میر جعفر: نمک حرام غدار یا اقتدار کی جنگ کا ایک مجبور کردار؟
تاریخ دان ولیم ڈالرمپل اپنی کتاب انارکی میں میر جعفر کو ایک قابل سپہ سالار اور نا اہل حکمران قرار دیتا ہے۔ سراج الدولہ کے بارے میں وہ نواب کے حلیف فرانسیسی سردار جین لا اور سراج الدولہ کے رشتے دار اور سردار غلام حسین خان کے بیان پر زیادہ انحصار کرتا ہے اور اسے ایک نا اہل اور عیاش حکمران قرار دیتا ہے۔ اس کے مطابق میر جعفر صرف ایک چہرہ تھا ورنہ اس بغاوت کے پیچھے نواب کے دربار کے بہت سے اہم سردار موجود تھے۔ اس کے مطابق بھی انگریزوں نے درباریوں کو نہیں خریدا تھا بلکہ درباریوں نے سراج الدولہ سے جان چھڑانے کے لیے بھاری رقم دے کر انگریزوں کو خریدا تھا۔ ڈالرمپل کے مطابق میر جعفر نے پلاسی میں لارڈ کلائیو کو ساتھ شامل ہونے کی یقین دہانی کروائی تھی۔ اپنے اقتدار کے شروع میں پورنیہ کی بغاوت کچلنے کے لیے سراج الدولہ نے بنگال کے سب سے بڑے ساہوکار جگت سیٹھ سے تین کروڑ روپے مانگے تھے، اور اس کے انکار پر اسے تھپڑ رسید کیا تھا۔ جگت سیٹھ کے اثر رسوخ کا اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ علی وردی خان کو نواب بنانے میں اس کا ہاتھ تھا۔ جگت سیٹھ کو سراج الدولہ تضحیک کا نشانہ بناتا رہتا تھا اور اس کے ختنہ کرنے کی دھمکیاں دیتا تھا۔ سراج الدولہ کے خلاف سازش میں جگت سیٹھ کا کلیدی کردار تھا۔
ڈالرمپل کے مطابق جنگ میں میر مدن کے مارے جانے اور انگریزوں کے حملے کے بعد میر جعفر نے اپنی فوجیں میدان جنگ سے ہٹا لی تھیں اور دیکھا دیکھی باقی فوج بھی راہ فرار اختیار کر گئی۔
انجمن ترقی ہند کی 1942 میں شائع کردہ کتاب ”سراج الدولہ“ میں مصنف محمد عمر کا بیان کچھ مختلف ہے۔ اس کے مطابق سراج الدولہ درباریوں کی توہین نہیں کرتا تھا۔ میر جعفر ایک ریاکار اور نا اہل شخص تھا۔ پلاسی کی جنگ میں میر مدن کی موت کے بعد سراج الدولہ نے میر جعفر کو اپنے پاس بلایا۔ سراج الدولہ نے نہایت عاجزی کے ساتھ، ”بلکہ بعض تو یہ افواہ بیان کرتے ہیں کہ پگڑی اس کے پاؤں پر رکھ کر کہا، ’جو کچھ میں نے کیا اس کا افسوس ہے، آپ میرے رشتے دار ہیں، علی وردی خان نے آپ پر بے انتہا نوازشیں کی ہیں، اور مجھے امید ہے کہ میری غلط کاریوں کو معاف کر کے ایسا طرز عمل اختیار کریں گے جو ایک سید کو زیب دیتا ہے۔ میں اپنے آپ کو آپ کے سپرد کرتا ہوں، میری عزت اور زندگی آپ کے ہاتھ میں ہے‘ ۔“
میر جعفر کچھ متاثر ہوا۔ اس نے کہا کہ سورج غروب ہونے کو ہے، حملے کا وقت نہیں، اب فوجیں واپس بلا لیں۔ نواب نے شب خون کا خدشہ ظاہر کیا تو میر جعفر نے کہا کہ وہ اس کا ذمہ لیتا ہے۔ نواب نے موہن لال کو میدان جنگ سے واپس آنے کا حکم دیا جس کا توپ خانہ دشمنوں پر قہر برسا رہا تھا۔ وہ جنگ کو انجام تک پہنچانا چاہتا تھا مگر نواب کے اصرار پر وہ میدان جنگ سے ہٹ گیا۔ اسے ہٹتے دیکھ کر نواب کی فوج میدان سے فرار ہو گئی۔ نواب سراج الدولہ بھی یہ دیکھ کر فرار ہو گیا۔
پھر سراج الدولہ کی موت کا ذکر کرتے ہوئے محمد عمر لکھتے ہیں کہ ”وہ ایسی بری حالت میں تھا کہ جس نے اس کی یہ گت دیکھی کانپ اٹھا اور سب اس کا جاہ و حشم یاد کر کے سر پیٹنے لگے اور ان کے دلی جذبات ترحم اور ہمدردی سے معمور ہو گئے اور اس کی بدمزاجی اور بے رحمی کو بھول گئے۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ جب اسے چند فوجی سپاہیوں کے ڈیرے کے سامنے لے گئے تو وہ اس دل خراش منظر کو برداشت نہ کر سکتے اور سراج الدولہ کو بچانے پر کمربستہ ہو گئے مگر ان کے افسروں نے انہیں باتوں میں لگا کر باز رکھا“ ۔
مورخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ تین ہزار سپاہیوں پر مشتمل فوج کے سپہ سالار لارڈ کلائیو کو پلاسی میں اپنی شکست کا یقین تھا۔ وہ ابتدائی نقصان اٹھا کر آموں کے باغ میں پناہ لے چکا تھا۔ رات کی تاریکی میں وہ فرار ہونے کے منصوبے بنا رہا تھا کہ شام ہی کو پچاس ساٹھ ہزار فوج کا سربراہ نواب سراج الدولہ فرار ہو گیا اور پھر میر جعفر کے بیٹے میرن کے ہاتھوں اذیت ناک موت مارا گیا۔
میر جعفر کو برا بھلا کہنے سے پہلے خوب سوچ سمجھ لیں
- ولایتی بچے بڑے ہو کر کیا بننے کا خواب دیکھتے ہیں؟ - 26/03/2024
- ہم نے غلط ہیرو تراش رکھے ہیں - 25/03/2024
- قصہ ووٹ ڈالنے اور پولیس کے ہاتھوں ایک ووٹر کی پٹائی کا - 08/02/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).