میر جعفر و میر صادق کون؟


جب پاکستان کی پارلیمنٹ نے عمران خان سے اقتدار چھینا تو تو ان کا ٹارگٹ پاکستان کی تین شخصیات تھیں بندوق کی شست پر تو آصف علی زرداری تھے ہی البتہ دوسری شخصیات میں شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمنٰ ہی جن سے انہوں نے نمٹنا تھا کبھی کبھار ان کا روئے سخن میاں نواز شریف بھی ہوتے لیکن جب عمران خان نے دیکھا کہ میدان خالی پڑا ہے انہوں نے رمضان المبارک میں پشاور، کراچی اور لاہور میں بڑے جلسے منعقد کر کے اپنی سیاسی دھاک بٹھا دی۔ پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا نے ان جلسوں میں عوام کی غیر معمولی شرکت کا ایسا ڈنکا بجایا کہ ہر طرف یہی کہا جانے لگا اب عمران خان کے اسلام آباد پہنچنے کی دیر ہے ہر چیز خس و خاشاک کی طرح بہہ جائے گی عمران خان نے اپنے آبائی شہر میانوالی میں جلسہ رکھ دیا اب تک کی اطلاعات کے مطابق عمران خان کے جلسوں میں سامعین کی بہت بڑی تعداد شرکت کر رہی ہے اس لئے وہ ہر جلسہ میں اسلام آباد کی جانب مارچ کرنے کا اعلان کر رہے ہیں سر دست کسی حکومتی عہدیدار نے عمران خان کے جلسوں کے چیلنج کو قبول نہیں کیا لیکن پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے عمران خان کا چیلنج قبول کر لیا ہے انہوں نے میانوالی کے مقابلے میں فتح جنگ میں ایک بڑا ”پاور شو“ کر کے عمران کو یہ پیغام دیا ہے کہ مسلم لیگ (ن) ان کے لئے سیاست کا میدان کھلا نہیں چھوڑے گی مسلم لیگ (ن ) کے علاوہ جمعیت علما اسلام نے 19 مئی 2022 ء کو کراچی میں پاور شو رکھ دیا ہے وزیر اعظم شہباز شریف بھی مسلم لیگ (ن) خیبر پختونخوا کے صدر امیر مقام کی دعوت پر شانگلہ میں ایک بہت بڑے جلسہ سے خطاب کر چکے ہیں امیر مقام وادی سوات کے بے تاج بادشاہ ہیں وہ مختصر نوٹس پر ہزاروں افراد کو اکٹھا کر نے کی صلاحیت رکھتے ہیں لیکن سوال یہ ہے عمران خان پی ٹی آئی کے پلیٹ فارم پر جلسے جلوس کی سیاست کر رہے ہیں جب ان کے جلسوں کا جواب دینے کے لئے ہر پارٹی اپنے اپنے الگ جلسے کر رہی ہے اس وقت کم و بیش 11، 12 جماعتوں پر مشتمل پی ڈی ایم کی مخلوط حکومت قائم ہے اگر پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم کو حکومتی اتحادی جماعتوں کے پلیٹ فارم پر جلسہ کیا جائے تو وہ عمران سے بڑا جلسہ نہ سہی اس کی ٹکر کا جلسہ ہو گا عمران خان کی ایبٹ آباد میں ایک بڑے جلسہ سے خطاب کی ٹون (tone) ہی بدل گئی ہے انہوں نے اسلام آباد کی کال کے جلسوں کو انتخابی جلسوں میں تبدیل کر دیا ہے وہ اپنی پونے چار سالہ کارکردگی بیان کرنے کی بجائے اب ان اسٹیبلشمنٹ کو بھی چیلنج کرنے لگے ہیں وہ جو کل تک یہ کہہ رہے تھے انہیں امریکہ نے ہٹوایا ہے اب وہ اپنے بیانیہ کا رخ ان قوتوں کی طرف موڑ رہے ہیں جن کے کندھوں پر سوار ہو کر ”تخت اسلام آباد“ پر براجمان ہوئے تھے۔

عمران خان جس تناظر میں میر جعفر و میر صادق کا ذکر کرتے ہیں وہ ہر کسی کو سمجھ آ رہی ہے فوج کے ترجمان نے عمران خان کی اشتعال انگیزی کا سخت نوٹس لیا ہے اور کہا ہے کہ افواج پاکستان اور اس کی قیادت کو ملوث کرنے کی دانستہ کوششیں کی جا رہی ہیں پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کا مختصر لیکن جامع بیان آ گیا۔ بیان میں کہا گیا کہ پاک فوج اور قیادت کو سیاسی معاملات میں گھسیٹنے کی دانستہ کوششیں کی گئی ہیں، کچھ سیاسی شخصیات، چند صحافی اور تجزیہ کار سوشل میڈیا اور دیگر فورمز پر افواج کو سیاست میں گھسیٹ رہے ہیں۔ یہ حقیقت کے برخلاف، ہتک آمیز اور اشتعال انگیز بیانات نہایت نقصان دہ ہیں، ملک کے بہترین مفاد میں مسلح افواج کو ایسے غیرقانونی اور غیر اخلاقی عمل سے دور رکھا جائے۔ آئی ایس پی آر نے اس توقع کا اظہار کیا ہے کہ سب قانون کی پاسداری کریں گے، افواج کو بہترین ملکی مفاد میں سیاسی گفتگو سے دور رکھیں۔

فوج کے ترجمان کا بیان انتباہ سمجھا جائے یا ایڈوائس۔ بہت کچھ ہو گیا ہے۔ اشتعال انگیز بیانات پر فوج کی برہمی بلا جواز نہیں۔ عمران خان کے بیان کا نوٹس وزیر اعظم شہباز شریف نے بھی لیا ہے اور ایبٹ آباد میں عمران خان کے خطاب کو پاکستان کے خلاف سازش قرار دیا ہے۔ پاکستان کے قومی اداروں کے خلاف سازشی بیانیہ گھڑنے والا اصل میں میر جعفر اور میر صادق ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایبٹ آباد میں عمران خان نے ریاست پاکستان، آئین اور قومی اداروں کو چیلنج کیا ہے۔ انہوں نے عمران خان کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکمران اور اسٹیبلشمنٹ عمران خان کو ”نیا ہٹلر“ بننے کا موقع فراہم کرتی ہے یا ان کو قومی اداروں کے خلاف زبان درازی کو یہیں روک دیا جاتا ہے اس بارے میں حکومت کو آئندہ چند دنوں میں فیصلہ کرنا ہو گا۔ اس بارے میں کچھ لوگوں کی رائے ہے کہ ان کو مزید کچھ روز اور برداشت کر لیا جائے۔ عمران خان کی سیاسی جد و جہد یہی کوئی 27، 28 برسوں پر محیط ہے۔ اب تک عمران خان نے اپوزیشن تو کی ہے لیکن انہوں نے سیاست کا ”گرم سرد موسم“ نہیں دیکھا۔ ان کے کریڈٹ میں چند گھنٹے کی تھانے کی قید ہے۔ انہوں نے جیل یاترا نہیں کی۔ ساری زندگی انجوائے ہی کیا ہے۔ اب تک کسی حکمران نے ان کی گردن پر ہاتھ نہیں ڈالا۔ جب ان کے مد مقابل مسلم لیگی رہنماؤں میاں نواز شریف، میاں شہباز شریف، مریم نواز، حمزہ شہباز شریف، شاہد خاقان عباسی، احسن اقبال، خواجہ آصف، رانا ثنا اللہ، چوہدری تنویر خان، مفتاح اسماعیل، مخدوم جاوید ہاشمی، پیپلز پارٹی کے رہنماؤں آصف علی زرداری، سید خورشید شاہ اور جمعیت علما اسلام کے رہنماؤں مولانا فضل الرحمنٰ سمیت قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے والے لیڈروں کی ایک طویل فہرست ہے اسی لئے تو پی ٹی آئی کے رہنما طعنہ دیتے ہیں کہ آدھی سے زیادہ کابینہ ضمانت پر رہا ہوئی ہے ان کی حکومت کا آخری شکار چوہدری تنویر خان ہے جس کی قانونی اراضی پر بلڈوزر چلوا دیے۔ یہ تو ان کی خوش قسمتی تھی کہ ادھر چوہدری تنویر خان کو جیل کا مہمان بنایا گیا تو عمران خان کی حکومت کے خاتمہ کا پروانہ آ گیا۔

جب سے میاں نواز شریف کو جیل کی سزا ہوئی ہے وہ عملی طور ملکی سیاست میں نہیں لیکن وہ لندن میں بیٹھ کر ”ریموٹ کنٹرول“ سے نہ صرف ان کی اپنی جماعت کو چلا رہے ہیں بلکہ پوری اپوزیشن میں ان کو ”ویٹو“ کی پاور حاصل ہے آصف علی زرداری جو کہ خود بھی ایک بڑے سیاست دان ہیں میاں نواز شریف کے ہاتھ پر بیعت کر چکے ہیں اپنے صاحبزادے بلاول بھٹو زرداری کو میاں شہباز شریف کی کابینہ کا رکن بنوا دیا ہے۔ جیل نے میاں نواز شریف کو کندن بنا دیا ہے اب تو ان کی صاحبزادی بھی جیل یاترا کے بعد ہر طاغوتی قوت سے ٹکرا جانے کا عزم لے کر ملکی سیاست میں عمران خان کو چیلنج کر رہی ہیں۔ مسلم لیگ (ن) میں میاں نواز شریف کا کوئی متبادل نہیں آج بھی عوام اس امیدوار کو ووٹ دیتے ہیں جس کے پارٹی ٹکٹ پر میاں نواز شریف کی مہر ہو۔

اگرچہ میاں شہباز شریف مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہباز شریف ہیں اور وہ ایک مرد آہن کے طور پر شہرت رکھتے ہیں لیکن پارٹی کے تمام فیصلے میاں نواز شریف کے ہاتھ میں ہی ہیں۔ انہوں نے ہی مریم نواز کو عمران خان کا مقابلہ کرنے کے لئے میدان میں اتار دیا ہے۔ وہ اب تک جلسوں میں صرف عمران خان کو ہی ٹارگٹ بنا رہی ہیں۔ ایک لحاظ سے وہ تنہا پی ٹی آئی کی یلغار کا مردانہ وار مقابلہ کر رہی ہیں۔ انہیں عوام کی طرف سے بے پناہ رسپانس مل رہا ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے بعد مریم نواز ہماری سیاسی تاریخ کی دوسری خاتون ہیں جنہیں میاں نواز شریف کی ممکنہ سیاسی جانشین ہونے کی وجہ سے جیل بھجوا دیا گیا۔ ان کی جیل یاترا کے دوران ان کی والدہ محترمہ کا انتقال ہو گیا۔

عمران خان نے اقتدار سے نکالے جانے کو ”عالمی سازش“ قرار دیا اور یہی بیانیہ لے کر عوام میں آئے ہیں۔ ابتدا میں اس ”بیانیہ“ کو عوام میں پذیرائی بھی حاصل ہوئی لیکن جوں جوں اس ”بیانیہ“ کی حقیقت عوام کے سامنے آ رہی ہے۔ اس کے اثرات زائل ہو رہے ہیں۔ اب وہ ایک سانس میں کہہ رہے ہیں کہ ”انہیں حکومت گرانے کی سازشوں کا جولائی 2021ء سے علم تھا، اس لئے ڈی جی آئی ایس آئی بدلنا نہیں چاہتا تھا۔ یہ تاثر دیا گیا کہ میں جنرل فیض حمید کو آرمی چیف بنانا چاہتا ہوں ’میرے ذہن میں ایسی کوئی بات نہیں تھی۔ نون لیگ والے ری انٹری کرنے والے ہیں، یہ جو انہوں نے ابھی کیا ہے مجھے گزشتہ برس جولائی سے پتہ چلنا شروع ہو گیا تھا کہ انہوں نے پورا پلان بنایا ہوا ہے حکومت گرانے کا، لہٰذا میں نہیں چاہتا تھا کہ جب تک سردیاں نہ نکل جائیں ہمارا انٹیلی جنس چیف تبدیل ہو اور یہ کوئی خفیہ بات نہیں تھی، میں نے اپنی کابینہ میں کھلے عام کہا تھا کہ جب آپ پر مشکل وقت ہے تو آپ اپنے انٹیلی جنس چیف تبدیل نہیں کرتے کیوں کہ وہی حکومت کی آنکھ اور کان ہوتا ہے“ ۔

دوسرے ہی سانس میں انہوں نے کہا ہے کہ ”پاکستان میں کون حکومت کرے گا؟ فیصلہ امریکہ نہیں، عوام کریں گے‘ جب بھی حق اور باطل، سچ اور جھوٹ کا مقابلہ ہو تو حق اور اچھائی کا ساتھ دینے کا اللہ کا حکم ہے ’نیوٹرل جانور ہوتا ہے انسان نیوٹرل نہیں ہوتا“ ۔ پونے چار سال حکومت کرنے کے بعد عمران خان کو اچانک میانوالی سے حقیقی آزادی کی تحریک شروع کرنے کا اعلان کر دیا ہے اور کہا ہے کہ 20 مئی 2022 ء کے بعد کسی بھی دن اسلام آباد کی کال دوں گا اسے رانا ثنا اللہ روک سکے گا اور نہ شہباز شریف۔

اسلام آباد میں تاریخ کا سب سے بڑا عوام کا سمندر آنے والا انہوں نے سوال اٹھایا کہ ”عدالتیں رات 12 بجے کھل سکتی ہیں تو ان چوروں کو کیوں ڈس کوالیفائی نہیں کیا جا سکتا؟ عمران خان کی تقاریر تضادات کا مجموعہ ہے ان کا کہنا ہے کہ“ ہمارا قصور صرف یہ تھا کہ ہم ایک آزاد خارجہ پالیسی چلانا چاہتے تھے، آزاد خارجہ پالیسی کا مطلب امریکہ مخالف ہونا نہیں ہے، میں تو بھارت مخالف بھی نہیں ہوں‘ وہ یہ چاہتے تھے کہ ہم روس کا دورہ منسوخ کریں، روس کے ساتھ تجارت بھی نہ کریں، چین کے ساتھ اپنے روابط محدود کریں، افغانستان پر نظر رکھنے کے لئے اڈے بھی مانگ رہے تھے، اس لئے انہیں یہ لگا کہ میرے ہوتے ہوئے وہ پاکستان کو ٹشو پیپر کی طرح استعمال نہیں کر سکیں گے ان کی اس بات میں اس حد تک ضرور صداقت پائی جاتی ہے کہ امریکہ ان کے دورہ روس کو ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھ رہا تھا لیکن یہ بات تو ریکارڈ پر موجود ہے کہ امریکہ نے پاکستان سے اڈے مانگے ہی نہیں لیکن انہوں نے خود اس بات کا اعتراف کیا وہ گزشتہ سال جولائی سے ہی محسوس کر رہے تھے کہ ان کے خلاف سازش ہو رہی ہے تو پھر 8 مارچ 2022 میں انہیں کیسے پتہ چلا کہ ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو امریکہ کی حمایت حاصل ہے کیا عمران خان کو معلوم نہیں تھا۔ 20 ستمبر 2020 کو پی ڈی ایم کے 26 نکاتی اعلامیہ میں حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو نمایاں پوزیشن حاصل تھی جس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ میاں نواز شریف تھے جو یہ سمجھتے تھے کہ عمران خان کو لانے والوں کے غیر جانبدار ہوئے بغیر تحریک عدم اعتماد کامیاب نہیں ہو سکتی۔ پھر ان کے دو سابق وزراء اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ ”اگر اسٹیبلشمنٹ ناراض نہ ہوتی تو وہ آج حکومت میں ہوتے“ دوسرے نے تو کہا کہ ”ہم سے کہیں تو کوئی غلطی ہوئی ہے“ عمران خان نے ہی سکندر سلطان راجہ کا نام چیف الیکشن کمشنر کے لئے تجویز کیا تو ان کی تعریف کے طومار باندھ دیے اب چونکہ وہ ان کی ہر بات میں ہاں میں ہاں نہیں ملاتے تو ان کی طرف سے یہ کہا جانے لگا کہ ان کی اسٹیبلشمنٹ نے سفارش کی تھی۔ اب عمران خان کہتے ہیں کہ ”میں نے ان سے زیادہ متعصب آدمی پاکستان کی تاریخ میں نہیں دیکھا، آئین میں لکھا ہے کہ حکومت جانے کے بعد 3 مہینے میں لازمی الیکشن کروانے ہیں، یہ کس منہ سے کہہ رہا ہے کہ 7 ماہ سے پہلے الیکشن نہیں کروا سکتے۔

عمران خان کا یہ تجزیہ حقیقت پر مبنی ہے کہ انہیں پارلیمنٹ میں اکثریت نہ ہونے پر حکومت نہیں سنبھالنی چاہیے تھی۔ کچھ تبدیلیاں حکومت میں آتے ہی کر لینی چاہیے تھیں کیونکہ بعد میں وہ بہت مشکل ہو جاتی ہیں، حکومت میں آنے کے بعد پہلے سے پتا ہونا چاہیے کہ اہم عہدوں پر کس نے آ کر بیٹھنا ہے، نیب اور عدلیہ تو ہمارے ہاتھ میں نہیں تھی لیکن باقی اداروں کی بھی آخری سال میں سمجھ آئی، اگلی بار پہلے سے پلاننگ کر کے آئیں گے، معلوم ہو گا کہ کرنا کیا ہے اور اہم عہدوں پر کسے بٹھانا ہے۔ گویا عمران خان ابھی تک اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ وہ دوسری بار اقتدار کے مزے لوٹنے کے لئے آرہے ہیں۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز بھی جلسوں میں عمران خان کو ہی آڑے ہاتھوں لے رہی ہیں۔ پوری پی ڈی ایم سوئی ہے۔ مریم نواز کے جلسے پی ڈی ایم کو بیدار کر رہے ہیں اور وہ ان کو آنے والے سیاسی خطرات سے آگاہ کر رہی ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ ”ایک تقرری کیا ہوئی، عمران خان کی آنکھیں بھی گئیں اور کان بھی گئے، بے فیض ہوتے ہی عمران حکومت دھڑام سے نیچے آ گری، عمران خان نے کہا ہے وہ شخص میری آنکھ اور میرے کان تھا، ہم جانتے ہیں وہ تمہارا آنکھ اور کان نہیں تھا بلکہ تمہارا ہاتھ تھا جس سے تم اپنے سیاسی مخالفین کی گردنیں دبوچتے تھے، عمران خان کو اپنی حکومت اور کرسی جانے سے زیادہ تکلیف شہباز شریف کے وزیراعظم بننے پر ہے، وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا کہ عمران خان کی نالائقی اور کرپشن کے ٹو کے پہاڑ ہیں کسی اور چیز کی ضرورت نہیں ہے، لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بنچ کے جسٹس چوہدری عبدالعزیز نے تھانہ نیو ائرپورٹ فتح جنگ ضلع اٹک میں درج مقدمہ میں سابق وزیر داخلہ شیخ رشید کی 18 مئی 2022 ء تک عبوری ضمانت منظور کرلی ہے۔ وہ اپنے “سسرال” جانے سے خوفزدہ دکھائی دیتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments