ماؤں کا عالمی دن، سیاست اور بیرون ملک پاکستانی


آج ماؤں کا عالمی دن ہے اور حضرات و خواتین اس حوالے سے اپنے جذبات کا اظہار کر رہے ہیں۔ بطور ایک پبلک ہیلتھ پروفیشنل، ہم نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ ماؤں (اور بچوں ) کی صحت اور زندگی کی صورت حال میں بہتری کے لئے کام کیا۔ یقیناً ابھی اس کام کی بے انتہا ضرورت ہے، چنانچہ جب مدرز ڈے پر تمام دنیا کے لوگ انفرادی یا اجتماعی حوالے سے اس آواز میں اپنی آواز ملاتے ہیں تو یہ ایک خوش کن جذباتی تجربہ ہوتا ہے۔ زیادہ بڑی حقیقت بہر حال یہ ہے کہ ماؤں کا دن صرف ایک نہیں ہوتا، یہ تو تمام برس چلتا ہے، ازل سے چلتا آ رہا ہے اور ابد تک چلتا رہے گا، چاہے کوئی celebrate کرے، یا نہ کرے۔

آج کا دن پاکستان کے لئے ایک عمومی ”ماؤں کے عالمی دن“ کے علاوہ بھی ایک جذباتی اور تاریخی حیثیت رکھتا ہے۔ آج ہم تاریخ کے ایک ایسے دہانے پر کھڑے ہیں جسے پاکستانی قوم کے لئے اپنی سیاسی سوجھ بوجھ کے تحت ایک اہم فیصلہ کرنے کا دوراہا بھی کہا جا سکتا ہے۔ آج کے دن جہاں ملک کے اندر رہنے والوں کے جذبات اور فیصلہ کے بارے میں کوئی رائے قائم کرنا ابھی ممکن نہیں کہ قومی سطح پر ووٹ کی نوبت نہیں آئی، وہاں بیرون ملک رہنے والوں کے بارے میں ایک غالب خیال، بہر حال پایا جاتا ہے۔ وہ یہ کہ بیرون ملک پاکستانی موجودہ سیاسی صورت حال میں ایک سیاسی پارٹی (پی ٹی آئی) اور اس کے لیڈر کی طرف جھکاؤ رکھتے ہیں۔

یہ تاثر ان جلوسوں اور سوشل میڈیا پر موجود تبصروں سے بنتا ہے جو بیرون ملک پڑھے لکھے اور وائٹ کالر جاب میں مصروف لوگوں کی جانب سے کیے جاتے ہیں۔ بیرون ملک مقیم وہ لوگ جو اپنے ہنر، دستکاری، یا جسمانی محنت کی بدولت وہاں موجود ہیں، اور زیادہ تعداد میں بھی ہیں، ان کے بارے میں کوئی رائے قائم کرنا کہ وہ ایسی صورت حال میں کیا سوچتے ہیں، مشکل ہے۔ تاہم یہ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ وہ بھی پڑھے لکھے لوگوں کی باتیں سن کر شاید ایسا ہی سوچتے ہوں گے۔

جس طرح ہر شخص کو اپنے والدین سے انسیت ہوتی ہے، اور جس کا اظہار ماؤں کے عالمی دن کے موقع پر تمام لوگ کر رہے ہٰیں، ویسے ہی جس دھرتی پر انسان پیدا ہوتا اور اپنا بچپن گزارتا ہے، اس دھرتی کو بھی ماں کا درجہ دیتا اور اس سے جذباتی وابستگی رکھتا ہے۔ آج بیرون ملک رہنے والے پاکستانی اپنی دھرتی کے بارے میں جو تاثر دے رہے ہیں، اس کا تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔

ان پاکستانیوں کو ان کے ماں باپ نے پڑھایا لکھایا۔ بہت سی مثالیں ایسی بھی ہیں کہ ماں باپ نے اپنے بچوں کی پڑھائی کے لئے اپنا تمام سرمایہ خرچ کر دیا۔ بہت سے دوست واقعی ایسے ہیں کہ جن کی ماؤں نے ان کی پڑھائی کے لئے اپنا زیور تک بیچ دیا۔ اور حقیقت یہ بھی ہے کہ ان دوستوں نے بہتر تعلیم اور اعلیٰ پروفیشنل مقام پانے کے بعد اپنے ماں باپ، اپنے خاندان کو یاد بھی رکھا۔ نہ صرف اپنے والدین اور اپنے خاندان کو مالی طور پر سپورٹ کیا بلکہ اس طرح اس زر مبادلہ کا ذریعہ بھی بنے جو ملک پاکستان کے معاشی نظام میں ایک اہم حیثیت رکھتا ہے۔

البتہ ایک گلہ اس دھرتی کا اپنے باسیوں سے جو اسے چھوڑ کر چلے گئے، ہمیشہ رہا، اور آج کل کچھ زیادہ ہے۔

اگر جذباتی استعاروں میں دھرتی کو بھی ماں کہا جائے تو اس ماں نے بھی اپنا زیور بیچ کر بچوں کو ان ممالک میں بھیجا جہاں اعلیٰ علم کی تحصیل ممکن تھی۔ جہاں جا کر ان پاکستانی تارکین نے اپنے شعبے میں تعلیم و مہارت حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ ایک سمجھ دار اور بنیادی حقوق و قوانین سے واقف شہری بھی بننا تھا۔ اور واپس اپنی دھرتی کے باسیوں کو یہ بتانا تھا کہ کسی ملک میں آئین کی کیا اہمیت ہوتی ہے اور اسکے تحت ملنے والے انسانی حقوق کی بدولت ہر کوئی کیسے سر اٹھا کر چل سکتا ہے۔

یہ خواب لیکن ادھورا رہا اور آج یہ ادھورا پن زیادہ شدت سے محسوس ہو رہا ہے۔ ایک سوال ہے جو سمندر پار رہنے والے پاکستانیوں کے سامنے کھڑا اور جواب کا متمنی ہے۔

سوال یہ کہ بیرون ملک پاکستانی امریکہ میں ہوں یا کینیڈا میں، برطانیہ میں ہوں یا سکینڈے نیویا میں، وہاں کے نظام کی کیا خوبی ہے کہ جس نے انہیں ان کی براون رنگت، اجنبی لہجہ میں بولی ہوئی انگریزی، اور ایک مختلف مذہب کے باوجود قبول کیا۔ اور مقامی باشندوں کے وسائل میں سے حصہ دینے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی؟ اس نظام حکومت کا نام اپنے اپنے ملک کے حساب سے مختلف ہو سکتا ہے لیکن ایک بات اس میں مشترک ہے۔ یہ نظام، ایک آئین اور قانون کو تسلیم کرنے اور اس کے تحت فیصلہ کرنے پر مشتمل ہے۔ اس نظام کو آپس میں شدید ترین اختلاف رکھنے والی سیاسی جماعتیں اور ان کے لیڈر بھی مانتے ہیں اور اس کے تحت ہونے والے فیصلوں کو قبول کرتے ہیں۔ تعلیم یافتہ لوگوں پر مشتمل معاشروں اور ملکوں کے نظام کی یہی معراج ہے کہ جس سے پاکستانی بھی فیض اٹھاتے ہیں۔

کیا یہ عجیب بات نہیں کہ یہی پاکستانی، اپنے ملک پاکستان میں ایسی کوئی صورت حال سامنے آنے پر عقل کی بجائے جذبات سے سوچنا شروع کر دیں۔ پاکستان سے باہر جس ملک میں بھی آج یہ پاکستانی آباد ہیں، اگر وہاں ایک ایسی جنونی حکومت آ جائے جو مروجہ قانون اور آئین کو ماننے سے انکار کر دے، جس کا کہنا ہو کہ وہ جو بات درست مانیں گے، صرف وہی درست ہے اور جس حکم کو وہ قانون کا درجہ دیں، بس وہی قانون، تو ایسے میں انہی ممالک میں رہنے والے پاکستانیوں کا کیا حال ہو گا؟ اگر وہاں انہیں ایسی صورت حال اپنے مستقبل کے بارے میں تشویش میں مبتلا کر دے گی تو سوچ کا یہی طریقہ اپنے آبائی ملک کے لئے بھی روا ہونا چاہیے۔

ایک قرض کے طور پر یہ سوال آج بیرون ملک پاکستانیوں کے سامنے کھڑا ان سے جواب کا تقاضا کر رہا ہے۔ یہ کہ اپنے والدین اور اپنے خاندان کو تو رقم بھیج کر آپ نے اس نیکی کو کسی قدر لوٹا دیا جو والدین نے کی تھی۔ اس دھرتی کے لئے کیا کیا جس نے اپنے وسائل خرچ کر کے آپ کو ڈاکٹر، انجنیئر، وکیل، استاد یا کوئی اور پروفیشنل بنا یا اور اپنے وسائل خرچ کرنے کے باوجود آپ کے باہر جانے پر کوئی پابندی عائد نہ کی، اس امید پر کہ آپ بیرون ملک سے وہ سمجھ بوجھ لائیں گے جو ترقی کرنے والے معاشروں کی نشانی ہوتی ہے۔

بیرون ملک مقیم تعلیم یافتہ پاکستانی آج بہترین پوزیشن میں ہیں کہ اپنے عمل، تجربات اور مشاہدات کو بروئے کار لائیں اور جذبات کی رو میں بہنے کی بجائے اس تاریخی سوال کا معروضات پر مبنی جواب دے کر شاعر کے اس خیال کو غلط ثابت کر دیں :

شہر میں آ کر پڑھنے والے بھول گئے
کس کی ماں نے کتنا زیور بیچا تھا

ڈاکٹر زعیم الحق

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر زعیم الحق

ڈاکٹر زعیم الحق ایک میڈیکل ڈاکٹر ہیں اور اپنے شعبہ کے تکنیکی امور کے ساتھ ان انفرادی و اجتماعی عوامل پر بھی نظر رکھتے ہیں جو ہماری صحت یا بیماری کا باعث بنتے ہیں۔

dr-zaeem-ul-haq has 15 posts and counting.See all posts by dr-zaeem-ul-haq

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments