دو بیانیوں کی لڑائی میں نقصان کس کا؟


اگرچہ یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ عمران خان اپنے امریکی سازش کے بیانیے کو الیکشن تک کن کن ارتقائی مراحل سے گزاریں گے، مگر یہ طے ہے کہ انتخابات ہونے تک امریکی سازش کا حالیہ بیانیہ کم از کم تین بار اپنی طبعی موت مرنے کی کوشش کر چکا ہو گا۔

مگر یہ بیانیہ کبھی مر کے نہیں دیتا۔ پاکستان کے سیاسی افق پہ امریکی سازش کا بیانیہ اگلی تین دہائیاں بھی اسی آب و تاب سے جگمگاتا رہے گا جس ’ضیا‘ سے اس نے پچھلی تین دہائیاں ہمارے ذہن و دل کو منور کیے رکھا۔ یہ تضاد بہرطور اپنی جگہ کہ کبھی تو یہی امریکہ محافظین اسلام کے لئے صنم خانے سے ودیعت کیا گیا پاسباں ٹھہرا تو کبھی یہ قومی غیرت و اسلامی حمیت کے خلاف جبر کا استعارہ بنتا رہا۔

مگر اس بیچ دانشوروں کی جن تین نسلوں نے خودی کے یہ بیج بوئے، وہ عوام الناس کو ایسے بے مغز اور لاحاصل مباحث میں الجھا گئے کہ معاشرہ آج تک اس تقسیم سے نجات حاصل نہیں کر پایا۔ اور اب یہ تقسیم ایسی نظریاتی جڑیں پکڑ چکی ہے کہ بھاری بھر کم ڈگری یافتہ اذہان بھی اس عقیدے کے تحفظ کے لئے تمام عقلی و شعوری سہولیات کو مات دینے کا عزم کیے بیٹھے ہیں۔

یہ مجموعی قومی شعور میں گراوٹ کا ایسا لمحۂ فکریہ ہے کہ جس کے بطن سے کبھی کوئی مستحکم معاشرہ جنم نہیں لے سکتا۔ اس رویے کی کوئی عقلی توجیہہ کیونکر ممکن ہو سکے کہ جہاں ایک جانب امریکی طرفدار ہمیشہ فوجی حکومتیں رہیں، وہاں آج بھی پاک فوج زندہ باد اور امریکہ مردہ باد کے نعرے ایک ہی سانس میں لگائے جاتے ہیں۔

لاہور سے اسلام آباد جی ٹی روڈ پہ سفر کرتے آپ کم از کم ایک درجن ٹرک ایسے دیکھ سکیں گے کہ جن کی پشت پہ کسی سابق فوجی آمر یا حاضر سروس آرمی چیف کی شبیہ آپ کو جھانکتی دکھائی دے گی اور ڈرائیونگ سیٹ پہ بیٹھے اشخاص امریکہ مخالف حلیے میں نظر آئیں گے۔

اس سب ہڑبونگ کے بیچ پھنسا نوجوان ’تماشائی‘ جب خرد کی یہ گتھیاں سلجھا نہیں پاتا تو ارتقائی سیڑھی میں ایک قدم نیچے جا کر اکثریت کا ہم آواز بن جاتا ہے۔ اکثریت کی ہم نوائی بہر حال ہر دور میں محفوظ ترین رستہ تصور کیا گیا ہے۔

مگر اس فکری منافقت نے سماج کو آج اس مقام پہ لا کھڑا کیا ہے کہ جہاں کسی بھی شخص کی عزت کسی بھی شخص کے ہاتھوں محفوظ نہیں ہے۔ سیاسی نظریات کی جنگ اب قلم سے نہیں، شیشے کے گلاسوں اور پتھر کی کنکریوں سے لڑی جا رہی ہے اور جذبہ وہ ہے کہ گماں پڑتا ہے، مسئلہ سیاسی نہیں روحانی ہے۔

جن پروڈیوسرز نے چوہتر برس پہ محیط یہ تھیٹر سٹیج کیا، اب وہ مستعفی ہو چکے ہیں اور زمام ان کے ہاتھ دے گئے ہیں جن کو سات دہائیوں میں کبھی یہ یقین ہی نہیں آ پایا کہ وہ بھی کسی جوگے ہیں۔ وہ تو آج بھی بلوچستان کے گم کردہ افراد کی بازیابی کے لئے صرف آواز ہی اٹھانے کا سوچ سکتے ہیں۔

اب تازہ تازہ غیرسیاسی ہوئے احباب نے اس سارے ملبے کو سمیٹ کر ایک صحت مند سیاسی معاشرہ تشکیل دینے کی ذمہ داری ان کے گلے ڈال دی ہے جنہیں نسل در نسل کرپٹ، چور اور بکاؤ مشتہر کیا گیا۔ اور سماج بھی ان سات دہائیوں میں اس قدر تماش بین بن چکا ہے کہ اس کی اکثریت دہائیاں دے دے کر سابق پروڈیوسر کو ’ابھی نہ جاؤ چھوڑ کر‘ کی صدائیں دے رہی ہے۔

یہ سب کھیل تماشا اس لئے رچانا ممکن ہو پایا کہ اجتماعی شعور میں یہ مخبوط الحواسی اس منظم انداز سے داخل کی گئی کہ آج بھی اس قوم کا ایک وسیع تر طبقہ یہ سمجھتا ہے کہ پاکستان کی سالمیت قیامت تک قائم رہنے کو ہے۔ اور یہاں یہ پوچھنا بھی ہمت طلب کام ہے کہ حضور! پھر بنگلہ دیش کس چڑیا کا نام ہے۔

مگر چونکہ یہ تیقن قومی شعور میں سرایت کر چکا ہے کہ پاکستان کو کبھی کچھ ہو نہیں سکتا، اس لئے اس کے نام پہ جو مرضی دھماچوکڑی مچا لی جائے، ہمارا کچھ بگڑنے کا نہیں۔ اور اسی لئے آج بھی بائیس کروڑ کا سمندر فکر فردا کیے بغیر اپنی ہی موجوں میں مست ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments