عامر لیاقت حسین عروج سے زوال تک


اس بات میں کوئی دو رائے نہیں پاکستانی میڈیا شوبز کی تاریخ میں جتنی تنقید عامر لیاقت پر ہوئی ہے اتنی تنقید آج تک کسی پر نہیں ہوئی۔ کبھی بریلوی مسلک کی نمائندگی کرنے پر دوسرے مسلک سے تعلق رکھنے والے حضرات ان کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے۔ تو کبھی لسانی بنیادوں پر اس کو تنقید کا سامنا کرنا پڑتا رہا۔ کبھی اس پر کفر کہ فتوے لگتے رہے تو کبھی اس کو غدار، مٹروا، پناہ گزیر اور بھوکا ننگا کہا گیا۔

عامر لیاقت حسین نامی شخص کے بارے میں یہ آسانی سے کہا جاسکتا ہے کہ وہ آیا اس نے دیکھا اور فتح کیا۔ اپنی عملی سیاست کا آغاز اس نے مہاجر قومی مومنٹ ایم کیو ایم سے شروع کیا جو آج متحدہ قومی مومنٹ ہے۔ اور زمانہ طالب علمی سے ہی اس کہ پاس لفظوں کےذخائر تھے اور اسی بنا پر وہ ایم کیو ایم کہ جلسوں میں اسٹیج سیکرٹری کہ فرائض انجام دیتے رہے۔ اس کہ بعد انھوں نے عملی صحافت کا آغاز ندائے ملت سے کیا جو ان کی خود کی تخلیق تھی۔

مگر 90 کی دہائی میں معروف جاسوسی افسانہ نگار صبیحہ بانو کی سرگزشت جیسی شہرہ آفاق کتاب کے تخلیق کار ایچ اقبال اور زاہد قریشی کی مشترکہ شراکت سے نکلنے والے شام کہ اخبار اردو اخبار روزنامہ پرچم سے منسلک ہو گئے اور وہاں سب ایڈیٹر، ایڈیٹر اور پھر چیف ایڈیٹر تعینات رہے روزنامہ پرچم 90 کی دہائی میں شام کہ اخباروں میں قومی اخبار کے ساتھ سب سے مقبول روزنامہ تھا جس کی سرکولیشن بہت زیادہ ہوا کرتی تھی۔ دراصل یہ اخبار اس وقت ایم کیو ایم کی نمائندگی کرتا تھا جب پاکستانی پرنٹ میڈیا میں ایم کیو ایم کا موقف پیش کرنے کی اجازت نہیں تھی لہذا ایک ایسے وقت میں جب ایم کیو ایم 92 کہ بدترین آپریشن سے گزر رہی تھی اور اخبارات اور ٹیلی ویژن میں اس پر مکمل سنسر شپ جاری تھی اس کڑے وقت میں ایج اقبال، زاہد قریشی اور عامر لیاقت کی کاوشوں سے روزنامہ پرچم اور ہفت روزہ پاک ایشیا ایم کیو ایم کی ترجمانی کرتا رہا۔

روزنامہ پرچم میں لاؤڈ اسپیکر کے عنوان سے عامر لیاقت کہ تحریر کردہ کالمز بہت شوق و ذوق سے پڑھے جانے لگے۔ اس دوران وہ کچھ عرصہ ریڈیو ایف ایم ون او ون سے بھی منسلک رہے۔ عامر لیاقت حسین نے 2002 کے عام انتخابات میں ایم کیو ایم کی ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے نشست پر کامیابی حاصل کی اور انہیں شوکت عزیز کے دور حکومت میں مذہبی امور کا وزیر مملکت بنایا گیا۔ جہاد اور خودکش حملوں کے حوالے سے ان کے متنازع بیانات پر کچھ مذہبی حلقے ان سے ناراض تھے۔

جولائی 2007 میں عامر لیاقت حسین نے قومی اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا ان کا یہ استعفیٰ اس وقت سامنے آیا جب انھوں نے گستاخ رسول بھارتی مصنف سلمان رشدی کو ٹی وی پروگرام میں واجب القتل قرار دیا تھا، اگلے سال یعنی 2008 کو ایم کیو ایم نے عامر لیاقت کی پارٹی رکنیت معطل کردی۔

عامر لیاقت حسین کی اصل وجہ شہرت جیو نیٹ ورک کا پروگرام عالم آن لائن تھا جس نے دیکھتے ہی دیکھتے ان کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا اور اس کہ ساتھ جیو کی رمضان ٹرانسمیشن اور انعام گھر کو عامر لیاقت نے چار چاند لگا دیے۔ اس دوران وہ حاسدین کہ حسد کا بھی شکار رہے۔ مگر انھوں نے خندہ پیشانی اور بہادری سے اپنے اوپر ہونے والی گولہ باری کا مقابلہ کیا۔

2016 میں جب ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین کی متنازع تقریر سے چند روز قبل وہ متحدہ قومی موومنٹ میں دوبارہ سرگرم ہوئے، جب رینجرز نے ڈاکٹر فاروق ستار اور خواجہ اظہار الحسن کو حراست میں لیا تو عامر لیاقت کو بھی اسی روز گرفتار کیا گیا، رہائی کے بعد ڈاکٹر فاروق ستار کی پہلی پریس کانفرنس میں وہ بھی موجود تھے لیکن بعد میں دوبارہ غیر متحرک ہو گئے۔

اس دوران انھوں نے بول نیوز جوائن کیا اور وہاں انھیں ان کہ مزاج سے ہٹ کر ایک ایسا پروگرام ”ایسے نہیں چلے گا“ دیا گیا جو ان کہ مزاج سے ہٹ کر تھا۔ اس ان کہ چاہنے والے مداح ان کو اس روپ میں دیکھ کر شدید رنج و الم کا شکار ہوئے۔ اور پھر نامعلوم اور مشکوک وجوہات کی بناء پر انھوں نے 2017 میں تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی یا کروائی گئی۔ تاہم 2018 میں تحریک انصاف کہ ٹکٹ پر وہ کراچی سے ایم این اے منتخب ہوئے۔ مگر یہاں سے ہی ان کا زوال شروع ہوا۔ پی ٹی آئی میں پہلے سے موجود قبضہ مافیا نے انھیں روز اول سے ہی نظر انداز کرنا شروع کر دیا۔ اور کبھی ان کو کھلے دل سے قبول نہیں کیا۔ جس کا اظہار وہ بارہا کرتے رہے مگر کہیں سے ان کی شنوائی نہیں ہوئی۔

ان کہ ساتھ رونما ہونے والے حالات و واقعات بتاتے ہیں کہ ان ہی وجوہات کی بنا پر وہ ڈپریشن کا شکار ہوتے چلے گئے جس کی وجہ سے نہ صرف ان کا ٹیلی ویژن کیرئیر ختم ہوا بلکہ ان کی نجی زندگی بھی نشیب و فراز کا شکار رہی۔ آج عامر لیاقت کی نجی زندگی کو لے کر ان کو نہ صرف تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے بلکہ ان کا تمسخر بھی اڑایا جاتا ہے۔

کاش ان کا تمسخر اڑانے والے خود کو ان کی جگہ پر رکھ کر سوچیں کہ جس نشیب و فراز سے وہ گزرے ہیں ان کی جگہ آپ میں سے کوئی گزرتا تو اس کی حالت کیا ہوتی۔ آج عامر لیاقت کو اپنے پرستاروں کی ضرورت ہے۔ ان کا تمسخر اڑانے کے بجائے ان کو حوصلہ دیں۔ ان کی ہمت افزائی کریں۔ آپ کی حوصلہ افزائی سے یقیناً وہ زندگی میں واپس آسکتے ہیں۔

زرا اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیں کوئی شخص جو شہرت کی بلندیوں پر ہو جو میڈیا ہاؤسز کی اولین ترجیح ہو۔ روپیہ، پیسہ، عزت، مقام سب اس کے پاس ہو تو وہ کیوں اپنے ہاتھ سے اپنا کیریئر تباہ کرے گا۔ ذرا سوچیئے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments