’بلڈوزر کی سیاست‘ پر شاہین باغ ایک بار پھر خبروں میں

مرزا اے بی بیگ - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، دہلی


انڈیا میں شہریت کے ترمیمی قانون کی مخالفت کے لیے شہ سرخیوں میں آنے والا علاقہ شاہین باغ ایک بار پھر سرخیوں میں ہے۔

اس بار شاہین باغ دارالحکومت دہلی کے جنوبی علاقے میں غیرقانونی تجاوزات کو ختم کرنے کے لیے بلڈوزر چلانے کے خلاف سرپا احتجاج نظر آیا۔

سوشل میڈیا پر بلڈوزر کے واپس جانے کو شاہین باغ کی جیت کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ جبکہ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ بلڈوزر کا استعمال انڈیا میں اقلیت اور بطور خاص مسلمانوں کو ڈرانے کے لیے کیا جا رہا ہے۔

پیر کو جنوبی دہلی میں مبینہ غیر قانونی تجاوزات کو ہٹانے کے لیے بڑے پیمانے پر پولیس کی نفری کے درمیان بلڈوزر کے سامنے مقامی افراد سراپا احتجاج نظر آئے۔

اس علاقے سے عام آدمی پارٹی کے ایم ایل اے امانت اللہ خان نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ دہلی میونسپل کارپوریشن (ایم سی ڈی) ماحول خراب کرنے کے لیے یہ کارروائی کر رہی ہے۔

خبر رساں ادارے اے این آئی کے مطابق امانت اللہ خان نے کہا کہ ان کے کہنے پر علاقے میں پہلے ہی تجاوزات کو ہٹا لیا گیا تھا۔

انھوں نے کہا: اس سے قبل پولیس کی موجودگی میں ایک مسجد کے باہر وضو خانے اور ٹوائلٹ کو ہٹا دیا گيا تھا۔ اب جبکہ وہاں کوئی تجاوزات نہیں ہے تو وہ سب یہاں کیوں آئے ہیں۔ کیا صرف سیاست کرنے آئے ہیں؟’

https://twitter.com/ANI/status/1523548711946956800

انھوں نے کہا کہ ‘جب ہم نے تمام تجاوزات ہٹوا دیا ہے تو پھر ایم سی ڈی سی ماحول خراب کرنے آئی ہے۔ اگر ہماری حلقے میں کوئی (غیر قانونی) تجاوزات ہیں تو ہمیں بتائيں، ہم انھیں ہٹوائیں گے۔’

بہرحال ان کے اور دوسرے متعدد لوگوں کے خلاف پولیس میں ایف آئی آر درج کی گئي ہے کہ انھوں نے سرکاری اہلکار کو ان کے فرائض کی ادائیگی میں رخنہ ڈالا ہے۔

واضح رہے کہ دہلی میں عام آدمی پارٹی کی حکومت ہے لیکن میونسپل کارپوریشن میں بی جے پی برسراقتدار ہے۔

بہرحال خبر رساں اے این آئی سے بات کرتے ہوئے جنوبی دہلی کی میونسپل کارپوریشن میں سینٹرل زون کے چیئرمین راج پال سنگھ نے کہا کہ ‘شاہین باغ میں تجاوزات ہٹانے کے معاملے میں کارپوریشن کو قانونی شکست نہیں ہوئی ہے اور سپریم کورٹ نے تجاوزات ہٹانے کی مہم پر روک لگانے والی درخواست کو مسترد کر دیا ہے۔’

انھوں نے مزید کہا کہ شاہین باغ میں تجاوزات ہٹانے کی مہم کو کیوں روکا گيا اس بارے میں ایک جائزہ میٹنگ ہو رہی ہے اور حکام سے اس بابت تفتیش کی جائے گی۔

دی وائر کی صحافی سمیدھ پال نے شاہین باغ کی ایک رہائشی سے بات کی ہے اور ان کی کلپ انھوں نے سوشل میڈیا پر شیئر کی ہے جس میں احتجاج کرنے والی خاتون کا کہنا ہے کہ ‘ایم سی ڈی میں 15 سال سے بی جے پی ہے لیکن اچانک انھیں یاد آتا ہے کہ شاہین باغ کے اندر تجاوزات ہے۔ یہ چن کر نفرت کی سیاست کرتے ہیں۔ جو ان کے فرقہ پرست ووٹرز ہیں ان کو خوش کرنے کے لیے یہاں پر بلڈوزر لایا گیا ہے۔’

https://twitter.com/Sumedhapal4/status/1523599751991549952

ہم نے مسلم مسائل پر نظر رکھنے والے اور جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پروفیسر محمد سہراب سے اس کے متعلق سوال کیا تو انھوں نے کہا کہ غیر قانونی تجاوزات کو اگر قانونی طور پر ہٹایا جا رہا ہے تو اس پر کسی کو اعتراض نہیں ہے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ‘ملک کے مختلف حصوں میں اور بطور خاص جہاں بی جے پی اور آر ایس ایس کی حکمرانی ہے وہاں ایک طرح کا بلڈوزر آپریشن چل رہا ہے۔ اور اگر یہ بلڈوز آپریشن قانون کے دائرے میں عمل پیرا ہے تو اس سے کسی کو کوئی پریشانی ہو نہیں سکتی اور ہونا بھی نہیں چاہیے۔ لیکن یہ بلڈوزر آپریشن واضح طور پر بتاتا ہے یہ مخصوص گروپ بطور خاص اقلیت اور اس میں بھی مسلمان کے خلاف اجتماعی سزا کے لیے حکومت کا آلہ بن گیا ہے۔۔۔’

انھوں نے مزید کہا: ‘یہ بلڈوزر کو صرف اس لیے استعمال نہیں کر رہا ہے کہ اس سے تجاوزات کو ہٹایا جائے بلکہ یہ بلڈوزر ایک علامتی معنی اختیار کر گيا ہے اور اس کا معنی یہ ہے کہ یہ مسلمانوں کو دہشت زدہ کرنے علامت بن گيا ہے۔ یہ اقلیت کے خلاف سٹیٹ کی من مانی کی علامت بن گیا ہے۔ یہ ایک خصوصی طبقے کے خلاف سٹیٹ کی قوت کے اظہار کی علامت بن گيا ہے۔ اس علامتی پیغام کو پہچاننا بہت ضروری ہے۔’

یہ بھی پڑھیے

مدھیہ پردیش: انڈین ریاست میں مسلمانوں کے مکانات کو کیوں مسمار کیا جا رہا ہے؟

انڈیا میں مسلمانوں پر تشدد کے واقعات پر کینیڈا سے تنقید کیوں کی جا رہی ہے؟

انڈیا میں لفظ ’مِنی پاکستان‘ کے استعمال نے کیسے زور پکڑا؟

اس بات کا اظہار سوشل میڈیا پر بھی واضح طور پر نظر آ رہا ہے۔ اس سے قبل اترپردیش، مدھیہ پردیش اور دارالحکومت دہلی کی جہانگیرپوری میں بلڈوزر کا استعمال کیا جا چکا ہے۔

اترپردیش میں سرکاری زمینوں کو مافیا کے چنگل سے چھڑانے کے لیے بلڈوزر کا جس پیمانے پر استعمال کیا گيا کہ ریاست کے وزیراعلی یوگی آدتیہ ناتھ کو عام طور پر یوگی یا بابا کہا جاتا ہے لیکن اس کے بعد انھیں میڈیا میں ‘بلڈوزر بابا’ کہا جانے لگا۔

اس کے بعد مدھیہ پردیش کے وزیر اعلی شیوراج سنگھ چوہان کو ‘بلڈوزر ماما’ کہا گیا کیونکہ انھوں نے فسادات میں ہونے والے نقصانات کی بازیابی کے لیے سخت قانون بنایا اور 22 مارچ کو جب ریاست کے رائسین ضلعے میں دو برادریوں کے درمیان ہونے والی جھڑپ میں ایک نوجوان کی موت کے بعد وزیر اعلی نے ملزم کے گھر کو بلڈوزر سے ڈھانے کا حکم دے دیا تھا۔

اسی طرح ہندوؤں کے تہوار رام نومی کے موقعے پر ریاست مدھیہ پردیش کے ہی کھرگونے ضلعے میں ہونے والے پر تشدد واقعات میں کئی درجن مکان اور املاک کو نقصان پہنچا تھا جس کے بعد وزیر اعلی نے مبینہ پتھر پھینکنے والوں کے 16 مکانوں اور 29 دکانوں کو ڈھانے کے لیے بلڈوزر چلوایا تھا اور ان کے اس قدم پر انھیں تنقید کا نشانہ بنایا گيا تھا۔

اسی طرح دہلی کے جہانگیرپوری میں بھی فرقہ وارانہ تشدد کے بعد ایم سی ڈی نے بلڈوزر کا استعمال کیا جس پر عدالت کے حکم کے بعد روک دیا گیا لیکن اس کے بعد ایم سی ڈی نے تجاوزات کے خلاف آپریشن چلا رکھا ہے۔

پروفیسر سہراب کا کہنا ہے کہ اب تک جس طرح کے واقعات رونما ہوئے ہیں اس سے ایسا لگتا ہے کہ جرم کے ثابت ہونے سے قبل ہی سزا دینے کا عمل ہو رہا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ‘کسی بھی سول سوسائٹی میں میں جہموری نظام میں کوئی شخص اس وقت تک معصوم ہے جب تکہ اس کا گناہ ثابت نہیں ہو جاتا۔ لیکن مسلمانوں کے معاملے میں یہ ایک حقیقت بن گئی ہے وہ مجرم ہے جب تک کہ وہ معصوم ثابت نہیں ہو جاتا۔’

انھوں نے کہا کہ یہاں بلڈوزر جبر بربردیت اور غیر قانونی عملداری کی علامت بھی اختیار کر گیا ہے۔

سوشل میڈیا پر نبیہ خان نامی ایک صارف نے لکھا: ‘شاہین باغ کے لوگوں نے بلڈوزر کے خلاف احتجاج کیا، یہ وہی دن ہے جب سنہ 1945 میں ہٹلر کی حکومت ختم ہوئی تھی۔ ظالم ایک نہ ایک دن تباہ ہوتا ہے اور مجھے اس پر اپنی ہی ایک نظم یاد آ رہی ہے۔

اور اس کے ساتھ انھوں نے اپنی نظم پوسٹ کی ہے جس میں کہا گیا ہے:

اپنی ذلت کا حساب لے گا، ایک شاہین انسان بن کے،

ہو جاؤگے تم خاک ہٹلر کا انجام بن کے

اٹھائے گا تمہاری جھوٹی خودی کا نقاب

ڈھائے گا تم پر عدل اور ستم کا حساب

آئےگا انقلاب، پہن کر بندی، چوڑیاں، برقعہ اور نقاب’

https://twitter.com/NabiyaKhan11/status/1523710179766063104

اسی طرح سمیع اللہ نامی ایک صارف نے لکھا: غریب مسلمانوں کے گھر پر بلڈوزر چلانا عدالت کی ہتک ہے کیا انڈین عدلیہ اسے دیکھ رہا ہے۔ یہ بی جے پی اور ‏عام آدمی پارٹی کی مسلم مخالف سیاست ہے جو ملک کو شدید طور پر تقسیم کر دے گی۔ قدیم زمانے کی اس بربریت کو روکا جائے۔’

https://twitter.com/SamiullahKhan__/status/1523549093372383233

بہت سے صارفین نے اس بلڈوزر آپریشن کو ہی غیر قانونی کہا ہے اور لکھا ہے کہ بلڈوزر لانے سے پہلے وہاں کے رہائیشیوں کو کوئی نوٹس نہیں دیا گيا۔

انڈیا میں حزب اختلاف کی جماعت کانگریس پارٹی کی نیشنل کنوینر نے ٹویٹ کرت ہوئے لکھا: ‘ہم سب جانتے ہیں کہ یہ اس کا تجاوزات سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ ہمیں بہانے بازی نہیں کرنی چاہیے۔’

https://twitter.com/HasibaAmin/status/1523587281642135554

صحافی سمیدھا پال نے کہا کہ دن بھر ہم وہاں تھے۔ ان کے مطابق مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ لوگوں کو ڈرانے اور ماحول کو منقسم کرنے اور نشانہ بنانے کی کوشش ہے۔’

بہر حال بہت سے لوگ اس کے حق میں بھی باتیں کرتے نظر آتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اسی طرح بنگلہ دیشی اور روہنگیا غیر قانونی طور پر ہمارے ملک میں داخل ہو جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لیے بلڈوزر کی ضرورت ہے نہیں تو یہ نعرہ لگائیں گے کہ ‘انڈیا کسی کے باپ کا نہیں۔’

بی بی سی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32472 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments