سیوا گرام


سیوا گرام ایک چھوٹا سے گاؤں دہلی سے ہزاروں کلو میٹر دور جہاں مہاتما گاندھی نے زندگی کے آخری بارہ سال گزارے۔ ایسا وہاں کیا تھا

1999 ء میں ہندوستان کے سفر میں جو جانا، جو سنا، جو سمجھا، اس کی ایک جھلک پیش ہے۔

ناگپور سے اسی کلومیٹر کے فاصلے پر واردہ شہر کے ساتھ ایک گاؤں سیوا گرام واقع ہے۔ اس گاؤں کو دیکھنے کی میری شدید خواہش تھی۔ اس کی وجہ اس گاؤں کا مہاتما گاندھی سے ایک گہرا تعلق ہے۔ مہاتما گاندھی نے سیوا گرام میں اپنی زندگی کے آخری دس سال گزارے۔ ریلوے ٹائم ٹیبل سے مجھے پتہ چلا کہ اس جگہ ہماری گاڑی کا اسٹاپ نہیں ہے لیکن اگر آپ ٹرین کے مشرق میں دیکھیں تو آپ واردہ ریلوے سٹیشن سے کچھ پہلے سیوا گرام ریلوے سٹیشن کے پاس مہاتما گاندھی آ شرم کو دیکھ سکتے ہیں۔

اب اس جگہ کو محفوظ کر لیا گیا ہے اور مہاتما گاندھی سے متعلقہ اشیاء کی بھی حفاظت کر لی گئی ہے۔ ہندوؤں کے نزدیک مہاتما گاندھی ایک باپ کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان کی معاشرے میں وہی قدر و قیمت ہے جو ہمارے ہاں قائد اعظم کی ہے۔ جیسے ہم قائداعظم کو فادر آف نیشن کہتے ہیں اسی طرح سے بھارت کے لوگ مہاتما گاندھی کو فادر آف انڈیا کہتے ہیں۔

جب ہماری گاڑی سیوا گرام کے پاس سے گزری تو اس وقت شام کے تین بج رہے تھے۔ میں کھڑکی کے پاس بیٹھ کر انتظار کرتا رہا کہ کب سیوا گرام آئے گا اور میں اسے دیکھوں۔ میں اس تاریخی جگہ دیکھنا چاہ رہا تھا جہاں بیٹھ کر مہاتما گاندھی نے ہندوستان کی تحریک آزادی میں حصہ لیا۔ یہ چھوٹا سا قصبہ کتنا اہم بن گیا کہ انھوں نے یہاں پر ایک دفعہ اپنا سالانہ جلسہ بھی منعقد کیا تھا۔

اس سے پہلے کہ میں آپ کو سیوا گرام کی تاریخ کے بارے میں کچھ بتاؤں میں چاہوں گا کہ واردہ کا ایک مختصر تعارف آپ کے سامنے پیش کیا جائے۔

واردہ مہاراشٹرا کا ایک شہر ہے۔ اس علاقے پر چودہویں صدی تک مقامی راجاؤں کی حکومت رہی۔ جن کا تعلق ہندو مذہب سے تھا۔ اس علاقے پر ایک طویل عرصہ تک گپتا خاندان نے حکومت کی۔ چندر گپتا اس خاندان کا سربراہ تھا جس کا تاریخ میں بارہا ذکر آیا ہے۔ سلاطین دہلی نے جب حیدرآباد اور دکن کے علاقوں کو فتح کرنا شروع کیا اسی دوران میں انھوں نے واردہ کے علاقے میں اپنی حکومت قائم کرلی۔

اس شہر جیسی پلاننگ کی مثال کم ہی ملتی ہے۔ شہر کا نام اس کے پاس سے گزرنے والے ایک دریا، واردہ کے نام پر رکھا گیا۔ اس شہر میں انگریزوں نے تعلیم کے فروغ کے لیے ایک بڑا ہائی سکول بھی بنایا جس کا نام سرکریڈوک کے نام پر رکھا گیا۔ انگریزوں کے چلے جانے کے بعد سکول کا نام مہاتما گاندھی سکول رکھ دیا گیا ہے۔

نام بدلنے کی روایت ہر جگہ پائی جاتی ہے، نا جانے کیوں؟

انگریزوں نے یہاں پر ایک خوبصورت ہسپتال بھی بنایا جس کا نام کنگ جارج ہسپتال رکھا گیا۔ اس کا نام بھی تبدیل کر کے ڈسٹرکٹ ہاسپٹل رکھ دیا گیا۔ انگریزوں نے یہاں پر کئی عمارات بھی بنائیں جن میں چرچ، سینٹرل جیل اور عیسائیوں کا قبرستان قابل ذکر ہیں۔ بھارت کا ایک بہت ہی مشہور کاروباری خاندان بھی اسی شہر میں رہتا ہے۔

اس شہر کی آبادی ایک لاکھ سے زائد ہے۔ جن میں زیادہ تر لوگوں کا تعلق ہندو مذہب سے ہے۔ ان کے ساتھ ساتھ بدھ مت کے ماننے والوں کی بھی ایک کثیر تعداد یہاں رہتی ہے۔ مسلمان بہت کم تعداد میں اس علاقے میں موجود ہیں۔ یہ علاقہ دلی سے بہت دور تھا اور بہت تھوڑی مدت کے لیے سلاطین دہلی اور مغلوں کے قبضے میں رہا شاید اسی وجہ سے مسلمان یہاں تعداد میں کم ہیں۔ اس شہر میں اسی فیصد لوگ پڑھے لکھے ہیں جبکہ بھارت میں شرح خواندگی ستر فیصد کے قریب ہے۔

میرے علم کے مطابق انگریز جس بھی علاقے میں گئے وہاں انھوں نے سب سے پہلے جو چند کام کیے، ان میں مختلف تعلیمی اداروں کا قیام بھی شامل ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے شہری معاملات کو دیکھنے کے لیے میونسپل کمیٹی بھی تشکیل دی۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ انھیں اپنا دفتری نظام چلانے کے لیے پڑھے لکھے لوگوں کی ضرورت تھی۔ اسی لیے انھوں نے تعلیمی ادارے بنانے پر توجہ دی۔ کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ یہ نہیں دیکھتے تھے کہ عام لوگوں کا مفاد کس چیز میں ہے بلکہ وہ ہر وہ کام کرتے تھے جس میں ان کا مالی فائدہ ہوتا تھا۔ ان کے ذہن میں کیا تھا؟ اس کا تو مجھے اندازہ نہیں لیکن کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ وہ ہندوستان میں تعلیم کا فروغ چاہتے تھے۔ اس لیے وہ تعلیمی اداروں کو فوقیت دیتے تھے۔

ایک بات کا مجھے بخوبی اندازہ ہے کہ جن علاقوں میں انھوں نے قابض ہو کر اپنی حکومت قائم کی اسے وہ برٹش انڈیا کے نام سے پکارتے تھے، وہاں پر دیگر علاقوں کی نسبت شرح خواندگی پہلے بھی زیادہ تھی اور اب بھی زیادہ ہے۔ یہ وہ اپنے مفاد کے لیے کرتے تھے یا عام لوگوں کے مفاد کے لیے یہ کہنا مشکل ہے۔

کوئی بھی حتمی بات کہنا میرے لیے خاصا مشکل ہے!

واردہ میں راجستھان سے تعلق رکھنے والا ایک امیر خاندان رہتا تھا۔ اس خاندان کا ایک فرد جمنا لال ناصرف کانگرس کا ایک متحرک فرد تھا بلکہ کانگرس میں کئی اہم عہدوں پر بھی فائز رہا تھا۔ اسی وجہ سے مہاتما گاندھی کے ساتھ اس کے گہرے تعلقات تھے۔ اس کی وفات کے بعد اس کی سیاسی خدمات کے اعتراف میں بھارتی حکومت نے اس کے نام پر ڈاک ٹکٹ بھی جاری کیے۔ ایک دفعہ مہاتما گاندھی کا اس علاقے سے گزر ہوا تو گاندھی چند دن کے لیے جمنا لال کے گھر ہی ٹھہرے۔ اس دوران گاندھی نے شہر کے ساتھ ایک کھلی جگہ پر لکڑی کا ہٹ بنا کر رہنے کا فیصلہ کیا۔ یہاں ایک طرح سے نیا گاؤں بسایا گیا۔

مہاتما گاندھی نے اس کا نام سیوا گرام یعنی خدمت کرنے والا گاؤں رکھا۔ مہاتما گاندھی نے یہ فیصلہ کیوں کیا؟ اس کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔ اس وقت یہ ایک دور دراز علاقہ سمجھا تھا۔ آمدو رفت کے ذرائع بھی محدود تھے۔ باقی سب سیاسی پارٹیوں کے دفاتر بڑے شہروں میں تھے۔ مہاتما گاندھی نے یہاں پر اپنا ایک آشرم بنایا جسے آپ ایک ڈیرہ یا حجرہ کہہ سکتے ہیں۔ وہ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ 1936 ء سے 1948 ء تک اس آشرم میں رہے۔

یاد رہے دہلی میں جب انھیں قتل کیا گیا تو اس وقت بھی ان کی مستقل رہائش اسی علاقہ میں تھی۔ ان بارہ سالوں میں ہندوستان کی تحریک آزادی بہت زوروں پر تھی۔ مہاتما گاندھی نے اپنی تمام تر سیاسی سرگرمیاں اسی گاؤں سے جاری رکھیں۔ اب اس گاؤں کو محفوظ کر لیا گیا ہے اور ایک عجائب گھر میں مہاتما گاندھی کی ذاتی استعمال کی تمام اشیاء رکھی گئیں ہیں۔

میں نے حال ہی میں مہاتما گاندھی کی آپ بیتی پڑھی جو پاکستان میں تلاش حق کے نام سے شائع ہوئی ہے۔ اس کتاب سے مجھے مہاتما گاندھی کے بچپن سے سیاست میں حصہ لینے تک کے تمام واقعات جاننے کا موقع ملا۔ میرا خیال ہے سیاست میں دلچسپی رکھنے والے لوگوں کو وہ کتاب ضرور پڑھنی چاہیے۔ اس سے انھیں اس دور کے حالات کا بخوبی اندازہ ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments