا ہے لیکن جلد یا بدیر عام پاکستانی پر عمران خان کی دروغ گوئی، انا پرستی اور سیاسی نا اہلی کے پول ضرور کھلیں گے اور ان کی منفی سیاست کا خاتمہ ہو گا۔

سوشل میڈیا کے اس دور میں اب مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے پاس بھی کوئی دوسرا آپشن نہیں بچا ہے۔ انھیں بھی اپنی عملی کارکردگی سے عوام کے دل جیتنے ہوں گے۔ انھیں ملک اور قوم کی ترقی اور خوش حالی کے لئے واقعتاً کمر بستہ ہونا ہو گا ورنہ ان کی مزید بدعنوانی اور بیڈ گورننس ملک کی سلامتی کے لئے ہی خطرناک ثابت ہوں گی۔ عمران خان نے پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور دیگر سیاسی جماعتوں کے خلاف اس قدر منفی پروپیگنڈا کیا ہوا ہے کہ اگر انھوں نے اقتدار میں آ کر ملک و قوم کی ڈوبتی ناؤ کو نہیں سنبھالا اور ملک میں حقیقی جمہوریت کے نفاذ اور گڈ گورننس کا مظاہرہ نہیں کیا تو عوام تنگ آمد بہ جنگ آمد کے مصداق کسی رہنما کے بغیر گھروں سے باہر نکلیں گے اور پھر وہ خود انصاف کریں گے کیوں کہ عمران خان نے سوشل میڈیا کے ذریعے عوام میں تبدیلی کی جو جوت جگائی ہے، اس وقت اگرچہ بہ ظاہر اس کے اثرات منفی محسوس ہوتے ہیں لیکن اس کے نتیجے میں یا تو مثبت تبدیلی آئے گی اور یا تباہی و بربادی کے وہ جھکڑ چلیں گے جس کی تباہ کن زد میں اچھے برے سب آئیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments